بلوچ نیشنل موومنٹ ( بی این ایم) کے سیکریٹری اطلاعات و ثقافت قاضی داد محمد ریحان نے جموں کشمیر پیپلز نیشنل پارٹی کی آگہی نشست سے خطاب کرتے ہوئے کہا ہمیں دنیا کے لٹریچر اور تحریکوں کا مطالعہ ضرور کرنا چاہیے لیکن ہمیں اپنے راستے اپنے زمینی حقائق، سماج اور سیاسی صورتحال کے مطابق خود بنانے ہیں۔دو ہزار تین میں شہید واجہ غلام محمد بلوچ نے بھی بلوچ قوم کے حالات اور مفادات کو سامنے رکھ کر بی این ایم کی پالیسیاں بنائیں اور تحریک کو نئی شکل دی۔
انھوں نے کہا تحریک شروع کرنے کے لیے افرادی قوت کی کمی سے پریشان نہیں ہونا چاہیے بلکہ تحریک کی حقیقی بنیاد، مقصد کا واضح ہونا اور اس کے ساتھ پختہ وابستگی ضروری ہے۔ بلوچ قومی تحریک کو شروع کرنے والے بھی چند لوگ تھے اور آج لاکھوں بلوچ تحریک آزادی سے وابستہ ہیں۔
انھوں نے مزید کہا بلوچ تحریک نے اس بار اپنی زیرزمین سیاست کی وجہ سے لمبی زندگی پائی ہے۔ سیاست ایک فن ہے آپ کو یہ دیکھنا ہے کہ آپ کس وقت کیا کریں گے ۔ ماضی میں بلوچ تحریک کے تسلسل کا دورانیہ مختصر ہوتا تھا ، پھر سارے لوگ بکھر جاتے تھے یا پھر جا کر پاکستانی ریاست کا حصہ بن جاتے تھے۔اس بار مسلسل دو دہاہیوں سے زیادہ عرصہ ہوا ہے کہ بلوچ تحریک نے ایک واضح سمت پکڑی ہے ۔ اپنی سمت سے نہیں ہٹی ہے، نشیب و فراز آئے ییں لیکن تحریک آگے بڑھی ہے۔
ان کا کہنا تھا آج میں سمجھتا ہوں کہ بلوچ سمیت دیگر محکوم اقوام اور ہمارے دانشوروں کو جائزہ لینا چاہیے کہ کیا صرف جلسہ جلوس کی سیاست مزید موثر ہیں، کیا ہم سڑکوں پر مزید اپنے لوگوں کی لاشیں گرنے کا متحمل ہوسکتے ہیں؟ ۔ بلوچوں نے تو کافی عرصہ پہلے اپنا راستہ چن لیا ہے کہ محض جلسہ جلوس کی سیاست سے آزادی نہیں ملے گی۔
انھوں نے کہا بلوچ سیاسی تحریک میں پختگی اس لیے نہیں آئی کہ بلوچ کوئی خاص قوم ہے بلکہ بلوچ کی تاریخ اور اس کے حالات اور سیاسی و نظریاتی وابستگی کی وجہ سے آج بلوچ قوم سیاسی طور پر باشعور ہوچکی ہے اور اس سے دیگر محکوم اقوام متاثر ہیں۔ہر فیصلہ کن دور میں بلوچ قوم میں مزاحمتی کردار پیدا ہوئے جن کی وجہ سے بلوچ کی بقا ممکن ہوئی۔
۔۔۔
گفتگو کا مکمل متن:
جموں کشمیر پیپلز نیشنل پارٹی کی آگاہی نشست
موضوع: بلوچ راجی مچی اور اس کے سیاسی اثرات
(حصہ دوم)
بلوچ راجی مچی: بلوچ یعنی بلوچ قوم، راجی یعنی نیشنل یا قومی، مچی یعنی اجتماع یا جلسہ عام جس میں پوری قوم کو جمع کیا جاتا یے ، یہ اس کے لفظی معنی ہیں۔راجی مچی یعنی قومی اجتماع۔
آج کے اس پروگرام کے توسط سے ایک تو آپ دوستوں کا بہت شکریہ ادا کرتا ہوں اور دوسرا آپ سے عرض کرتا ہوں کہ آپ تحریک میں افرادی قوت کو دیکھتے ہیں اس میں افرادی قوت کی کمی یا زیادتی کو دیکھتے ہیں آپ افرادی قوت کی کمی سے پریشان نہ ہوں۔
