بلوچ یکجہتی کمیٹی کے مرکزی آرگنائزر ڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ نے سوشل میڈیا ایکس پر پوسٹ جاری کرتے ہوئے کہاہے کہ گذشتہ پچیس سالوں سے ہمارے ہزاروں پیارے بلوچ نوجوان اور بزرگ پاکستانی فوجی ٹارچر سیلوں میں شدید گرمی اور سردی کی حالت میں ذہنی و جسمانی تشدد سے چکنا چور ہوکر زندگی اور موت کی کشمکش میں زندہ لاش بن کر جی رہے ہیں۔
اس امید کے ساتھ کہ کوئی ہوگا غمخوار جو ہماری لیے آواز بلند کرے گا۔ کیا ہم ایک دن گوادر کی پُرمہر اور پُرعظمت گرم ہواؤں کی جھونکوں میں متحد ہوکر اپنے پیاروں کے لیے ایک مؤثر اور طوفان شکن آواز نہیں اٹھا سکتے؟
انھوں نے لکھا ہے سوال کرتے ہوئے کہاہے کہ کیا ہم اپنی معصوم اور یتیم بچوں کے درد و کرب کا احساس لے کر متحد ہوکر مستقبل میں مزید اپنے بچوں کو یتیمی سے نہیں بچا سکتے؟
کیا ہم مزید اپنی ماؤں اور بہنوں کے آنسوؤں اور سسکیوں کو دیکھتے اور سہتے ہوئے پھر سر جھکاتے ہوئے زندگی گزار کر یہی کہتے رہیں گے کہ ہم ایک زندہ قوم ہیں؟
کیا یہ خاموشی، یہ خوف، یہ بزدلی خود ہماری پیشانی پر ایک سیاہ دھبہ نہیں ہوگا؟
مڈاکٹر نے کہاہے کہ ہم پہلے بھی کہہ چکے ہیں اور آج بھی واضح کرتے ہیں کہ راجی مچی بالکل سیاسی عمل ہے، لیکن سیاسی مقاصد اور سیاسی عمل سے زیادہ بلوچ راجی مچی بلوچیت اور انسانیت کے کرب و درد اور تکلیفوں سے بھرا ہوا وہ اذیت ناک اظہار ہے جو 75 سالوں سے ریاست مختلف سازشوں اور طریقوں سے بلوچ قوم کی نسل کشی کرتی چلی آرہی ہے اور اب بلوچ نسل کشی میں ریاست مزید شدت پیدا کرنے اور وسعت دینے کا باقاعدہ فیصلہ کرچکی ہے۔
بی وائی سی کے آرگنائزر نے کہاہے کہ اگر ہم نے اب بھی خاموشی اختیار کی تو مستقبل قریب میں شاید آپ ایک فرد زندہ ہوں گے لیکن بلوچ قوم کا نام و نشان نہیں ہوگا۔
لہذا سیاست، جماعت، تنظیم، ضد، انا، اور گروہ بندی سے بالاتر ہوکر، صرف اور صرف بحیثیت بلوچ، آپ جہاں بھی ہوں، جیسے بھی ہوں، اپنی قومی ذمہ داریوں کا ادراک کرکے 28 جولائی کو بمقام گوادر بلوچ راجی مچی میں بھرپور شرکت کریں اور بلوچ قوم کو متحد کرنے میں اپنا کردار ادا کریں۔