جنوری 29 کی شام بولان میں دھماکوں اور حملہ کی خبر سوشل میڈیا پر گردش کرنے لگی تو اس کو لوگ سرمچاروں کی معمول کی کارروئ سمجھ رہے تھے کیونکہ آئے روز قابض فوج کو بلوچ سرمچار اپنے حملوں میں نشانہ بناتے ہیں ۔لوگ اس حملے کو بھی ایک ایسے ہی حملہ سمجھ رہے تھے ۔ جب بلوج لبریشن آرمی کی طرف سے اس حملے کی بارے میں ایک بیان سامنے آجاتی اس میں مختصرا یہ بتاتی ہے کہ بولان بیک وقت مجید برگیڈ (فدائین) فتح سکواڈ اور اسپیشل ٹیکٹکل آپریشنلز سکواڈ نے فوجی کیمپ سمیت کئی سرکاری ادروں پر قبضہ کر رکھا ہے اور لوگوں سے سفر نہ کرنے کی اپیل کرتے ہیں۔ لوگوں میں ایک خوشی کی لہر دوڑتی ہے اور فخر محسوس کرنے لگتے ہیں اور دل ہی میں کہتے کاش دشمن پر ایسی ہی روزانہ کی بنیاد بڑے بڑےحملے ہوجائیں ۔
لیکن ساتھ میں مجید برگیڈ کا نام سن کر لوگوں کی چہروں پر خوشی کے ساتھ ساتھ غم بھی نمودار ہوتا ہے ان کو پتا ہوتا ہے ، مجید برگیڈ کے ساتھی پھر کبھی واپس نہیں آئیں گے ۔ وہ دشمن پر قہر بن کر ٹوٹ پڑتے ہیں اورآخری تیر اپنے گلے میں پیوست کرکے ہمشہ کیلے تاریخ اور اپنے قوم کے لوگوں کے دلوں میں امر ہونگے۔
اس حملے نے پاکستانی ریاست اور چاپلوسوں کو نفسیاتی مریض بنا چکا تھا جھوٹ پہ جھوٹ بولے جا رہے تھے کانفرنسسز کئے جا رہے تھے کہ حملہ کو ناکام بنا دیاگیا ہے ، دہشتگرد مار دئیے گئیے ہیں ۔ لیکن حقیقت اس کے برعکس تھا حملہ 29 جنوری سے 31 جنوری تک شدت سے جاری رہا۔
31جنوری کی شام تنظیم اس حملے کی اختتام کا علان کرتی ہے اس میں دشمن کی نقصانات کی تفصیل جاری کرتی ہے اور اس بیان میں کہتی ہے بلوچ شہدا کی تفصیل کچھ دیر میں شائع کردی جائیگی۔ شہدا کی تفصیل آنے سے پہلے ایک میسج نے مجھے چونکا دیا کہ بولان کی فدائیوں میں کے ڈی جان بھی شامل ہے۔
میں بہت دور پیچھے سوچوں میں گُم ہو گیا۔
موبائل سائیڈ پر رکھ کر سوچتا رہا اس نرمزار کی پہلی ملاقات سے آج تک کی یادیں ایک فلم کی طرح ذہین میں چل رہے تھے ۔پہلی بار اس سے بارگ جان کے ساتھ ملا اور جلد ہی ہم بہت اچھے دوست بن گئے ۔اس نے اپنی پڑھائ سے لے کر بہت ساری باتیں میرے ساتھ شئیر کئے ۔ میں اس نتیجے میں پہنچا کہ وہ ایک عاشق تھا اس کو کتابوں سے عشق تھا وہ اپنی پڑھائ پر کسی صورت کمپرومائز نہیں کرتا تھا ۔ وہ ڈاکٹر بننے کی خواہش دل میں لیئے اپنی ساری توجہ پڑھائ پر مرکوز کئے رکھا تھا ۔ اس کو کتابوں کہ علاوہ شاہد کسی اور شئے سے عشق ہوا تھا ۔
