میجر نصر اللہ عرف اُستاد چاکر ۔ سالار بلوچ

انقلاب تبدیلی کے عمل کا نام ہے لیکن وہ تبدیلی جس کی ناکامی سے تباہی جبکہ کامیابی خوشحالی کی نوید ہوتی ہے۔ انقلاب ہمشہ اپنے بچوں کو کھا جاتی ہے انقلاب ایک ایسی خطرناک شئے ہے دنیا میں کہیں بھی آئی ہے تباہی لائی ہے انقلاب اپنے بچوں کو خود جنم دیتی ہے پالتی پوستی ہے انہیں چٹانوں کی طرح مضبوط بناتی ہے شیر کی طرح بہادر ،لومڑی کی طرح چالاک بناتی ہے۔

ہرن جیسی تیز رفتاری عطا کرتی ہے مگر آخرمیں اسے کھا جاتی ہے لیکن انقلاب جب کامیاب ہو جاتی ہے تو وہ ساری تباہی اسکی وجہ سے آئی تھی اسکا حساب برابر کردیتی ہے وہ رات جسے تاریکیوں سے نکالتی ہے صبحِ جیسی نور سے نوازتی ہے دنیا میں ہر چیز کی قیمت ہے ہر عمل کا ردعمل ہے سانس لینے سے لیکر سانسیں بند ہونے تک کی بھی قیمت ہے دنیا میں کوئی ایسی چیز میری نظر سے نہیں گزری ہے اسکی قیمت نہ ہو ہر قیمت پیسے سے ادا نہیں کی جاسکتی ،تو انقلاب ایک چھوٹی سی تبدیلی کا نام نہیں بلکہ پورے نظام کو تبدیل کرنے والی شئے ہے اسکی قیمت ہمارے سوچ سے بھی بڑھ کر ہے جہاں ہماری سوچ جا نہیں سکتی تو قمیت کا تعین کرنا بھی آسان نہیں ہوگی ایک بات ضرور ہے یہ سر مانگتی ہے خون مانگتی ہے پسینہ مانگتی ہے یہ سب انقلاب کی مانگیں ہیں تو سوچو جہان مانگیں بڑی ہو تو ظاہر سی بات ہے اپنے لئے وہی تیار کرتا ہے ،

ایک انقلابی ہر چیز میں ماہرانہ صلاحیت رکھتا ہے کیونکہ جب کاریگر مہارت رکھنے والا ہوں تو ہر اس چیز کو خوبصورت سے خوبصورت بنانے میں کامیاب رہتا ہے یہی تو کاریگر کی کاریگری کو چار چاند لگاتا ہے۔ لیکن کچھ ایسے انسان بھی ہے جو ایک مخصوص کام کے لئے وجود میں آئے ہیں جن کی کام کے متعلق اور ان کے کردار کے متعلق ہم سوچ بھی نہیں سکتے وہ اتنے خوبصورت ہوتے ہیں کہ ان کی خوبصورتی بیان نہیں کی جاسکتی ہے۔

خوبصورت چیزوں کی قدر ہوتی ہے خوبصورتی ایک ایسی کشش کا نام ہے جو ہر انسان کو اپنی طرف راغب کرنے میں کامیاب ہوتی ہے۔

بلوچستان کا تو صدیوں سے نڈر، بہادر، نرمزار ،باصلاحیت جنگجو پیدا کرنے میں اول رہا ہے بلوچستان کے رکھوالے تو ہزاروں میں رہے ہیں اپنے جان کا نزارنہ پیش کرنے میں اول رہے ہیں ۔لیکن 76سالون میں بلوچستان نے اپنے لئے ایسے جنگجووں کو جنم دیا ہے جن کی نظیر نہیں ملتی جنگی صلاحیتوں سے سرشار بلوچ نوجوان ہر اس عمل میں اگے رہے ہیں جہاں قربانیوں کی ضرورت محسوس کی ہے۔

میں ایک ایسے نرمزار بے خوف بہادر نوجوان کے بارے میں دو الفاظ قلم بند کرنا چاہ رہا ہوں جس کی زندگی کا نام بلوچستان تھا جس نے بلوچستان کو اپنے جان سے زیادہ عزیز جان کر خود کو امر کردیا۔

وہ بہادر نوجوان شخصیت کا نام نصراللہ مراد ہے بلوچستان کے ایک چھوٹے سے گاؤں مشکے کلاتچر کے ایک غریب گھرانے سے تعلق رکھنے والے محمد مراد کے ہاں پیدا ہوا لیکن کچھ سال کے بعد والد کا انتقال ہوا۔گھر کی ساری زمہ داری بڑے بھائیوں نے سنھبالی۔ ان بھائیوں میں ایک محمد رمضان بلوچ جوکہ پاکستانی ایجنسیوں نے گوادر جاتے ہوئے راستے میں زیروہ پوائنٹ سے علی حیدر کے سامنے اغوا کرکے غائب کردیا جس کے غم میں اسکی والدہ انتقال کرگئی اور بچے آج بھی اپنے والد کی بازیابی کے لئے کیمپوں، سڑکوں کا طواف کرتے رہتے ہیں۔