سب سے اہم بات کسی تحریک کے لیے اس کا حقیقی پن ہونا چاہیے ، مطالبات حقیقی ہونے چاہیے، موقف حقیقی ہونا چاہیے، اپنی سرزمین سے جڑا ہونا چاہیے۔
بلوچ تحریک کو اگر آپ دیکھیں گے اس میں آپ کو جو ایک رنگ نظر آتا ہے ، دیگر اقوام کے جو لوگ ہیں ہمارے دوست ہیں ان کو اس سے توانائی ملتی ہے ہمیں بھی اس بات کی خوشی ہے اور ہم دیکھتے ہیں کہ بلوچ تحریک میں اس سارے عرصے میں حقیقی معنوں میں ایک سنجیدگی آئی ہے ۔ لیکن یہ اس وجہ سے نہیں ہوا کہ ہم لوگ کوئی خاص قسم کی قوم ہیں یا ہمارے پاس ایسے طریقے ہیں جو دوسری کسی قوم کے پاس نہیں پائے جاتے ۔ بلکہ یہ تحریک کا ایک تسلسل تھا اس نے ہمیں بہت ساری چیزیں سکھائی ہیں ۔ ہم نے بہت ساری چیزیں دیکھی ہیں ،کمیونسٹ دور میں ہم نے بہت ساری اصطلاحیں اپنی سیاست میں دیکھی ہیں ۔ بہت سارا لٹریچر بھی آیا اس سب کو دیکھا اس کا مطالعہ کیا اس نسل کے لوگ بھی ہماری تحریک میں شامل تھے۔ بلوچ نیشنل موومنٹ (بی این ایم) کی جن لوگوں نے بنیاد رکھی وہ بھی کمیونسٹ نظریات سے متاثر لوگ تھے ۔ پھر ایک ایسا وقت آیا کہ 2003 میں (بی این ایم) کی نئی شکل وضع کی گئی تو اس میں یہ دیکھا کہ ہمیں اپنے لیے کیا کرنا چاہیے، دنیا کی بہت ساری کتابیں ہوتیں ہیں جب ان کا آپ مطالعہ کرتے ہیں تو شاید وہ ان لوگوں کے لیے صحیح ہوں شاید اس وقت کے لیے صحیح ہوں جس وقت کے لیے وہ کتابیں لکھی گئی ہیں۔ جس سماج کے لیے لکھی گئی ہیں ۔ بہت ساری چیزیں ایسی ہیں جو پڑھنے میں بہت دلچسپ ہیں ، آپ کو سکھاتی ہیں آپ کے ذہن کو بہت زیادہ وسیع کرتی ہیں ۔ آپ کے ادراک کو بڑھاتی ہیں ۔ لیکن میرے خیال میں ہمیں کسی بھی باہر کے علم کو لے کر اپنے اوپر عمل نہیں کرنا چاہیے۔ ہمیں اپنی سرزمین دیکھنی چاہیے، اپنے حالات دیکھنے چاہئیں اور ایک طرح سے اپنی راہیں آپ بنانی ہیں ۔ اور لوگوں کو یہ دکھانا ہے ، دنیا کو یہ دکھانا ہے کہ دیکھیں ہم نے یہ کیا ہے ۔
بلوچ تحریک میں اور پوری دنیا میں یہ چیزیں ہوں گی ۔ لیکن میں بلوچوں کے بارے میں زیادہ جانتا ہوں ۔ جب آپ بلوچوں کے بارے میں تاریخی پس منظر میں دیکھیں گے تو آپ کو ایک عجیب چیز نظر آئے گی کہ بلوچوں نے کبھی کسی بھی وقت کسی بھی بڑی طاقت کے سامنے سر نہیں جھکایا ۔ بلوچوں کے سر کٹے ہیں، مرے ہیں، نسل کشی دیکھی ہے۔ ایک سب سے بڑی نسل کشی بلوچوں کے خلاف انوشیروان ساسانی کے زمانے میں ہوئی تھی۔ انوشیروان ساسانی اسلام کے زمانے سے بہت پہلے تھا ۔ اس وقت بلوچوں کی نسل کشی کی گئی ۔ شاہنامہ فردوسی میں، جو ایک بہت مشہور کتاب ہے جو فارسی زبان میں لکھی گئی ہے ۔ ہمارے خطے میں اس کا بہت زیادہ حوالہ دیا جاتا ہے ۔ اس میں ایک خاص بات جو میں نے نوٹ کی ہے ، میں نے جب تحقیق کی تو اس میں صرف ایک قوم کا ذکر ہے، وہ قوم بلوچ ہے۔ بلوچ قوم کے علاوہ کسی قوم کا ذکر نہیں ہے ۔ اس میں یہ بات بھی بتائی جاتی ہے کہ انوشیروان نے بڑی تعداد میں بلوچوں کا قتل عام کیا کہ اس نے حکم دیا تھا کہ کوئی بلوچ زندہ نہ بچے. اردو کی کتابوں میں ہمیں انوشیروان ساسانی ”عادل ” کے نام سے پڑھایا جاتا ہے ۔ جنھوں نے اردو کی کتابیں لکھی ہیں ان کو شاید بلوچوں کا پتا ہی نہ ہو ۔ یہ جس انوشیروان کو عادل کہتے ہیں ہم اس انوشیروان کو گجستگ (منحوس) کہتے ہیں ۔ کیونکہ اس نے بلوچوں کی نسل کشی کی تھی اور حکم دیا تھا کہ جائیں ماریں ان کو، جو لڑنے کے قابل ہیں ان کو ماریں، عورتوں کا قتل کریں، کوئی بھی فرد ان کا زندہ نہ چھوڑیں، اس کے اس حکم پر قتل عام ہوا، اور پھر یہ اعلان ہوا کہ کوئی بلوچ باقی نہیں بچا ہے ، نہ ظاہر میں کوئی بلوچ باقی ہے نہ ہی چھپا ہوا کوئی بلوچ باقی ہے۔
تو جب یہ لڑائی شروع ہوئی تھی تو یہ نظریاتی بنیادوں پر تھی، کمیونسٹ نظریات کے لوگ مزدک کو پہلا کمیونسٹ لیڈر مانتے ہیں ۔ مزدک کے جو پیروکار تھے شروع میں بلوچ تھے۔ تاریخ میں آپ دیکھیں گے جو بیچ بیچ میں چیزیں آتی ہیں، تو اس وقت بلوچوں نے کچھ اس طرح کے فیصلے کیے ہیں ۔ جن سے ایک ایسے خطے میں رہتے ہوئے جہاں ہر وقت تضادات کا ماحول ہو ۔بڑی بڑی طاقتوں نے حملہ کیا ہے تو اس نے اپنے آپ کو زندہ رکھا ہوا ہے۔
ابھی میں آپ دوستوں سے یہ کہتا ہوں میں بلوچوں سے بھی یہ عرض کرتا ہوں کہ ہم نے تو بہت عرصہ پہلے یہ فیصلہ کر لیا تھا کہ پارلیمانی یا جمہوری طریقہ آزادی کے لیے ضروری نہیں ہے ۔ یہ ایک طریقہ ضرور ہے کہ آپ اپنی بات پہنچاتے ہیں چہرہ دکھاتے ہیں لیکن بار بار اپنی قوم کو اس طرح نقصان پہنچانا ، جلسے کرنا ، لوگوں کا قتل ہونا ، پاکستان جیسی ریاست کے زیر قبضہ نہ ہم اس کے مزید متحمل ہو سکتے ہیں اور نہ ہی یہ سلسلہ آگے بڑھانا چاہیے۔
[ زیرزمین سیاست اپنی سماجی زمین میں گہرائی میں جڑ پکڑتی ہے۔ سست رفتاری سے آگے بڑھتی ہے۔ اپنے کیڈرز اور قیادت کو محفوظ بناتی ہے اور اس وقت سرفیس پر ابھرتی ہے جب سامراج یا قابض کے مقابل اس کی طاقت متوازن ہوجاتی ہے یا توازن اس کے حق میں ہوتا۔ ]
ہمیں اس طریقے کو بھی ساتھ رکھنا چاہیے ۔ دیکھیں سیاست ایک فن ہے۔ سیاست ایک آرٹ ہے ، آپ کو یہ دیکھنا ہے کہ آپ کس وقت کیا کریں گے ۔ بلوچ تحریک نے جو لمبی زندگی پائی ہے ، میرے خیال میں اس سے پہلے بھی ہوتا تھا، تحریک کا دورانیہ مختصر (چند مہینے / سال) ہوتا تھا ، پھر سارے لوگ بکھر جاتے تھے یا پھر جا کر پاکستانی ریاست کا حصہ بن جاتے تھے۔ابھی مسلسل دو دہاہیوں سے زیادہ کا عرصہ ہوا ہے کہ بلوچ تحریک ایک واضح سمت پکڑ چکی ہے ۔ تحریک اپنی سمت سے نہیں ہٹی ہے ۔ تحریک آگے بڑھی ہے، نشیب و فراز آئے ہیں ۔ جن لوگوں نے تحریک کا آغاز کیا تھا ان میں سے بہت سارے لوگ ہم میں نہیں ہیں، غلام محمد شہید ہو چکے ہیں ۔ خیر بخش مری نہیں رہے ۔وہ پہلی قیادت جس نے اس تحریک کو ابھارا ، آج ہم جو یہاں کم لوگ بات کر رہے ہیں میں آپ کو بتاؤں کہ بلوچ تحریک کا جن لوگوں نے آغاز کیا ، جنھوں نے تحریک بنائی ، وہ آپ سے کم لوگ تھے ۔ جنھوں نے اس کو شروع کیا ، اس کو زندگی دی ، اس کو ایک رخ دیا بہت کم لوگ تھے۔ اب ہزاروں میں، لاکھوں میں تعداد آگے بڑھ رہی ہے ۔ تو ہمیں کبھی بھی ایسا نہیں سوچنا چاہیے کہ میں اکیلا ہوں, ہماری تعداد کم ہے ، اس فن کو سمجھنا ہے جس کو سیاست کہتے ہیں۔ جس وقت آپ کو جو فیصلے کرنے چاہیے بالکل اسی وقت کریں ۔ جہاں تک میں بلوچ تحریک کی زندگی کو دیکھتا ہوں کہ اس کو زندگی ملی ہے تو وہ اس کی زیرِ زمین سیاست کی وجہ سے ملی ہے ۔ ہم نے بھی بہت احتجاج کیے، شہروں میں ریے جلسے جلوس کیے احتجاج کی سیاست کی لیکن بی این ایم نے سروایو صرف اس لیے کیا کہ جس وقت ہمیں یہ معلوم ہوا کہ اب ریاست ہمیں برداشت نہیں کرئے گی تو ہم نے ایک بڑی قوت کو ریزرو رکھا ، اپنے لوگوں کو باہر نکالا ، لوگوں کو زیرِ زمین کیا، لوگوں کی بڑی تعداد مسلح جدوجہد کی طرف چلی گئی ، ہماری تحریک کے جو بانی تھے انھوں نے بھی اس راستے کو چنا۔ اور اس تحریک میں ہم نے آج بھی یہ سیکھا ہے بلوچ یکجہتی کمیٹی نے بھی ہمیں یہ سکھایا ہے کہ پاکستان اب سرفیس جدوجہد کے ذریعے آپ کو کوئی راستہ نہیں دئے گا ۔ جموں کشمیر کی تحریک پر میرا فوکس رہتا تھا جب میں ریڈیو زرمبش پر تھا۔ ابھی بھی میں نے کافی ساری چیزوں کو قریب سے پڑھنے، سمجھنے اور سیکھنے کی کوشش کی ہے ۔ جب ہم کسی بھی اسٹیج پر جاتے تھے تو ہم یہ واضح کہتے تھے کہ ہمیں پاکستان سے آزادی چاہیے، اگر اس بات پر ہم قتل ہوتے ہیں، مارے جاتے ہیں تو کوئی بات سمجھ آتی ہے کہ ہمیں مارا جا رہا ہے ہمیں پکڑا جا رہا ہے کیونکہ ہم اس ریاست کو ماننے سے انکار کرتے ہیں۔
لیکن جموں کشمیر میں ہم دیکھ رہے ہیں لوگ آٹا مانگ رہے ہیں ان کو قتل کیا جا رہا ہے ۔ لوگ بجلی کی مانگ کرتے ہیں ان کو قتل کیا جاتا ہے ۔ اساتذہ جب نکلتے ہیں اپنی تنخواہ یا دیگر ایشوز پر تو ان پر بھی تشدد کیا جاتا ہے ان کو کچلا جاتا ہے۔ نرمی نہیں برتی جاتی ۔ پختونوں کے ساتھ بھی ہم نے یہی دیکھا ، پی ٹی ایم جب ابھری تھی تو ہم نے یہی دیکھا کہ لوگ جب چھوٹی چھوٹی باتیں لے کر سڑکوں پر آتے ہیں تو ان کو کچلا جاتا ہے ۔
میں تو اپنی طرف سے اس پر بات رکھ رہا ہوں لیکن جو دانشور ہیں وہ اس کو زیادہ گہرائی میں دیکھیں کہ پاکستان میں جلسہ جلوس کی قومی سیاست نتیجہ خیز ہے یا نہیں۔