گلزمین کا سچا عاشق

تحریر: سوبین بلوچ

بلوچ گلزمین ساحل پسنی پر جب پرتگیزی لشکر 1515ء میں قابض ہوگئے تو حمل جیئند اپنے ہمنوا دوستوں کے ساتھ مل کر پرتگیزیوں سے جنگیں لڑیں اور اُس وقت بلوچ کے پاس ہتھیار نہیں تھے ۔ لیکن بلوچ وطن کے باسیوں نے تلوار سے لیس ہوکر نہ صرف ڈٹ کر مقابلہ کیا ، بلکہ اُن ظالم و جابر حکمرانوں کو شکست فاش کرکے ہمیشہ ہمیشہ کیلئے مادر وطن سے بھاگنے پر مجبور کردیا اور خود شہید ہوکر تاریخ میں امر ہو گئے۔

یہ ایک تاریخی حقیقت ہے کہ جنگیں ہمیشہ ہتھیاروں سے نہیں ، حوصلوں سے جیتی جاتی ہیں۔ مزاحمت کا وہی تسلسل ہنوز بھی جاری و ساری ہے جو غیر فطری ریاست پاکستان کے خلاف گزشتہ پچھتر سالوں سے آزادی کی جنگ میں مصروف عمل ہیں۔

میں کولواہ شاپکول کا ایک باسی ، باکردار نوجوان جاوید جان عرف عمر جان کی داستان رقم کرنے جا رہا ہوں۔ میں کولواہ کے لوگوں کے کن کن اچھائیوں سے آپ لوگوں کو روشناس کراوں ، بامرد ، خوش اخلاق ، مہمان نواز اور میں نے زندگی میں ایسے لوگ بہت کم دیکھے ہیں۔ میں بلوچ نیشنل موومنٹ میں تھا تو کسی کام کے توسط سے جب میرا پہلی دفعہ کولواہ شاپکول میں جانا ہوا ، تو نوعمر جاوید جان کو دیکھا تو انتہائی نرم گو اور ملنساز نوجوان تھا ۔ تو اُس سفر کے بعد میں سدا کولواہ آتا رہا اور جاوید جان سے ضرور ملاقات ہوتا رہا۔

کافی مدتوں کے بعد جب اُس نے بی ایس او آزاد میں شمولیت کر لیا ، میں شاپکول آیا تو حسب روایت کھانے کیلئے دسترخوان لگایا گیا تو وہاں جاوید جان کی عدم موجودگی میں واھگ جان سے پوچھا کہ نرم گو انسان نظر نہیں آ رہا ہے؟ ، تو اُنھوں نے کہا والد صاحب نے انھیں کیچ میں پڑھنے بھیجا ہے۔
تو جاوید جان کا دیرینہ خواہش تھا کہ بلوچ تحریک کا ایک جھدکار( سرمچار) بن کر مادر وطن کا قرض چھکا دوں۔

کچھ عرصہ گزرنے کے بعد کسی کو بتائے بغیر واپس کولواہ کی سنگلاخ پہاڑوں میں پہنچ کر جہاں بلوچ جھدکاروں کے مسکن تھے ۔والدین اضطرابی کیفیت میں پڑ گئے کہ ہمارا بیٹا گیا تو کہاں گیا۔ ہر جگہ ڈھونڈتے رہے اور ہر کسی سے پوچھتے رہے ، بالآخر کوئی ساتھی کسی کام کے سلسلے میں وہاں گیا اور گھر والوں کو کہا کہ وہ ہمارے ہاں آچکا ہے ۔اگلی روز ماں سرمچاروں کے کیمپ آئی اور کہا کہ میرا بیٹا مجھے لوٹا دیں ان کا پڑھائی خراب ہوگا ، تو یہ سن کر بیٹا نہایت احترام کے ساتھ ماں سے مخاطب ہوکر کہنے لگا میں جتنا پڑھا ہوں وہ فہم اور فراست میرے لئے کافی ہیں۔

اے ماں! آپ کے علاوہ میری ایک اور ماں (سرزمین) ہے جو اُن پر غاصبوں اور جابروں نے قابض ہوکر آتش فشاں لاوے برسا رہے ہیں ، اور ان کے بیٹے اور بیٹیوں پر مظالم کئے جارہے ہیں، وہ دیکھنے میں انسان کی بساط کی بات نہیں ۔ انہی بیٹیوں میں سے ایک زرینہ مری جو گزشتہ بیس برسوں سے (پاکستانی) ٹارچر سیلوں میں بند یزیدی لشکر زنا بالجبر کرتے رہے ہیں۔زرینہ کی مانند ہزاروں ایسی بیٹیاں ہیں جو زندانوں میں بند اُن کی عزت نفس کو مجروخ کئے جا رہے ہیں۔اُن ماں (سرزمین )کی اتنی چیخیں کہ پوری کائنات لرزہ خیز ہو جاتی ہیں ، میں تو فقط ایک انسان ہوں، بلا میری کیا اوقات؟
میں اتنی چیخ و پکار برداشت کر سکوں تو یہ تڑپ مجھ میں طاری ہوکر میں دوڑ کر چلا یہاں آیا کہ اس کیفیت میں اپنی ماں کی بیٹیوں کی لاج رکھ سکوں ۔

