ناگاہو کی شان ۔ تحریر۔  رستم بلوچ

  تاریخی پہاڑی سلسلہ ناگاہو جو بولان سے شروع ہوکرلسبیلہ تک اپنی شان برقرار رکھتا ہے۔ یہ سلسلہِ کوہ ہر دور میں بلوچ  مزاحمت اور سرمچاروں کا محفوظ قلعہ اور پناہ گاہ رہا ہے۔ بلوچ سرمچاروں  نے ہمیشہ اس کو اپنے خون سے آباد رکھا ہے۔ ناگاہو کا کوئی ایسا پتھر نہیں ہوگا جس پہ میجر چاکر کے نقشِ پاھ محفوظ نہ ہو، کوئی ایسا درخت نہیں ہوگا جس  کے سائے تلے ماما چاکر نے دم سادھ نہ لیا ہو۔

میجر چاکر اوتاک سمیت قلات، مستونگ، بولان و کچی میں ماما چاکر کے نام سے مشہور تھا۔ میجر چاکر کے ساتھ ہزاروں یادیں وابستہ ہیں۔ مجھے وہ دن اچھی طرح یاد ہے جب پہلی دفعہ ہماری ملاقات ہوئی تھی، حالانکہ فون پر پچھلے ایک سال سے ہمارا رابطہ تھا، جس سے ہمیں تعارف کی ضرورت نہیں تھی۔ ماما سے حال احوال کے بعد ہنسی مذاق شروع ہوگیا تھا۔ نئے دوستوں کو سمبھالنے اور ان کا خیال رکھنے میں ماما چاکر سے زیادہ  استاد انسان میں نے نہیں دیکھا۔ جب دوست گھر سے روانہ ہوتے تو ماما بہترین حکمت عملی بناکر ان کی رہنمائی کرتا، تاکہ راستے میں نئے دوستوں کو ذِرا برابر تکلیف نہ ہو۔

ماما کو پہلی ملاقات میں میں نے کہا تھا کہ ماما ڈرون جس کے بارے میں  ہم نے کافی پڑھ رکھا تھا کہ اس کی احتیاطی تدابیر پر زیادہ عمل کریں اور اس حوالے سے میں کافی خوفزدہ تھا۔ ماما کے اس ایک فقرے نے سارا خوف ختم کردیا اور حوصلہ کا پہاڑ لا کھڑا کردیا۔ ماما نے کہا کہ پاکستان کا منہ کالا ہے اس کے ڈرون کے ساتھ بلوچستان کے ان پہاڑوں میں اس کی کوئی تدبیر کام نہیں آئے گی۔

احتیاط ہم پر فرض ہے لیکن جب تک میں ساتھ ہوں آپ کو کچھ نہیں ہوگا۔

میجر چاکر نے سلسلہ کوہِ ناگاہو بسا اوقات ناگاہی بھی کہتے ہیں میں تمام تنظیموں کے درمیان ایک اعتماد اور رابطے کا ذریعہ پیدا کردیا تھا ۔ ماما کے ساتھ رہنے والے دوسری تنظیموں کے ساتھیوں کو کبھی بھی یہ احساس  نہیں ہوتا کہ یہ صرف بی ایل ایف ، کا اوتاک کیمپ ہے اور ماما چاکر بھی تمام اوتاک میں ایسے رہتے تھے جیسے ان کا اپنا تنظیمی مسکن ہو ۔

تمام بلوچ سرمچاروں میں ان کو خاص عزت و احترام حاصل تھا، تمام کیمپ ذمہ داران ہر معاملے میں ان سے مشورہ لازمی سمجھتے اور لیتے تھے اور ہر فیصلے میں  اس کو لازمی شامل کرتے تھے۔

      یہاں ایک چھوٹا سا واقعہ  یاد آرہا ہے  ، جس سے اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ ماما سب کا کتنا خیال رکھتے تھے ۔  ایک دن میں اور ماما چاکر شہر سے سامان منگوانے کی لسٹ بنا رہے تھے تو ماما ہر چیز  تین  گنا  منگوا رہا تھا، میں نے کہا ماما یہ ڈیجیٹل تھرمامیٹر ایک کافی ہے 3 منگوا کر کیا کرنا ہے۔ لڈوایک کافی ہے تو 3 منگوا کر کیا کرنا ہے تو جواب دیا کہ ہمارے ساتھی تنظیمیں بی ایل اے جئیند کے اوتاک اور ایک یو بی اے مرید کے اوتاک کیلئے ہے، کہنے کا مطلب ہے کہ وہ سب کو ایک ہی نظر سے رکھتے تھے۔

