جبری گمشدگیوں کا سلسلہ پاکستان میں ایک سنگین مسئلہ بن چکا ہے، خاص طور پر بلوچستان میں جہاں ہزاروں افراد کو ریاستی فورسز یا غیر ریاستی عناصر ڈیتھ اسکواڈز کے ہاتھوں لاپتہ کر دیا گیا ہے۔ ان گمشدگیوں کے پیچھے چھپے مظالم اور اذیتوں کا سامنا صرف گمشدہ افراد کو ہی نہیں، بلکہ ان کے اہلِ خانہ کو بھی کرنا پڑتا ہے۔ ان گمشدہ افراد کی تلاش میں گھر والے ایک طویل اور کٹھن جدوجہد کا حصہ بن جاتے ہیں، جو اکثر جذباتی، نفسیاتی اور جسمانی صدمات سے بھرپور ہوتی ہے۔
رخسانہ دوست بلوچ کا اپنی گمشدہ بھائی عظیم دوست بلوچ کے حوالے سے بیان ان تکالیف کی عکاسی کرتا ہے جو جبری گمشدگیوں کے شکار خاندانوں کو جھیلنا پڑتی ہیں۔ عظیم دوست، جو کہ گوادر، بلوچستان کے رہائشی تھے، 3 جولائی 2015 کو جبری گمشدگی کا نشانہ بنے اور تب سے ان کا کوئی سراغ نہیں ملا۔ عظیم کی ماں، باپ، بہن اور بھائیوں نے کبھی دوبارہ ان کو نہیں دیکھا۔ اس کے بعد صرف عظیم کی تصویریں اور یادیں ہی ان کے خاندان کے ساتھ باقی رہ گئیں۔رخسانہ نے اپنی جذباتی یادوں کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ عظیم ہمیشہ بچپن میں ان کا ہاتھ پکڑتا تھا جب وہ ڈرتی تھیں، مگر آج جب وہ اپنے بھائی کو ڈھونڈنے کے لیے تنہا سفر کرتی ہیں تو انہیں احساس ہوتا ہے کہ وہ ڈرپوک رخسانہ نہیں رہی۔
وہ آج ایک مضبوط اور بہادر بہن بن چکی ہیں جو ہر ظلم اور جبر کا سامنا کر رہی ہے۔یہ بیان نہ صرف ایک بہن کی دل شکستگی اور کرب کا اظہار کرتا ہے، بلکہ اس سے یہ بھی ظاہر ہوتا ہے کہ جبری گمشدگیوں کی تکالیف کس طرح خاندانوں کو اندر سے توڑ کر رکھ دیتی ہیں۔ ایک بھائی کی گمشدگی رخسانہ کی زندگی کا وہ خلا ہے جسے کوئی پر نہیں کر سکتا۔ وہ ایک وقت تھا جب عظیم جان ان کی حفاظت کرتا تھا، اور آج وہ خود کو اتنا مضبوط کر چکی ہیں کہ اپنے بھائی کی تلاش میں میلوں سفر کرتی ہیں، چاہے وہ شال ہو، کراچی ہو یا اسلام آباد۔جبری گمشدگیاں صرف ایک شخص کو غائب کر دینے کا عمل نہیں ہوتیں، بلکہ یہ ایک خاندان کی بقا، ان کے رشتوں اور جذبات کو بھی توڑ کر رکھ دیتی ہیں۔ والدین اپنے بچوں کی راہ تکتے تکتے بوڑھے ہو جاتے ہیں، بہن بھائی اپنے پیاروں کی یادوں میں جیتے ہیں، اور کئی بار خاندان کو سماجی اور معاشی طور پر بھی مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ اس سب کے باوجود ریاستی اداروں سے انصاف کی امید بہت کم رہ جاتی ہے، اور ان خاندانوں کی فریادیں اکثر نظر انداز کر دی جاتی ہیں۔
رخسانہ دوست بلوچ کی طرح بہت سے خاندان اپنے پیاروں کی تلاش میں در در کی ٹھوکریں کھاتے ہیں، مگر اکثر انہیں کوئی خبر نہیں ملتی کہ ان کا عزیز کہاں ہے اور کس حال میں ہے۔ اس عمل میں خاندانوں کا صبر اور حوصلہ اکثر امتحان میں ڈال دیا جاتا ہے، مگر یہ بھی سچ ہے کہ بہت سی خواتین، مائیں، بہنیں اور بیویاں ان حالات میں مضبوط ہو کر سامنے آتی ہیں۔رخسانہ کا یہ کہنا کہ "اب میں وہ ڈری ہوئی رخسانہ نہیں رہی” نہ صرف ان کی ذاتی جدوجہد کا عکاس ہے، بلکہ یہ اس عزم اور حوصلے کی مثال بھی ہے جو جبری گمشدگیوں کا شکار خاندانوں میں پایا جاتا ہے۔ وہ ریاستی ظلم و جبر کا مقابلہ کرتے ہوئے، اپنے پیاروں کو ڈھونڈنے کے لیے ہر ممکن کوشش کرتی ہیں، اور اس عمل میں ان کی ذات مزید مضبوط اور طاقتور بن جاتی ہے۔
یہ کہانی ہزاروں دیگر کہانیوں کی طرح ہے جو خاموشی سے ایک دردناک حقیقت بیان کرتی ہے کہ جبری گمشدگیاں صرف ایک فرد کا مسئلہ نہیں، بلکہ یہ ایک پورے معاشرے کا زخم ہیں۔ اس ظلم کا خاتمہ تبھی ممکن ہے جب انصاف کے تقاضے پورے ہوں اور گمشدہ افراد کو ان کے خاندانوں سے دوبارہ ملایا جائے۔ رخسانہ جیسے بہادر لوگ اس جدوجہد میں روشنی کی کرن ہیں، جو مظلوموں کی آواز بن کر کھڑے ہیں۔