وقت ہمیشہ بازی پلٹ دیتی ہے، حالات وقت بدلتے رہتے ہیں. دنیا میں مختلف ادوار میں تحریکوں نے جنم لیا ہے اور ہر ایک کی اپنی نوعیت رہی. بلوچ قومی تحریک بھی اپنی انتہائی اہم مرحلے پر ہے، اور یہ ایک ہی دن یا سال میں اتنی مسافت طے نہیں کرچکا ہے بلکہ بہت ہی انمول قربانیوں کی نتیجہ سمجھا جاتا ہے. جس میں ہر بلوچ کی اپنی ایک داستان ہے کہ ریاست کی جانب سے جاری ظلم و ستم سے گزر کرآج آزادی کے خواب کو تعبیر ہوتے دیکھ رہا ہے. مجھ ناچیز بلوچستان کے انمول شہداء کےبارےمیں کچھ لکھنے کی قابل نہیں. لیکن ایک جزبہ ہے کہ آج میں دو چار الفاظ لکھنے پر مجبور ہوں ۔
ویسے جہاں کہیں جنگ آزادی کے لیے لڑی جائے گی تو وہاں دو چیزیں سامنے آجاتی ہیں.” شہادت پھر آزادی” بلوچ آذادی کی جنگ اس وقت مختلف محاذوں پر لڑی جا رہی ہے، کیونکہ زندہ قومیں اپنی شناخت، کلچر، زبان، ادب سمت زمینی حقائق حدود کو زندہ رکھنے کے لیے اپنی زندگیوں کو داؤ پر لگا کر اینچ اینچ کا دفاع اپنی فرض سمجھ کر، کرتے ہیں، جیسے ہزاروں بلوچوں نے اپنی سرزمین کی دفاع کرکے اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کیا ہے، اور ہزاروں کی تعداد میں کر رہے ہیں، کچھ دشمن کے زندانوں میں وطن عزیز کی آزادی کے لیے انسانیت سوز مظالم کا سامنا کرنے کے باوجود اپنے زمین سے غداری کے بجائے موت کو گلے لگا کر ہمیشہ کے لیے امر ہو رہے ہیں، اور ہزاروں کی تعداد میں اپنے گھر بار اپنے لخت جگروں سے دور پہاڑوں کو اپنا مسکن بنا کر دشمن سے دو بہ دو آزادی کی جنگ لڑ رہے ہیں اور شہادت کے رتبے پر فائض ہو کر یہ پیغام پورے دنیا کو دے رہے ہیں کہ ہمارا اپنا شناخت، ثقافت، زبان اور زمین ہے اور ہم اس کے حقیقی وارث اور مالک ہیں، دشمن صرف اور صرف قابض ہے اور ہماری تمام سائل وسائل اور شناخت کو مٹانے پہ تولا ہوا ہے، جس کی ہم بطور بلوچ فرزند کبھی بھی اجازت نہیں دیں گے.
انہی وطن زادوں میں شامل ایک اور بلوچ فرزند گلزمین کی غلامی کے خلاف دشمن پر قہر بن کر ٹوٹنا کا ٹھاں لیتا ہے اور وہ اپنی مقصد میں کامیاب ہو جاتا ہے.آج جس فرزند وطن کا زکر میں کرنے جا رہا ہوں وہ وطن زادہ شہید میجر نصراللہ عرف استاد چاکر بلوچ ہیں.
جس نے انتہائی کم مدت میں ایک مکمل سرمچار بننے کا سحرا اپنے سر پر سجا دیا کسی آرٹیکل میں ایک دوست نے کہا تھا کہ وہ چرواہوں کی بہت خیال رکھتا تھا، وہ کیوں خیال نہ رکھتا وہ ان تمام حالات سے گزر چکا تھا اُس کو بخوبی اندازہ ہو گا کہ اس ملک نا پرسان میں ایک چرواہے کا زندگی کتنی کھٹن ہوگا.
چاکر جان انتہائی مخلص، جفا کش بہادر بلوچ فرزند تھا، وہ ہمیشہ اپنی زندگی میں دوسروں کے لیے آسانیاں پیدا کرنے میں مگن تھا، بچپن میں اُسے غلامی سےانتہائی نفرت تھا، وہ ہمیشہ اپنی بہادری اور زہانت کے بل بوتے سے ہر وہ مشکل کام سرانجام دیتے وہ ہمارے جیسے کمزور انسان کے لیے ناممکن ہوتےاور وہ ممکن کرکے دیکھا دیتے.جس طرح ریاست کی جانب سے آئے روز ظلم و جبر کی داستانیں رقم کی جارہی ہیں تو ہزاروں نصراللہ، چاکر بن کر دشمن پر کہر برسائیں گے. آپ خود اندازہ کریں آپ کسی کی بے گناہ بھائی جسے وہ اپنا بابا سمجھ کر اس کے سائے تلے اپنا زندگی جی رہا تھا، ریاستی فوج اُس کو انہی کے آنکھوں کے سامنے گھسیٹ کر گاڑی میں پھینک دیتے ہو، تو وہ آپ کو گلے لگا کر خوش ہو گا کہ آپ نے میرے بابا جیسے بھائی کو مجھ سے چین کر میں پھر بھی آپکو سجدہ کرونگا یہ ناممکن ہے، پھر یہ تمھاری بھول ہے، کھبی ایسا نہیں ہوگا نہ ہوا ہے۔
پھر وہ نفرت صرف اور صرف چاکر بن کر اُبھرگا. اور ہر دور میں آپکو ایسے ہزاروں چاکرجان سے ٹکر لینا پڑے گا. چاکر جان جب پہاڑوں کا رخ کرتے ہیں تو اُسکا پہلا اور سخت ہتھیار ہو وہ راز داری انتہائی راز درای سے اپنے منزل کی جانب گامزن ہو جاتے ہیں کسی کو زرا برابر محسوس تک نہ ہونے دیتا ہے کہ وہ کہاں ہے اور کیا کر رہا ہے ریاست کی جانب سے مشکے جیسے آجکل ریاست نے ایک ازیت گاہ کا درجہ دیا ہوا ہے، ہزاروں زر خرید دالاروں کے باوجود چاکر جان انکے سوچ سے بالاتر ہوکر اپنی مشن آزادی کو آگے بڑھانے میں مگن رہتے ہیں، ریاست کے لیے سب سے بڑا شکست چاکر جان کی گوریلا جنگی حکمت عملی ہی ہے. ریاست نے چاکر جان کو صرف اور صرف جسمانی طور پر ہم سے جدا کیا ہے لیکن اُس کے دیا ہوا فکر آجوئی ہزاروں وطن زادوں کے دلوں کی دھڑکن بن چکا ہے اُس فکر، جرات اور بہادری کو تم کھبی بھی ختم نہیں کر سکتے ہیں، جو شمع آجوئی شہید چاکر جان نے، بولان کے یخ بستہ ہواؤں میں، مستونگ کے گواڑخوں میں، قلات، ہربوئی، ناگاہو کے چائی کپتوں، ہرنوں میں، اور مشکےکے سرمئ پہاڑوں،وچشموں میں اور بلوچستان کے ہر شہر و پہاڑوں میں یہ گونج ضرور آپ کو اور آپ کے کرائے کے ضمیر فروش دالاروں کو کبھی بھی آزاد بلوچستان تک بیٹھنے نہیں دیگا ۔