جبری لاپتہ افراد کی بازیابی کیلئے قائم بھوک کیمپ کو 5476 دن ہو گئے ۔
اظہار یکجہتی کرنے والوں میں بی ایس او پجار کے چیئرمین بوہیر صالح اور کابینہ کے دیگر ساتھیوں نے کیمپ آکر اظہار یکجہتی کی۔
وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز وی بی ایم پی کے وائس چیئرمین ماما قدیر بلوچ نے جاری بیان میں کہاہے کہ پاکستانی ریاست نے بلوچ سرزمین پر اپنے قبضے کو دوام دینے کے لیے روز نت نئے حربوں کے ساتھ بلوچ فرزندوں کی جبری اغوا بلوچستان کے مختلف علاقوں اور پنجاب کے مختلف یونیورسٹیوں سے جیسے لاہور اسلام آباد سرگودھا فیصل اباد اور علاقوں سے لاپتا کیا جاتا ہے تاکہ بلوچ تعلیم حاصل نہ کر سکیں ۔
ماما قدیر بلوچ نے کہا ہےکہ بلوچستان میں فرزندوں کی جبری اغوا بلوچ نسل کشی عام آبادیوں پر بمباری آئے روز پاکستانی فوج کی خواتین بچوں پر تشدد سے چولی دامن کا ساتھ ہے اب ریاستی جبر بھی بلوچ کی زندگی کا حصہ بن چکی ہے ان تمام ریاستی جبر سے ایک شے بلوچ قوم کو اعلی بنا چکی ہے وہ ہے اس طویل غلامی کے خلاف تحریک کی جدوجہد کے اس فیز میں بہترین انقلابی شکل اختیار کر کے قوم میں غلامی کے خلاف شعور کو اجاگر کرنا جو اس جدوجہد کو کامیابی و کامرانی کی جانب لے جا رہی ہے ۔
انھوں نے کہاہے کہ پاکستانی حکومت بلوچ جدوجہد کو داخلی عالمی سطح پر کاؤنٹر کرنے کے لیے پاکستانی فوج کے استعمال کے ساتھ ساتھ اپنی خفیہ اداروں نام نہاد سیاسی ٹولز کا پورا استعمال کیا ہے اور کر رہا ہے ۔
ماما قدیر بلوچ نے کہا ہےکہ شاید اس اقوام متحدہ اور انسانی حقوق کے دعویداروں کا ضمیر جاگ جائے لاپتہ افراد بلوچوں کی بازیابی کے لیے پاکستانی حکمران قوتوں پر دباؤ ڈالے اور انسانی حقوق کی پائمالی اور جنگی جرائم کے مرتکب ریاستی عناصر کے خلاف بین الاقوامی قوانین اور تسلیم شدہ اصولوں کے تحت کاروائی عمل میں لائیں اور تمام مسائل کی جڑ بلوچ قومی سوال کو اس کی تاریخی بنیادوں اور بلوچ قوم کی امنگوں و خواہشات کے مطابق حل اور قوم کی حیثیت کی بحالی میں اپنا کردار ادا کریں اب دیکھتے ہیں کہ لاپتہ بلوچوں کے لوائقین سمیت بلوچ قوم کی ان توقعات پر اقوام متحدہ سمیت بین الاقوامی قوتیں کہاں تک پورا اترتی ہیں۔