  تمام دوستوں کو خوش رکھنا، دوستوں کے مسائل کو سمجھنا اور انکا حل نکالنا، کم وسائل میں تنظیمی نظام کو چلانا اور دوستوں کی  ضروریات پوری کرنے کا ہنر ماما اچھی طرح جانتے تھے۔

   میجر چاکر پہاڑوں میں بسنے والے باگھیا چرواہا کا انتہائی خاص خیال رکھتے تھے، اوتاک میں جو بھی چیز یا سامان آتا تھا تو اسکا آدھا حصہ نزدیکی باگھیا کے لیے مختص کرکے کسی سنگت کے ساتھ بھجوا دیتے۔

      ماما ہر محاذ اور ہر تنظیمی کام بلخصوص شہری نیٹورک اور انٹلیجنس بہت مضبوطی اور سخت ڈسپلن کے ساتھ چلاتے رہے۔

      کوئی  بیمار ہو جاتا تو ماما دوائی خود بھیجتے اور کیمپ میں موجود ڈاکٹر کو بولتے جاکر علاج  کرکے آئیں 

مجھے تحریر لکھتے وقت یاد آرہا ہے کہ ایک شخص کی آنکھیں کمزور تھے تو میجر نے شہر سے اس کیلئے عینک منگوایا اور خود حفاظت کے ساتھ اس تک پہنچایا وہ شخص بہت خوش  رہا اور کافی دعائیں دیتا رہا۔

      اب جب اس شخص نے سنا ہوگا اس کا ماما چاکر پاکستانی فورسز کے ساتھ ایک جنگی معرکہ میں شہید ہوگیا ہے ،  تو اس شخص پر کیا گزر رہی ہوگی ؟ یقینا پورا ناگاہو آپ کی شہادت پر رنجاں اور رو رہا ہوگا ۔

ماما ایک کمال اور باصلاحیت  انسان تھے  جس محفل میں بیٹھ جاتے تو اس میں وقت کا پتہ ہی نہیں چلتا۔

       میجر چاکر بلوچ بہت چھوٹی عمر میں استاد کے اعزاز اور نام سے پہچان اور جاننے لگا تھا  اس کے پاس دوستوں کے ہر اس سوال کا  جواب تھا۔ 

       تنظیمی کیمپ میں جب بھی  کسی ممبر سے کوئی غلطی سرزد ہوتا یا اپنے کام میں غفلت برتا تو ماما چاکر  انتہائی خوش اسلوبی اور نہایت آداب اور منفرد انداز  خصوصا مختصر الفاظ میں سمجھاتے اور احساس دلاتے تھے۔

   میں ماما سے سیاسی اور عسکری محاذ میں سنئیر ہونے کے باوجود  بھی خود میں ان جیسا کردار اورکمال لانے میں ناکام رہا۔ لیکن آج میں جس تنظیمی ذمہ داری  اور منصب پر  فائز  ہوں تو اس میں میرے لیے مرکزی کردار  ماما  چاکر کا رہا ہے۔  میں نے  ہر وقت  تنطیمی کاموں میں چاکر کومصروف پایا۔

وہ اکثرنئے آنے والے تنظیمی ساتھیوں  کو کہا کرتا تھا کہ انھیں اس محاذ پر انتہائی مستقل مزاجی اور اضافی انقلابی کارکن کا کردار اور معیار پر اترنا ہوگا۔ اور انکے یہی مشورے اور تجربے کے ساتھ ساتھ دی گئی ہدایات آج محاذ میں ہماری رہنمائی کررہے رہے ہیں۔ اور انکے یہی مشورے اور تجربات سے ہم سنگت نئے محاذ پر فائدہ اٹھا رہے ہیں اور تنطیم کو فعال کرنے میں کوشاں ہیں تاکہ میجر چاکر کی قربانی اور خون کے سامنے جوابدہ ہونے کے بجائے خود چاکر جان کے فکر و فلسفے کو اپنا فرض اور قرض سمجھتے ہوئے پایہ تکمیل تک پہنچائیں۔

