بلوچ نیشنل موومنٹ کے سابق سیکٹری جنرل رحیم بلوچ ایڈووکیٹ نے بیان جاری کرتے ہوئے کہاہے کہ پاکستانی نیو نیوز چینل کے نصراللّہ ملک کے ساتھ اپنے انٹرویو میں شفیق مینگل مقبوضہ بلوچستان میں جبری گمشدگیوں اور ماورائے عدالت قتل جیسے جرائم کیلئے ایک طرف واضح طور پر ریاست پاکستان، اس کی پارلیمان، اسٹیبلشمنٹ (فوج اور خفیہ اداروں)، عدلیہ، پولیس، ضلعی انتظامیہ اور تفتیشی اداروں کی اجتماعی بیڈ گورننس اور ناکامی کو ذمہدار ٹھہراتا ہے اور دوسری طرف اس ریاستی ناکامی اور بوسیدگی کو بطور جواز بھی پیش کررہا ہے۔
انھوں نے کہاہے کہ شفیق مینگل کی بدنامی بلوچستان میں تحریک آزادی کے خلاف فوج کی سرپرستی میں ” بلوچ مسلح دفاع آرمی“ کے نام سے ڈیتھ اسکوڈ کی تشکیل اور آئی ایس آئی و فرنٹیئر کور کے اشتراک سےخضدار کے علاقہ توتک، میں ایک بڑا حراستی مرکز قائم کرنے سے ہوا ہے جہاں مسلح دفاع آرمی، ایف سی اور آئی ایس آئی کے کارندے شفیق مینگل کی سربراہی میں جبری لاپتہ افراد کو اذیتیں دیتے، ماورائے عدالت قتل کرکے ان کی مسخ شدہ لاشوں کو پھینکتے یا اجتماعی قبروں میں دفناتے تھے۔ توتک میں عقوبت خانوں پر مشتمل مذکورہ بالا کیمپ پیپلز پارٹی کے وزیراعظم یوسف رضاء گیلانی کے دور میں قائم کیا گیا تھا جسے دسمبر 2013 میں ختم کی گئی۔
توتک میں اس حراستی مرکز کے بند ہونے کے 1/2 دن کے اندر مقامی آبادی نے کیمپ کے احاطہ میں اجتماعی قبریں درافت کئے جن میں سینکڑوں لاشیں بے گور و کفن برآمد ہوئے تھے۔ اب بھی وڈھ میں اپنے آبائی گاؤں باڈڑی میں شفیق مینگل اپنا ڈیتھ اسکواڈ اور عقوبت خانے چلا رہا ہے۔ اس کے خلاف سینکڑوں افراد کو جبری لاپتہ کرنے، عقوبت خانہ چلانے، ماورائے عدالت قتل و قتال کرنے، مقتول افراد کی مسخ لاشیں پھینکنے اور اجتماعی قبروں میں دفنانے کے ثبوت ہیں حتیٰ کہ لیویز اور پولیس اہلکاروں کی قتل کے مقدمات بھی اس کے خلاف درج ہیں۔
بی این ایم کے سابق جنرل سیکرٹری نے کہاہے کہ ریاست اور ریاستی اداروں کی بیڈ گورننس و ناکامی کے باعث شفیق مینگل سمیت جس کسی کو بھی انصاف نہیں مل رہا ہے تو اصولاً انھیں ریاست اور ریاستی اداروں کے خلاف اٹھنا چاہیئے تھا۔ اگر ریاست کے سامنے کھڑے ہونے کی ہمت و حوصلہ نہیں ہے، کم از کم صدائے احتجاج تو بلند کرنا چاہیئے کیونکہ لوگوں کی جان، مال، عزت و آبرو، بنیادی حقوق اور آزادیوں کی حفاظت کرنا ریاست کی ذمہداری ہے اگر ریاست اپنے یہ بنیادی فرائض ادا کرنے میں ناکام ہے تو ریاست کی وجود اور احترام کا حق ختم ہوتا ہے۔ مگر شفیق جیسوں کے ہاں اُلٹی گنگا بہتی ہے۔ قابض، قاتل، ناکام و بوسیدہ ریاست کے خلاف آواز اٹھانے کے بجائے اسی ناکام ریاست اور اس کی انسانیت دشمن فوج کی حمایت میں کمربست ہوکر پرائیویٹ مسلح جتھے تشکیل دیتے ہیں، اسی فوج کے ساتھ مل کر اپنے ہی ہم وطن بلوچوں کو جبری لاپتہ، ٹارچر اور قتل کرنے میں ظالم کی مدد کرتے ہیں۔
