بلوچ سٹوڈنٹس آرگنائزیشن کے زیرِ اہتمام "بلوچستان کا تعلیمی نظام، زبوں حالی اور حل” کے موضوع پر گول میز کانفرنس جامعہ بلوچستان میں منعقد ہوا۔ کانفرنس کی کارروائی مرکزی سیکرٹری جنرل صمند بلوچ نے چلائی۔
گول میز کانفرنس میں بلوچستان نیشنل پارٹی کے قائمقام صدر ساجد ترین ایڈووکیٹ،بی ایس او کے سینیئر وائس چیئرمین نذیر بلوچ، پشتونخواہ ملی عوامی پارٹی کے جنرل سیکرٹری عبدالرحیم زیارتوال، بی این پی کے مرکزی خواتین سیکرٹری شکیلہ نوید دہوار، مرکزی ایگزیکٹو کمیٹی کے رکن و ضلعی صدر غلام نبی مری، نیشنل پارٹی کے صوبائی جنرل سیکرٹری خیر بخش بلوچ، عوامی نیشنل پارٹی کے صوبائی مالیات سیکرٹری عبداللہ ترین، ہزارہ ڈیموکریٹک پارٹی کے منظور حسین کے علاوہ طلبا تنظیموں کے نمائندگان بی ایس او کے مرکزی جوائنٹ سیکرٹری ڈاکٹر مقبول بلوچ، مرکزی انفارمیشن سیکرٹری شکور بلوچ،سابق چیئرمین جہانگیر منظور بلوچ، سابق جوائنٹ سیکرٹری شوکت بلوچ، بی ایس او پجار کے وائس چیئرمین بابل ملک بلوچ، بی ایس ایف کے مرکزی سیکرٹری جنرل گل حسن، پی ایس ایف کے مرکزی سیکرٹری جنرل مزمل خان، پی ایس او کے صوبائی آرگنائزر سیف اللہ خان، بی ایس او کے زونل آرگنائزر کبیر بلوچ،یونٹ سیکرٹری شعیب بلوچ،ہزارہ سٹوڈنٹس فیڈریشن کے مرتضی سلطان، پی ایس ایف کے سیف الدین خان، پروفیسر برکت اسماعیل، جنید جمالی، اسسٹنٹ پروفیسر لالہ منیر، نرگس کرد، فرید اچکزئی، شاہ علی بگٹی و دیگر نے خطاب کیا۔
گول میز کانفرنس کے شرکاء نے بلوچستان کے تعلیمی نظام پر سیر حاصل گفتگو کرتے ہوئے کہا بلوچستان کے تعلیمی نظام کو مضبوط بنا کر اور جدید تعلیمی ادارے قائم کرکے بلوچستان کے نوجوانوں کو معیاری تعلیم فراہم کیا جائے۔ بلوچستان میں خواندگی کی شرح تقریباً 40 فیصد ہے، جو کہ قومی اوسط سے بہت کم ہے، اس لیے تعلیمی اداروں کی بہتری اور اسکالرشپس کی فراہمی ناگزیر ہے تاکہ نوجوانوں کو ملکی اور بین الاقوامی سطح پر ترقی کے مواقع مل سکیں۔
کانفرنس میں کہاگیا کہ بات نہایت حیرت اور افسوس کا باعث ہے کہ بلوچستان میں 3694 اسکول بند ہیں اور بہت سے اسکول اس لیے بند ہیں کہ وہاں ایک بھی استاد موجود نہیں ہے۔ زیادہ تر اساتذہ شہر کے اسکولوں سے منسلک ہیں، جبکہ دیہی علاقوں کے اسکول ویران پڑے ہیں۔ ایک بڑی تعداد ایسے اساتذہ کی ہے جو سرکاری طور پر بھرتی تو ہیں، لیکن عملی طور پر کوئی ڈیوٹی سرانجام نہیں دے رہے۔ ان کی اس غفلت اور غیر ذمہ داری نے بلوچستان کے تعلیمی نظام کو مزید برباد کر دیا ہے اور ہزاروں بچوں کو علم کے نور سے محروم کر رکھا ہے۔
یہ صرف حکومت اور بیوروکریسی کی ناکامی نہیں، بلکہ اساتذہ کی غفلت اور غیر سنجیدگی بھی اس بحران کا اہم سبب ہے۔ اگر ذمہ داران اپنے عہدوں کے مطابق کام کرتے تو آج بلوچستان کی تعلیمی حالت اس قدر خراب نہ ہوتی۔
حکومت کو چاہیے کہ تمام اسکولوں کی کڑی نگرانی کرے اور جہاں اساتذہ غیر حاضر یا اپنی ڈیوٹی سرانجام نہیں دے رہے، انہیں فوری طور پر ملازمت سے برطرف کیا جائے۔ اس کے ساتھ ساتھ، جو اساتذہ دوسرے شہر کے اسکولوں سے منسلک ہیں، انہیں فوری طور پر ان کے اصل تعیناتی مقامات پر منتقل کیا جائے۔
کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے مقررین کا کہنا تھا کہ. اٹھارہویں ترمیم کے بعد جہاں تمام صوبوں کے صوبائی ایچ ای سی کا قیام عمل میں لایا جاچکا ہے لیکن بلوچستان تا حال صوبائی ایچ ای سی سے محروم ہے جس کی وجہ سے بلوچستان کے تمام. بڑے تعلیمی ادارے اس وقت مسائل کے دلدل میں دھنستے چلے جارہے ہیں۔ صوبائی حکومت کو جلد از جلد ایچ ای سی کا قیام عمل میں لانا چاہیے۔