 میں یہاں ایک اور واقعے کا ذکر کرتا چلوں کہ ایک رات ہمارے ساتھیوں میں سے ایک نے خواب دیکھا اور اس کا ذکر مجھ سے کیا اور کہا کہ میں نے خواب میں استاد چاکر کو دیکھا ہے وہ مجھ سے ناراض  ہے، میں جیسے ہی نیٹورک پر گیا تو میں نے فورا ماما کو بتایا  تو  اس نے ہنستے ہوئے مجھے ایک وائس نوٹ کیا تو ہم کافی دیر تک آپس میں ہنستے رہے۔

ماما نے ہنستے ہوئے مجھے ایک وائس نوٹ بھیجا اور کہا سنگت کو کہہ دو کہ مجھے خواب میں مت دیکھا کرو۔ یہ پاکستانی ڈرون ہر وقت میرے اوپر چکر لگا رہے ہیں کیا پتہ میزائل میرے سینے پر مار دیں اور ہاں میں آپ سے کھبی بھی ناراض  نہیں ہوسکتا۔ آپ میرے سب سے بہترین ساتھی ہو اور ہمیشہ رہو گے۔ اپنی زمہ داریوں کو بہتر سمجھو  اور جس کام اور مقصد کیلئے گئے ہو اس کو انتہائی خوبصورتی کے ساتھ نبھانے کی کوشش کرتے رہو ،میں آپ سب دوستوں کے کام سے خوش ہوں۔

استاد چاکر جب بھی لائن پر ہوتے تو وہ لازمی ہماری ذہنی تسکین اور مذاق کیلئے ہمیں دو دو مزاحیہ ویڈیو بھجتے رہتے کہ اس کھٹن راستے کی مسافت میں صرف ہنسی ہی ہمیں ذہنی سکون  دے سکتی ہے۔  اور خاص طور ہر ساتھی کے مزاج کے حساب سے متعلق ویڈیو ارسال کرتے۔

دشوار گزار راستوں میں دوستوں کو سمبھالنا، انکی تکالیف اور مشکلات کو حل کرنے میں کھبی غفلت نہیں برتے تھے ، وہ بخوبی جانتے تھے کہ یہ جنگ ہے اس میں شہادت ہر صورت اور ہر قدم پر موجود ہے۔ اس لیے اپنے نظریاتی ساتھیوں کو  اپنے جیسا بنانے میں لگن سے محنت کرتے رہے۔ تاکہ ہم میں سے کسی ایک ساتھی کے بچھڑنے کے بعد بھی تنظیمی کاموں میں کوئی کمی یا خلل نہ آئے۔  بلکہ ہمارے ساتھی اس سفر اور جدوجہد کو منزل تک پہنچانے میں اپنا کردار ادا کرتے رہیں۔

میں اپنی تحریر کا اختتام ہی  استاد سے معذرت کے ساتھ کرنا چاہونگا کہ میرے عظیم سیاسی استاد میرے پاس الفاظ نہیں کہ آپ کے کردار کو بیان کرسکوں، فقط اس شعر کے ساتھ  استاد کو ایک چھوٹا سا گلہ دوں کہ۔

 رہنے کو سدا دیر میں آتا نہیں کوئی
آپ جیسے گئے ایسے کوئی بھی جاتا نہیں

مدیر

نیوز ایڈیٹر زرمبش اردو

مدیر

نیوز ایڈیٹر زرمبش اردو

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Next Post

آواران: پاکستانی فورسز پر مسلح افراد کے حملے بعد فورسز کی جارحیت جاری، تاحال ہسپتال میں فوج موجود

اتوار ستمبر 15 , 2024
بلوچستان ضلع آواران شہر میں پاکستانی فورسز کے مرکزی کیمپ پر رات کے مسلح افراد کے حملے کے بعد پاکستانی فورسز کی فوجی جارحیت تاحال جاری فوج ہسپتال میں ابتک موجود ایمبولینس بڑی تعداد میں پہنچ گئی ہیں۔ پاکستانی فورسز حملے کے بعد آواران کے بازار سمیت مختلف سڑکوں کو […]

توجہ فرمائیں

زرمبش اردو

زرمبش آزادی کا راستہ

زرمبش اردو ، زرمبش براڈ کاسٹنگ کی طرف سے اردو زبان میں رپورٹس اور خبری شائع کرتا ہے۔ یہ خبریں تحریر، آڈیوز اور ویڈیوز کی شکل میں شائع کی جاتی ہیں۔

آسان مشاہدہ