
بلوچ یکجہتی کمیٹی کے رہنما ڈاکٹر صبیحہ بلوچ نے کہا ہے کہ ہم اس پیغام کے ذریعے کسی کی دل آزاری نہیں چاہتے، مگر دنیا کو یہ جاننا ضروری ہے کہ ہمارے ساتھیوں کے ساتھ کیا سلوک روا رکھا جا رہا ہے۔
انہوں نے کہا کہ پاکستان نے “تھری ایم پی او” (3 MPO) کے تحت ہمارے ساتھیوں کو قید کر کے دنیا کو دھوکہ دینے کی کوشش کی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ یہ محض ایک قانونی پردہ ہے اصل میں یہ کوئی سیاسی جیل نہیں، بلکہ ایک بہیمانہ ہتھکنڈہ ہے، جہاں ہمارے سیاسی کارکنوں کے ساتھ ایسا سلوک کیا جا رہا ہے جو کسی مجرم کے ساتھ بھی نہیں ہونا چاہیے۔
انہوں نے بتایا کہ حال ہی میں بیبو بلوچ سے ملاقات کرنے والی ایک ساتھی نے بتایا کہ بیبو کے جسم پر واضح تشدد کے نشانات موجود تھے۔ اس کے مطابق، جیل سے گاڑی تک بیبو کو بالوں سے گھسیٹتے ہوئے لے جایا گیا۔ جب اس کے بال ٹوٹ جاتے تو پولیس مزید بال پکڑ کر گھسیٹتی رہی، جس سے بیبو کے کپڑے تک پھٹ گئے۔ بعد ازاں، کوئٹہ سے پشین تک کے سفر کے دوران گاڑی میں اسے مسلسل تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔
انہوں نے کہا کہ پشین جیل میں بیبو کو جس کمرے میں رکھا گیا ہے، وہاں جگہ جگہ مائیکروفون اور کیمرے نصب ہیں حتیٰ کہ باتھ روم میں بھی۔ اس غیر انسانی نگرانی کے باعث بیبو واش روم استعمال کرنے سے قاصر ہے۔ بھوک ہڑتال کے باعث اس کی صحت مسلسل بگڑ رہی ہے، اور اسے نہ اخبار کی اجازت ہے، نہ کسی کتاب کی۔
ڈاکٹر صیبحہ بلوچ نے کہا کہ سوچیے، اگر ایک سیاسی کارکن کے ساتھ یہ سلوک کیا جا رہا ہے تو اُن بےنام بلوچ قیدیوں کا کیا حال ہوگا، جن سے کوئی ملنے بھی نہیں جا سکتا، جن کی فریاد سننے والا کوئی نہیں۔
انہوں نے مزید کہا کہ اگر ریاست نے واقعی ہمیں مٹانے کا فیصلہ کر لیا ہے، تو ہم اسے بلوچ نسل کشی کا حصہ سمجھتے ہیں اور یہ عالمی دہشت گردی کے زمرے میں آتا ہے، جسے کسی صورت قبول نہیں کیا جا سکتا۔ ہم خاموشی سے مرنے کو تیار نہیں، ہم مزاحمت کریں گے—نسل در نسل، وقت کی ہر قید کو چیرتے ہوئے۔
انہوں نے آخر میں کہا کہ ہم تمام ساتھیوں سے اپیل کرتے ہیں کہ تیار رہیں۔ اب یہ فرق معنی نہیں رکھتا کہ ہمیں جیلوں میں ڈالے جائے یا قبروں میں، ہمارا عزم ہے کہ ہم ریاستی فسطائیت کو ہر حال میں شکست دیں گے۔