نصراللہ مراد نے اپنے ابتدائی تعلیم اپنے گاؤں کلاتچیر سے حاصل کیا مزید تعلیم حاصل کرنے کے لئے ہائیر سیکنڈری سکول مشکے گجر سےحاصل کیا ۔ 2013 میں جب آواران اور مشکے میں زلزلہ آیا جس سے گھر سب ملیا میٹ ہوگئے تو 2014 میں اپنے خاندان کے ہمراہ نصر اللہ بھی گوادر چلا گیا، وہ اس وقت ساتویں جماعت کا طالب علم تھا جو اپنے بھائیوں کے ساتھ محنت مزدوری کرتے اور پڑھائی بھی کرتے رہے۔ ایف ایس ای کے بعد مذید تعلیم کے لئے کوئٹہ چلے گئے اور انجنئیرنگ کے شعبے سے منسلک ہوگئے۔کچھ وقت پڑھنے کے بعد اس نے پہاڑوں کا رخ کیا اور ایک سرمچار بن گئے۔

وہ ایک خوش مزاج شخصیت کے مالک تھے درویش قسم کے انسان تھے جو زیادہ کسی سے بات نہیں کرتا۔ اگر اپنے مزاج کا انسان ملتا تو زیادہ وقت وہی گزارتا۔ وہ ہر مجلس کی جان ہوتا اسکے باتوں میں ایک مٹھاس ہوتی جو لوگوں کو اپنی طرف کھینچتی۔ شہید نے اپنے راستہ کا انتخاب اس وقت کیا جب لوگ لالچ کی وجہ سے پہاڑوں سے نیچے اتر کر ریاست کو سجدہ کررہے تھے اور لوگ مایوسی میں تھے۔

اس وقت اگر کوئی اس راہ کا انتخاب کرتا ہے تو اسکا مطلب یہ ہے کہ حقیقی انقلابی ہے کیونکہ جہان مایوسی ہر طرف راج کرتی ہے۔ اس مایوسی سے نکلنے کا راستہ پر امید انسانوں کے ہاتھ ہے جو اپنے فیصلوں سے پورے سماج کو متاثر کرتے ہیں۔
اصل انقلابی انسان حالت سے مایوس ہونے کے بجائے امید کی کرن بن کر ابھرتے ہیں اور اپنی صلاحیتوں سے ہر مشکل کو برداشت کرکے سماج میں ایک امید بن جاتے ہیں۔

نصر اللہ ان سرمچاروں میں تھا جو خوش گپیوں اور آزاد خیالی سے اجتناب کرکے تنظیم و تحریک کے لئے اپنا کردار ادا کرتے ہیں۔ نصر اللہ کے قول و فعل میں کوئی تضاد نہ تھا بلکہ وہ ایک مکمل سرمچار تھا۔

نصراللہ جان سب کو سلام کرنا، منان جان سے لیکر ہر اس شہید کو جو مستقبل کے لئے جان کا نذرانہ پیش کرکے امر ہوگئے،دلوں میں بستے ہیں ایسے لوگ جن کی قربانی قوم کو ایک جذبہ عطا کرتا ہے۔

مدیر

نیوز ایڈیٹر زرمبش اردو

مدیر

نیوز ایڈیٹر زرمبش اردو

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Next Post

پنجگور ، قلات ، شہید حافظ ممتاز اور شہید زاہد جان کی شہادت پر انھیں خراج عقیدت پیش کرتے ہیں ۔ فورسز کے 23 اہلکار ھلاک کردیئے ۔ بی ایل اے

ہفتہ اگست 24 , 2024
بلوچ لبریشن آرمی کے ترجمان آزاد بلوچ نے جاری بیان میں کہاہے کہ رواں مہینے20 اگست کو ہمارے دو سرمچار تنظیمی فرائض کے تحت پنجگور کے علاقے چتکان میں تھے۔ رات ایک بجے قابض پاکستانی فورسز نے لوکل ڈیتھ سکواڈ کے ہمراہ غریب آباد میں ان کے ٹھکانے کو گھیرے […]

توجہ فرمائیں

زرمبش اردو

زرمبش آزادی کا راستہ

زرمبش اردو ، زرمبش براڈ کاسٹنگ کی طرف سے اردو زبان میں رپورٹس اور خبری شائع کرتا ہے۔ یہ خبریں تحریر، آڈیوز اور ویڈیوز کی شکل میں شائع کی جاتی ہیں۔

آسان مشاہدہ