جبری گمشدگیوں کے خلاف جاری احتجاجی کیمپ کو آج 5587 دن ہو گئے ہیں ۔
اظہار یکجہتی کرنے والوں میں جیکب آباد(خان گھڑ) سے جسقم کے کارکنان وسیاء اللہ ڈنہ اللہ رکھا اور دیگر نے کیمپ آکر اظہار یکجہتی کی ۔
وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز وی بی ایم پی کے وائس چیئرمین ماما قدیر بلوچ نے کہا ہے کہ چھ بلوچ نوجوان ایک ہفتے میں شہید ہوئے ہیں ، یہ پہلی بار نہیں ہوا ہے، شہادتوں پر شہادتیں ہورہی ہیں، اتنی شہادتیں تیں جنگوں میں نہیں ہوا ہوگا جتنا جو ابھی بلوچوں کا ہورہی ہے آئے دن بلوچ نوجوان خون میں نہا رہے ہیں جبری اغوا ہورہے ہیں مائیں سینہ کوبی کررہےہیں، بچے یتیم ہورہے ہیں، خواتین بیوہ ہورہی ہیں، بوڑھوں سے ان کے سہارے ان کے جوان بیٹے چھینے جارہے ہیں ۔
انھوں نے کہاہے کہ بلوچ ایک بے بس کاروان قوم ہیں، دشمن بظاہر ایٹمی طاقت ہے، ہم اتنے کمزور ہیں کہ ہم اپنی دفاع نہیں کرسکتے یا بلوچ قوم کو اپنا دفاع کرنے کی اجازت نہیں تو کیا بلوچ غلام قوم ہیں، اور غلام رہے گا نہیں؟ لیکن کچھ ایسے انسان بھی ہوتے ہیں جن کی موت پر ہر کوئی غمزدہ ہوتا ہے اور افسوس کرتا ہے،وہ وہی لوگ ہوتے ہیں جنہوں نے اپنی ذاتی خواہشات،عیش و عشرت کو ایک طرف رکھ کر اپنی قومی بقا کےلئے آخری سانسیں تک جدوجہد کی، کیا ایسے قومی ہیروز کو اس طرح عیش و عشرت کی زندگی گزارنا اچھا نہیں لگتا تھا، کیا ان کی ماں باپ بہنیں بھائیاں نہیں تھیں؟
قابض پاکستانی حکمران ایف سی خفیہ اداروں اور ان کی ڈیتھ اسکواڈز کے ہاتھوں شہید اور جبری لاپتہ بلوچوں فرزندوں کی سیاسی جماعتوں انسانی حقوق کے سرگرم دیگر تنظیموں اور عالمی رائے عامہ کو بلوچ قومی تحریک کی حمایت میں ہموار کرنے کےلئے بیرون ملک رہنماوں سمیت پوری قوم کی لازوال قربانیوں اور انتھک جدوجہد کے باعث آج بلوچ قومی تحریک اپنی تاریخ کے مظبوط مرحلے میں داخل ہوچکی ہے،آج دنیا کے بیشتر آقوام ممالک اداروں اور رائے عامہ تک بلوچ قومی تحریک کی گونج پہنچ چکی ہے جس کے باعث وہ بلوچ قومی تحریک کی جانب متوجہ ہورہی ہیں۔