شال ( پریس ریلیز ) بلوچ سٹوڈنٹس آرگنائزیشن کے مرکزی ترجمان نے اپنے جاری کردہ بیان میں کہا ہےکہ بی ایس او کا قیام ایک ایسے وقت میں عمل میں لایا گیا کہ جب دنیا بھر اور بالخصوص خطہ انقلابی تحریکوں کی لپیٹ میں تھا۔خطے کے سیاسی و معاشی حالات تیزی سے تبدیل ہورہے تھے۔ ایک طرف روس میں انقلابی تحریکیں اپنی عروج پر تھی۔ چین، افغانستان، کیوبا اور ویت نام میں سیاسی اتار چڑھاؤ عروج پر تھی تو دوسری جانب جبری الحاق کے بعد بلوچ وطن پر آئے روز ظلم و بربریت کے نئے باب رقم ہو رہے تھے۔ ایسے میں بلوچ نوجوانوں نے محسوس کیا کہ بلوچستان بھر میں نوجوانوں کے بکھرے ہوئے شیرازہ کو یکجا کرکے ایک منظم طلباء تنظیم کا قیام عمل میں لایا جائے۔ ایک ایسی طلباء تنظیم جو محض اکیڈمک مسائل تک محدود نہ رہے بلکہ وہ موجودہ حالات اور قوم کو درپیش چیلنجز کو مد نظر رکھتے ہوئے بلوچ طلبا کو مستقبل کے چیلنجز سے جواں مردی اور شعوری طور پر مقابلہ کر سکے۔

انھوں نے کہاہے کہ بی ایس او کے قیام سے قبل مکران شال اور کراچی کے طلباء ورنا وانندہ گل، مکران سٹوڈنٹس فیڈریشن اور بلوچ سٹوڈنٹس ایجوکیشنل آرگنائزیشن جیسے اکیڈمک گروہوں میں منقسم تھے اور صرف اکیڈمک بنیادوں پر کام کر رہے تھے۔تیزی سے بدلتے ہوئے حالات کے پیش نظر بی ایس او نے ان تمام گروہوں کو یکجا کرکے بلوچ سٹوڈنٹس آرگنائزیشن کے شکل میں 1967 بلوچ طلبا کی ایک متحدہ پلیٹ فارم کو تشکیل دیا۔
ترجمان نے کہاہے کہ 1967 سے اب تک کا دورانیہ57 سال پر محیط ایک تاریخی اور جہد مسلسل کے حامل کارنامے کا منظور نظر پیش کرتی ہے۔ بی ایس او نے جن متذکرہ حالات اور ماحول میں آنکھ کھولی وہاں سیاسی، سماجی، معاشی، اور علمی پسماندگی اپنی انتہاؤں میں تھی۔ بی ایس او کے بنیادی مقاصد کچھ ایسے تھے کہ وہ ایک سیاسی و انقلابی تحریک کا آغاز کرے جو کامیابی کی صورت میں ایک قوم کی تخلیق و تشکیل کی ضمانت دے، تحریک کو پایہ تکمیل تک پہنچا کر سرزمین و وطن کے مالک و مختار کل کی حاکمیت کے حصول کا ثبوت دے۔ایک پسماندہ، فرسودہ خاطر اور جمود کے شکار دنیا کو بنانے، سنوارنے اور جدید سیاست کے داؤ پیچ سے آگاہ کرنے، اسے ایک سیاسی ہتھیارسے نوازے جسے چلانے کا اختیار وہ خود رکھتا ہو۔ استحصال سے پاک معاشرہ اور قوم کے قیام کے امکانات روشن ہو۔ ایسے تشخیص اور شناخت سے ہمکنار کرنا جس سے من حیث القوم نمائندگی کا ثبوت مل سکے۔انسان کے جملہ بنیادی حقوق سے لے کر قومی و علاقائی و بین الاقوامی تناظر میں ایک جدید اور تہذیبی و جمہوری جدوجہد سے ہم آہنگ شعور و آگاہی دلا کر اس کی نمائندگی اور رہنمائی کے حقوق و فرائض کی تعبیر و تکمیل سے عہدہ بر آ ہوکر بلوچ قوم کو ازلی ظلم و جبر سے نجات دلانے کا یہ خواب و خیال آج کے نہیں بلکہ آج سے 57 سال قبل کے تھے. اور تھے بھی ایک سیاسی طلبہ تنظیم کے، کسی فرد یا روایتی گروہ اور قبیلہ کے نہیں جنہوں نے آغاز جہد حق کراچی میں عہدو پیمان لے کر وطن بحر و بر کا رخ کر ہی لیا۔
انھوں نے کہاہے کہ بی ایس او ہی وہ ادارہ ہے جس نے انگنت نشیب و فراز دیکھے ہیں۔ بیشمار تجربات کا مجموعہ اس میں پیوستہ ہے جس میں غلطیاں بھی شامل ہیں اور کامیاب حکمت عملیوں کا سنہرا سفر بھی ہے۔ تاریک ادوار میں روشن دیا کے مانند بی ایس او بلوچ فرزندوں کیلئے مشعل راہ کی حیثیت سے رہبری کرتی رہی ہے۔ نصف صدی سے زائد کی کھٹن اور قابل فخر سفر کے اندر بی ایس او بلوچ قوم کی رگ و جان میں رچ بس چکی ہے۔ قومی جدوجہد کی ہر پیچ و تاب بی ایس او کے کردار و عمل کے بغیر نامکمل ہے۔
ترجمان نے کہاہے کہ بی ایس او کا یومِ تاسیس ےجدید عہد کا دن ہے۔ اس سلسلے میں مرکزی پروگرام اوتھل میں منعقد ہوگی جب کہ دیگر تمام زونز کو بھی احکامات جاری کئے جاتے ہیں کہ وہ زونل سطح پر یومِ تاسیس کا دن منا کر تجدید عہد کریں۔