وسیم سفر بلوچ
زرمبش اردو

ملک میں دن بہ دن بگڑتے ہوئے حالات کی بنیادی وجہ ریاست اور اس کے اداروں کی جارحانہ پالیسیاں ہیں۔ ماورائے عدالت اغوا نما گرفتاریاں، قتل و غارت، اور سیاسی کارکنوں پر جھوٹے مقدمات نہ صرف مسائل کا حل پیش نہیں کرتیں، بلکہ اس کے برعکس نفرتوں اور بیگانگیوں کو جنم دیتی ہیں۔
ملکی حالات کی بہتری کے لیے لازم ہے کہ ریاستی ادارے آئین، قانون اور جمہوری اصولوں پر مکمل طور پر عمل درآمد یقینی بنائیں۔ پُرامن سیاسی جدوجہد کو دبانے کے لیے سیاسی رہنماؤں کی غیر قانونی حراست، ایم پی او، فورتھ شیڈول، نیکٹا اور بوگس مقدمات جیسے ہتھکنڈوں کا استعمال نہ صرف غیر آئینی ہے بلکہ یہ بحران کو مزید پیچیدہ بنا دیتا ہے۔
بلوچستان اور خیبرپختونخوا جیسے شورش زدہ علاقوں میں ریاستی پالیسیوں کا مرکز و محور وہاں کے عوام کی فلاح و بہبود ہونا چاہیے۔ مگر افسوس کہ حقیقت اس کے برعکس ہے۔ معاشی ناکہ بندی، سیاسی استحصال، قومی شناخت کی توہین، اور بلوچ نسل کشی جیسے اقدامات وہاں کے عوام کو ریاست سے مزید دور کر رہے ہیں۔ ان مظالم کے باعث عوام کے دلوں سے آئین اور ریاستی اداروں پر اعتماد ختم ہو چکا ہے۔
ملک کی مقتدر قوتیں آئینی و قانونی دائرہ کار سے ہٹ کر ہر شعبۂ حیات پر قابض ہو چکی ہیں، جس کے نتیجے میں معاشی و سیاسی عدم توازن پیدا ہوا ہے۔ یہ قوتیں خود کو آئین و قانون سے بالاتر سمجھتے ہوئے ہر مسئلے کا حل طاقت کے زور سے نکالنے کی کوشش کر رہی ہیں، جو اکیسویں صدی میں نہ صرف ناممکن بلکہ تباہ کن حکمتِ عملی ہے۔
آج کے باشعور عوام سوال اٹھا رہے ہیں: کیوں بلوچستان اور خیبرپختونخوا کے وسائل سے فائدہ صرف پنجاب اور اسلام آباد کو پہنچ رہا ہے؟ کیوں ان علاقوں کے عوام کو اپنی مرضی سے روزگار کے مواقع حاصل کرنے کی اجازت نہیں؟ کیوں ان کی تقدیر کے فیصلے وفاقی محلات میں بیٹھے چند افراد کرتے ہیں؟
اگر ریاست واقعی قومی وحدت کی خواہاں ہے تو اسے اپنی جارحانہ پالیسیوں کو ترک کرنا ہوگا۔ وسائل پر برابری کی بنیاد پر حقِ ملکیت تسلیم کرنا ہوگا۔ قومی شناخت، زبان، ثقافت اور خودمختاری کا احترام ہی دیرپا اتحاد کی ضمانت ہے۔ بلوچ اور پشتون عوام کو ان کے حقِ حاکمیت، وسائل پر اختیار، اور مرکز میں مساوی نمائندگی دینا وقت کی سب سے بڑی ضرورت ہے۔
گزشتہ ستتر برسوں سے بلوچ اور پشتون عوام کا ناحق خون بہایا جا رہا ہے، لیکن اس پالیسی سے کبھی کوئی مثبت نتیجہ حاصل نہیں ہوا۔ تاریخ اور جغرافیہ اس حقیقت کے گواہ ہیں کہ کوئی بھی سامراجی قوت کسی قوم کو ہمیشہ کے لیے محکوم نہیں رکھ سکتی۔
چین کی سی پیک میں سرمایہ کاری بھی اس حقیقت کو آشکار کرتی ہے کہ ترقیاتی منصوبوں کا مرکز صرف پنجاب رہا، جب کہ بلوچستان اور خیبرپختونخوا آج بھی بنیادی سہولیات سے محروم ہیں۔ یہی محرومی نوجوان نسل میں مایوسی، بے اعتمادی اور ریاست سے بیگانگی کو جنم دے رہی ہے۔
پُرامن سیاسی کارکنان کو نظرانداز کر کے مصنوعی لیڈر تراشے گئے، جب کہ عوام کے اصل مسائل کو کبھی سنجیدگی سے نہیں سنا گیا۔ لاپتہ افراد کے اہلِ خانہ کا صرف اتنا مطالبہ ہے کہ اگر ان کے پیارے کسی جرم میں ملوث ہیں تو انہیں عدالتوں میں پیش کیا جائے—نہ کہ برسوں تک لاپتہ رکھا جائے یا بعد ازاں جعلی مقابلوں میں قتل کر دیا جائے۔
ریاست اگر اپنی رٹ قائم کرنا چاہتی ہے تو اسے اپنے ہی عوام پر اعتماد کرنا ہوگا۔ عوام کے روزگار کے قدرتی ذرائع کو ختم کر کے کرپشن، کمیشن اور بھتہ خوری کو فروغ دینا ایک تباہ کن پالیسی ہے۔ اگر ریاستی اداروں کی اولین ترجیح تجارت بن جائے اور سرحدوں کا تحفظ ثانوی حیثیت اختیار کر لے، تو ایسی ریاست کمزور ہو جاتی ہے، اور اس کا مستقبل بھی غیر محفوظ ہو جاتا ہے۔