اسی خواہش دل میں لیئے صدام حسین اپنی علاقہ خاران سے شال کا رُخ کرتا ہے تاکہ وہاں باقاعدہ کلاسسز جوان کرکے اپنی پڑھائ جاری رکھ سکے۔ اور ڈاکٹری کی سیٹ حاصل کرکے اپنی قوم کی خدمت کرسکے ۔ لیکن شال میں اسے ایک اورعشق ہو جاتاہے وہ اب صرف اپنی کورس کی کتابوں تک محدود نہیں رہتا ہے۔ بلکہ انقلابی کتابیں بھی اس نے پڑھنا شروع کردیتا ہے۔
شال کی یخ بستہ ہواہوں نے اس کو وطن کی عشق میں مُبتلا کر دیتا ہے ۔ اب وہ کورس کے بجائے بلوچ بلوچیت اور بلوچستان کے بارے میں زیادہ دلچسپی رکھتا یے۔ لیکن صدام جان نہ اپنی پڑھائ شال میں مکمل کرسکا اور نہ ہی وہاں زیاد دیر تک رہے سکا کیونکہ اس کو ایک خطرناک بیماری لاحق ہوجاتی ہے “کالا یرقان “بلوچستان میں یہ بیماری بہت سے علاقوں میں پائ جاتی ہے۔ لیکن بقول صدام جان کی راسکوہ کی تقریبا ہر تیسرے چوتھے باشندے کو یہ بیماری ہے۔ صدام جان بھی اس بیماری کا شکار ہوجاتا ہے اور اس کو شال مجبوراَ خیر باد کرنا پڑتا ہے اور واپس اپنے علاقے میں آجاتا ہے۔
صدام جان علاقے میں میرل جان سے مُلاقات کرکے وطن سے اپنی محبت کا اظہار کرتا ہے اور کام کرنے کی خواہش ظاہر کرتا ہے ۔میرل جان جو خود انہی کاموں میں دن رات مصروف ہوتا ہے۔ میرل جان بھی اپنے ایک دوست کے ساتھ جبری گشمدگی کا شکار ہوتا ہے تشدد کے بعد رہائ پا کر اوتھل یونیورسٹی سے اپنی تعلیم بھی جاری رکھتا ہے اور ریاست کی طرف سے ان پر کئ گئ بوگَس کیسوں کا بھی سامنا کرتا ہے۔ تشدد اور ایف آئ آر میرل جان کی نظریات اور کاموں میں کمی لانے کے بجائے مزید پختہ کر دیتے ہیں۔ میرل جان پہلے سے زیادہ کاموں میں مصروف ہوجاتا ہے ۔ اس دروان میرل جان شہر میں ہو کر تنظیمی کاموں کو سر انجام دیتا ہے۔ شہید میرل جان صدام جان کی وطن سے جزبات دیکھ کر بہت خوش ہوجاتا ہے۔ اور اس کو بی اہس او آزاد کی میگزین اور دیگر انقلابی رسالے پڑھنے کلئیے دے دیتا ہے۔
کتابوں سے اس کے انقلابی خیالات مزید توانا ہو جاتے ہیں۔ ۔
دن گزر جاتے ہیں وہ عاشق وطن کی عشق کی گہرائیوں میں کھویا رہتا۔ پھر اس کی ملاقات وطن کی ایک اور شہزادہ بارگ جان سے ہوتا ہے ۔ بارگ جان ایک باعلم کمیٹڈ جزباتیت سے پاک زمینی حقائق سے واقف حقیقی معنوں میں ایک انقلابی کامریڈ تھا ۔ کچھ ہی ملاقات میں بارگ جان اور صدام ایسے گُل مل جاتے ہیں جیسے بچھڑے ہوئےبچپن کی دو یار برسوں بعد ملے ہیں۔ اس وقت صدام حسین زیادہ تر
یونیورسٹی میں ہوتا تھا ۔ اگر دونوں علاقے میں موجود ہوتے تو صدام اکثر بارگ جان کے ہمراہ ہوتا۔ بارگ جان کی محفل میں ہنسی مزاق کے ساتھ ساتھ بہت کچھ ان سے سیکھنے کا موقع بھی مل جاتا تھا۔ وہ باتوں باتوں میں اپنی مقصد کی بات بھی کر جاتا۔ بارگ جان کی انقلاب سیاست اور جنگ پر لیکچر اور صدام کی عملمی سوالات ایسے ہوتے کہ کبھی دل نہیں کرتا ان کی محفل سے اٹھنے کا۔
