ایمنسٹی انٹرنیشنل نے جاری کردہ بیان میں کہا ہے کہ پاکستان میں توہین مذہب کے الزام میں لوگوں کی ماورائے عدالت ہلاکتوں کا خوفناک سلسلہ حکومت کی انسانی حقوق کے احترام بشمول زندگی کا حق، مذہب یا عقیدے کی آزادی اور امتیازی سلوک کی ممانعت اور تحفظ کے لیے اپنی ذمہ داری کو نبھانے میں جاری ناکامی کو اجاگر کرتا ہے-
ایمنسٹی انٹرنیشنل کے بیان کے مطابق ایک ہفتے کے اندر، پولیس نے پاکستان کے رجعت پسند توہین رسالت کے قوانین کے تحت دو ملزمان کو ہلاک کر دیا ہے۔ 19 ستمبر کو، توہین مذہب کے الزام میں ایک ڈاکٹر کو پولیس افسران نے عمرکوٹ، سندھ میں ایک نام نہاد ‘پولیس مقابلے’ میں گولی مار کر ہلاک کر دیا تھا، اس سے قبل 12 ستمبر کو بلوچستان کے شہر کوئٹہ میں ایک پولیس افسر نے توہین مذہب کے مشتبہ شخص کو حراست میں لے کر گولی مار کر ہلاک کر دیا تھا۔
انہوں نے کہا ہے کہ شال میں توہین مذہب کے واقعے میں ایک شخص کی ہلاکت کے بعد حکام نے ملزم کو سزا دینے سے گریز کیا اور متاثرہ خاندان پر دباؤ ڈالا کہ وہ قتل میں ملوث پولیس اہلکار کو معاف کر دے، پاکستانی قانون کے تحت کوئی خاندان ملزم کو معاف کرسکتا ہے اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ اسی طرح کے جرائم میں ملوث اکثر سزا نہیں پاتے کیونکہ ان کے قاتلوں کو ہجوم کی سپورٹ ہوتی ہے۔
بیان میں کہا گیا ہے کہ مئی 2024 سے سرگودھا (پنجاب)، سوات (خیبر پختونخوا)، کوئٹہ (بلوچستان) اور میرپورخاص (سندھ) میں ہجومی تشدد میں توہین مذہب کے الزام میں کم از کم 4 افراد ہلاک ہوچکے ہیں۔
تنظیم نے کہا ہے کہ پاکستانی حکام کو چاہیے کہ وہ واقعات کی مکمل، غیر جانبدارانہ اور آزادانہ تحقیقات مکمل کریں اور سزائے موت کا سہارا لیے بغیر ذمہ داروں کے خلاف منصفانہ اور شفاف ٹرائلز کو یقینی بنائیں۔
انہوں نے مطالبہ کیا ہے کہ حکومت کو توہین مذہب کے ان قوانین کو بھی فوری طور پر منسوخ کرنا چاہیے جو طویل عرصے سے امتیازی سلوک اور تشدد کو برقرار رکھنے میں مدد فراہم کر رہے ہیں۔