یہ بات سنتے ہی ماں نراس ہوکر واپس لوٹ گئی کہ اب وہ نہیں آئے گا۔ ساتھیوں نے پہلے بھی کہا تھا آپ چلے جائیں ، لیکن والدہ ماجدہ کے سامنے زور دیکر کہا کہ آپ چلے جائیں تو اُس نے کہا کہ میں جانے کیلئے نہیں ، بلکہ میں تحریک میں کچھ بن کر دکھانے کیلئے آیا ہوں۔
اس بات کو سننے کے بعد ساتھیوں نے اس کا کوڈ نام عمر جان رکھ دیا۔ وہ ایماندار ، جفاکش ، مخلصی کے ساتھ ساتھ نڈر اور باصلاحیت نوجوان تھا۔ شادی شدہ ہوکر بھی گھرآنگن سے دور ، کیونکہ وہ گلزمین سے جنون کی حد سے عشق کرنے والا مدہوش نوجوان تھا ، اُسے حطام دنیا سے کوئی سروکار نہیں تھا۔ یہاں تک وہ فون کرنے کیلئے مبائل بھی نہیں رکھتا تھا۔ جنگی صلاحیتوں سے لبریز ایک کامل جنگجو اور ایل ایم جی ماسٹر کے ساتھ ساتھ وہ ایک فدائی تھا۔

عمر جان نے شہید میجر آسمی وفا جان سے کہا تھا کہ میں مجید برگیڈ میں لازماً جانا چاہتا ہوں ، بقول سنگت بالاج جان کے میجر وفا جان نے کہا تھا کہ وہ میرے بیٹے نودان کی مانند ہیں ، میں قطعاََ اسے اپنے سے دور نہیں کرنا چاہتا ، لیکن وہ ہر وقت بضد ہے کہ مجھے بیھجا جائے۔
تو یہ اتفاق دیکھے مادر وطن کے دیوانے پر 11مئی کی رات ڈرون آکر ساری رات ان کے سر پر منڈلاتے رہے۔ 12مئی 2023 کی دوپہر میزائل فائر کرنے کے بعد ہیلی کواپٹر بمعہ کمانڈو آمد کے ساتھ بلوچ جھدکاروں نے یزیدی دشمن کے ساتھ گھمسان کی لڑائی شروع ہوئی۔ عمر جان کی وہ بات کہ ” میں تحریک میں کچھ بن کر دکھاوں گا ” ، واقعی وہ بن کر دکھائے۔

ہر سرمچار کی خوائش ہے کہ دوبدو کی لڑائی میں دشمن کو نسیت و نابود کرکے شہادت کے رتبے پہ فائز ہو جاوں۔ ایل ایم جی اپنے ہاتھوں میں لئے دوبدو کی لڑائی میں 98 گولیاں فائر کرکے اپنے دیگر آٹھ ساتھیوں کو بحفاظت نکالنے میں کامیاب ہوکر خود اپنے ہمنوا دوستوں کے ہمراہ میجر آسمی وفا ، واجہ دینار بلوچ ، شکاری جان ، سفر جان اور کمک جان کے ساتھ جام شہادت نوش کرکے ہمیشہ کیلئے امر ہو کر ان کی دی ہوئی قربانیاں، نظریہ ، فکر اور سوچ ہماری رہنمائی کریں گے۔

مدیر

نیوز ایڈیٹر زرمبش اردو

مدیر

نیوز ایڈیٹر زرمبش اردو

Next Post

زامران میں پاکستان فوج پر حملے اور جاسوسی کیمرے تباہ کرنے کی ذمہ داری قبول کرتے ہیں – بی ایل اے

منگل مئی 7 , 2024
بلوچ لبریشن آرمی کے ترجمان جیئند بلوچ سرمچاروں نے زامران میں دو مختلف کارروائیوں میں قابض پاکستانی فوج اور ان کے نصب کیئے گئے جاسوس کیمرے اور مواصلاتی آلات کو نشانہ بنایا۔ انھوں نے کہاہے کہ بی ایل اے کے سرمچاروں نے گذشتہ شب زامران کے علاقے پگنزان میں پاکستانی […]

توجہ فرمائیں

زرمبش اردو

زرمبش آزادی کا راستہ

زرمبش اردو ، زرمبش براڈ کاسٹنگ کی طرف سے اردو زبان میں رپورٹس اور خبری شائع کرتا ہے۔ یہ خبریں تحریر، آڈیوز اور ویڈیوز کی شکل میں شائع کی جاتی ہیں۔

آسان مشاہدہ