اب صدام ایک سرمچار کی روپ دھار چکا تھا اور سب کچھ پیچھے چھوڑ کر وطن کی محبت سے سرشار وطن کے سرفروشوں کی ہمراہ تھا اور ان کی کاموں میں دن رات ایک کرتا تھا ۔ رمضان کی ایک رات مجھے اس کلیئے کوئ کام پڑ گیا اور اس کی نمبر ملایا تو بند تھا ۔ میں پریشان ہوگیا کہ اس کی نمبر کیوں بند ہے ۔ جب دو دن بعد ملا پوچھنے پر کہا کہ یار ملا آساہ اور میں اس رات راسکوہ کی پہاڑوں پہ گئے تھے کام سے اور رات ادھری گزارا اُدھر نیٹ ورک نہیں تھا ۔آساہ خاران میں ایک جانے مانے سیاسی رھشون تھا لیکن جب ریاست کو ان کی سیاسی سرگرمیاں برداشت نہیں ہوئے تو ملا آساہ نے بھی پہاڑوں کا رُخ کرکے دشمن کو ان کی زبان میں سمجھانے کی عہد کر لیا۔
یہ وطن کے عاشق کبھی ملُا کے ساتھ تو کبھی بارگ جان اور میرل کے ہمراہ اور کبھی وطن کی کسی اور سپاہی کا ہمسفر تھا۔ دن رات سردی گرمی کی فرق اس کے سامنے ختم ہوچکا تھا اس کی ذہین میں صرف وطن کی مہر اور دشمن کی نفرت نے گھر کر چکی تھی۔ یہ وہ وقت تھا کچھ سرمچار اپنی قومی جہد وجہد قومی فریضہ سے دستبردار ہوکر دشمن ریاست کے سامنے سجدہ ریز ہوچکے تھے جو اب کسی قومی جہد و جہد کے بجائے ریاستی دلاروں کے ساتھ مل کر کچھ پیسوں کلئیے بلوچ سرمچاروں اور ان کی ساتھ ہمدردی رکھنے والوں کی مخبری کیا کرتے تھے اور ایف سی کے ساتھ مل کر ان کو جبری گمشدگی کا شکار بھی بنایا جاتے تھے۔
اور پھر ایک دن اسکی بھی جبری گُم شدگی کی خبر آئ کہ رات کو تین چہاربجے کے وقت خاران سے ایف سی اور ان کی مخبروں نے کہیی بلوچ نوجوانوں کو لاپتہ کردیا گیا اس میں صدام حسین بھی شامل تھا ۔ یہ خبر سُنتے ہی میرے سامنے ایک خوفناک منظر گھومنے لگا. ریاست کی ٹار چر سیلوں کی منظر تشدد اور سزائیں جو بلوچ لاپتہ نوجوانوں کو دی جاتی ہیں ٹارچر سیلوں سے نکلے لوگ ایسے قصہ بیان کرتے ہیں جہنیں سُن کر عام انسان کے رونگھٹے کھڑے ہوجاتے ہیں ۔ اگر چہ صدام ایک مضبوط نظریہ کا مالک تھا لیکن اس کی جسامت کو ذہین میں رکھ کر سوچنے لگا پتا نہیں وہ دشمن کی اذیتوں کو سہہ سکے گا یا نہیں۔