انھوں نے کہاہے کہ بقول شفیق مینگل کہ 1948 میں پاکستان کے ساتھ بلوچستان کی الحاق کو بلوچ جبری قبضہ کہتے ہیں اور آزادی کی تحریک چلا رہے ہیں۔ پاکستان کے حامی ہزاروں لوگ، لاء انفورسمنٹ ایجنسیز کے افسران اور اہلکار اس تنازع اور تحریک کے نتیجے میں قتل ہوئے ہیں جن کے ورثاء کو ریاست انصاف فراہم کرنے میں ناکام ہے۔ یہ صورتحال عوامی حمایت یافتہ ایک بڑی تحریک آزادی کا اعتراف ہے۔ قومی آزادی کا مطالبہ اور تحریک جرم نہیں بلکہ ہر ایک قوم کا بنیادی حق ہے۔ البتہ انسانی حقوق کے عالمی قوانین کے مطابق تحریک آزادی کو فوجی طاقت و ریاستی دہشتگردی کے زور پر دبانا، لوگوں کو جبری لاپتہ کرنا، زیر حراست انھیں ٹارچر اور قتل کرنا انسانیت کے خلاف جرائم ہیں جو لائق جوابدہی ہیں۔
شفیق یہ بھی اعتراف کرتا ہے کہ جبری گمشدگی اور ماورائے عدالت قتل کی کاروائیاں کسی بھی ریاست کی پیشانی پر داغ ہے اور بین الاقوامی سطح پر اقوام عالم کے سامنے پاکستان کی جگ ہنسائی ہوتی ہے۔ مقبوضہ بلوچستان میں پاکستان کی پیشانی پر جبری گمشدگیوں اور ماورائے عدالت قتل جیسے جرائم کی سیاہی ملنے میں فوج و سکیورٹی اداروں، پارلیمنٹ اور عدلیہ کے ساتھ ساتھ شفیق مینگل جیسے فوج کے پراکسی بھی برابر کے شریک جرم ہیں۔
انھوں نے کہاہے کہ شفیق مینگل کی فکری اور اخلاقی دیوالیہ پن کا اندازہ اس بات سے لگائیں کہ وہ جبری گمشدگی اور ماورائے عدالت قتل کے خلاف آواز اٹھانے، ریاست سے سوال کرنے کے بجائے لاپتہ بلوچوں کے لواحقین سے سوال کرتا ہے کہ وہ اپنے پیاروں کو لاپتہ و قتل کرنے والی فوج و سکیورٹی اداروں کے افسران و اہلکاروں، فوج کے ساتھ مل کر مسلح کاروائیاں کرنے والے ڈیتھ اسکواڈ کارندوں اور مخبروں کی قتل کے خلاف آواز کیوں نہیں اٹھاتے؟ یہ مضحکہ خیز سوال سب سے پہلے پاکستانی فوج کی تعلقاتہ عامہ کے ڈی جی نے کیا تھا۔ سینئر پنجابی سیاستدان خواجہ آصف، سرفراز بگٹی اور شفیق مینگل جیسے ریاستی کاسگ لیس لاپتہ بلوچوں کے لواحقین اور بی بلوچ یکجہتی کمیٹی وائی سی کے خلاف اسی پروپیگنڈہ مہم کو بڑھا رہے ہیں جس کا مقصد لاپتہ افراد کے لواحقین پر دباؤ ڈالنا، انھیں خوفزدہ کرنا ہے۔