پتا نہیں دشمن کو اس کے بارے میں کتنی معلومات ان کی دلار دے چکے ہیں میں سوچتا رہا اگر ریاستی مشینری کو اسکے بارے میں سب کچھ معلوم ہو تو دو ہی صورت ہوں گے ایک اس سے بلوچ سرمچاروں کے بارے میں معلومات لینے کی کوشش کریگی اگر وہ انکاری ہو جائے تو اس کو فورا قتل کر کے اس کی لاش کسی ویرانے پیھنک دے گا دوسری صورت میں اس کو طویل گمشدگی کا شکار بنا کر اس کو ٹار چر سیل میں اذیتیں دے کر اسے منہ کھولنے پر مجبور کرے گا۔ لیکن صدام ایک خاصا سنجیدہ اور دشمن کی پالیسیوں اور ان کی دلاروں کی ہر چال کو سامنے رکھ کر اپنی کاموں کو سر انجام دیتا تھا۔ اسلئیے دشمن کے پاس ان کے بارے میں کوئ خاص معلومات نہیں تھے۔ اس کی وجہ سے وہ صدام کو کسی طرح کی نقصان نہیں دے سکے اور ایک ہی ہفتے میں اسے رہا کر دیا گیا۔
جب بھی کوئ زندانوں سے نکلتا ہے نفسیاتی طور پر بہت ڈسٹرب ہوتا ہے ۔لیکن جب صدام سے ملا تو اس میں کوئ ایسی چیز محسوس نہیں کی ۔
اگر چہ اس پر بھی طرح طرح کی تشدد ہوا تھا۔ جب میں نے اس سے پوچھا اب آگے کیا کروگے دشمن کی نظر میں تو آپ آگئے ہو اگرچہ اس کے پاس آپ کے خلاف بہت زیادہ معلومات تو نہیں تھا لیکن اب اس کی نظر آپ کی سرگرمیوں پر ضرور ہوگی۔ وہ کچھ سوچتے ہوئے بولا یار اب میں نے فیصلہ کیا ہے تبلیغ میں جاؤں گا۔ میں نے اس کی اس فیصلے کی تائید کی اور اس کو یہ کہا یہ بہتر رہے گا اور دشمن سمجھے گا آپ اپنی نظریہ سے پیچھے ہٹ گئے ہو اور آپ پر زیادہ شک نہیں کرے گا۔ بہت سارے باتیں ہوئے اور پھر ہم دونوں اٹھ گئے ۔
اس کے بعد اس سے رابطہ نہیں ہوسکا اور لوگوں سے یہی سُنا کہ وہ واپس یونیورسٹی گیا ہے وقت گز رہا تھا اس کا کچھ پتا نہیں چلا اور مجھ سمیت سب لوگ ہیی سمجھ رہے تھے کہ وہ اپنی پڑھائ میں مصروف یے ۔ لیکن وہ یونیورسٹی میں جانے کی بجائے کسی اور راستے کا انتخاب کرچکا تھا اور اسی راستے کا مسافر تھا۔ اب صدام نے پہاڑوں کو اپنا مسکن بنا لیا تھااب صدام حسین نہیں کے ڈی جان بن چکا تھا۔
پہاڑوں میں زندگی بسر کرنا کوئ آسان کام نہیں ہوتا ہے لیکن وطن کی محبت میں بلوچ نوجوان نہ صرف کہی کہی سالوں تک پہاڑوں میں زندگی کرتے ہیں بلکہ قابض ریاست جان لیوا حملہ بھی کرتے ہیں اور دشمن فوجی آپریشن کا بھی سامنا کرتے ہیں ایسے فوجی حملوں کی نتیجے میں بلوچ سرمچار شہید بھی ہوتے ہیں۔ لیکن ان کے
حوصلے نہیں ٹوٹتے ہیں خوف، ڈر، مایوسی اور نامیدی ان کو چھو کر بھی نہیں گزرتا ہے ان کے حوصلے مضبوط تر ہوجاتےہیں اپنی بچی کچی طاقت یکجا کرکے قابض فوج پر کسی اور طریقے سے حملہ آور ہوتے ہیں ۔
اس طرح کے ڈی جان نے بھی آٹھ سال پہاڑوں میں گزارا لیکن اس کے زبان سے کبھی گِلہ شکوہ مایوسی اور ناامیدی کی بات نہیں سنی جب کوئ دوست شہید ہوتا تو کہتاتھا یہ جنگ کے حصے ہیں ہم بھی مارے جائیں گے ہم ایک ایسے ناپاک ریاست سے جنگ لڑ رہے ہیں یہ کچھ بھی کرسکتا ہے ہماری ماؤں بہنوں کو نہیں چھوڑتا ہے ان کی تزلیل کرتا ہے تو سرمچار ان کی رِٹ کو چیلنج کررہے ہیں تو ان کو ختم کرنے کلئیے ریاست اپنی ایڑی کی زور لگارہی ہے لیکن اس بار جیت بلوچ قوم کی ہوگی ۔
اور وہ ایک دن آگیا جس کے ذکر کے ڈی جان کیا تھا کہ ایک دن ہم بھی مارے جائیں گے لیکن کے ڈی یہاں غلط تھا کیونکہ دشمن اس کو نہیں مار سکا ا۔س نے مرنے کا فیصلہ اپنی ساتھیوں سمیت خود لیا اور خود دشمن کے کیمپوں میں گھس کر ان کو انکی اوقات دلا کر شہادت کی موت پالیا ۔
کے ڈی جان ساتھیوں کے ساتھ وطن کی دفاع میں قربان ہوچکا تھا وطن کے شہزادے دشمن کو ان کی اوقات دکھا کر اور اپنی فرض نبھا کر جسمانی طور پر ہمیشہ کلیئے جدا ہوگئے۔ فدائین جو اکھٹے دشمن پر قہر بن کر آئے تھے اب الگ الگ اپنی شہروں کی طرف روان دوان تھے ۔لوگ دلہنوں کی طرح ان کی استقبال کررہے تھے ان پر پھول نچھاور کئے جا رہے تھے. یہ وہ شہزادے تھے جنہوں نے اپنی موت کا فیصلہ خود کیا تھا۔ وطن کلیئے سر قربان کیا لیکن وطن سے غداری نہیں کی ۔ اپنی ہر خواہیش پس پُشت ڈالا لیکن وطن سے عشق نہیں چھوڑا ۔ پھر لوگ کیسے ایسے وطن زادوں کو اپنی سر کی تاج نہیں سمجھیں گے۔
ایمبولینس میں لیٹا ہوا فدائ صدام حسین (کے ڈی جان) کو بھی خاران کی طرف لے جا رہے تھے ۔لوگ شدت اور بے صبری سے اورپھولوں کے ساتھ اپنے ہیرو کا انتظار کر رہے تھے. جو آٹھ سالوں بعد ان سے ملنے جا رہا تھا۔ لیکن اب وہ خاموش تھا وہ اپنا پیغام اپنی کردار سے اپنی قوم کو دے چکا تھا ۔رات کی گیارہ بجے کے قریب جب کے ڈی جان اپنی علاقہ خاران میں پہنچتا ہے سخت سردی کے باجود مرد خواتین شہر سے باہر ان کی استقبال پھولوں سلامیوں اور ترند و تیز نعروں سے کرتے ہوئے ان کے گھر تک پہنچا دیتے ہیں ۔ صبح ہزاروں لوگ جنازے میں جمع ہوکر کے ڈی جان کو سپردے گلزمیں کرتے ہیں ۔لوگوں کے چہروں میں خوشی اور اداسی بیک وقت موجود تھا دشمن کی شکست اور اپنے شہزادوں کی بہادری سے خوش دکھائ دے ریے تھےلیکن اپنے جوانوں کی موت نے ان کو اداس بھی کر دیا تھا۔
زخمی راسکوہ آج پہلی بار سینہ تان کر کھڑا تھا وہ کوہ شاشان کوہ چِلتن کوہ باتیل اور شور کی پہاڑوں سے ہمسری کررہا تھا اور کہہ رہا تھا میں ضرور دشمن کے ہاتھوں زخمی ہو چکا ہوں لیکن میرے فرزند اپنی وطن کی دفاع کرتے رہیں گے۔
کے ڈی جان کو لوگوں نے الوداع کرکے زمیں کے حوالے کردیا جس کئلیے وہ دشمن سے لڑتا رہا لیکن اس کی سوچ فکر اور نظریہ کو نہیں اس کی سوچ فکر اور نظریہ اب پہلے سے کہیں گنا زیادہ ابھر کر سامنے آئیگی اس کی بندوق اب وطن کے کسی اور شہزادے کے کندوں پر ہوگی۔۔