اسلام آباد : یہاں سے جو نفرت کا پیغام دیا گیا، ہم یہاں سے نفرت کا پیغام لے کر جا رہے ہیں، ہمارے ساتھ جو کچھ ہوا وہ سب کچھ یاد رکھا جائے گا۔ ڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ

اسلام بلوچ نسل کشی خلاف دو ماہ سے جاری دھرن ختم

بلوچ نسل کشی کیخلاف جاری تحریک کے قائد ڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ نے پریس کانفرنس سے کے ذریعے اس تحریک کے پانچویں فیز کا اعلان کرتے ہوئے کہا کہ 27 جنوری کو بلوچستان کے دارلحکومت کوئٹہ میں ایک عوامی جلسے کا انعقاد کیا جائے گا اور بلوچستان میں گھر گھر بلوچ نسل کشی و جبری گمشدگیوں سے متاثرہ خاندانوں سے رابطہ کر کے کیسز کو اکھٹا کیا جائے گا اور عالمی سطح پر میڈیا و انسانی حقوق کے ذمہ دار اداروں کو آگہی فراہم کی جائے گی ۔

اسلام آباد ماہ رنگ نے دھرنا ختم کرنے کا اعلان کیا

اسلام آباد میں پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے دھرنے کی قیادت کرنے والی ماہ رنگ بلوچ نے کہا کہ یہاں سے جو نفرت کا پیغام دیا گیا، وہ پیغام ہم بلوچستان لے کر جائیں گے، ہم یہاں سے نفرت کا پیغام لے کر جا رہے ہیں، ہمارے ساتھ جو کچھ ہوا وہ سب کچھ یاد رکھا جائے گا۔

انھوں نے کہاکہ بلوچ یکجہتی کمیٹی کی جانب سے بلوچ نسل کشی کے خلاف جاری تحریک کا آج 61 واں دن ہے۔ تربت میں بالاچ بلوچ کے ماورائے عدالت قتل کے خلاف شروع ہونے والا تحریک آج پورے بلوچستان میں ریاستی ظلم، جبر اور بربریت کے خلاف ایک منظم تحریک بن چکا ہے اور حوصلہ افزاء امر یہ ہے کہ یہ تحریک پورے محلے کے مظلوم عوام کے لیے امید و حوصلے کا باعث ہے۔ اور اس تحریک کو پورے خطے کے مظلوم عوام کی حمایت و مدد حاصل ہے۔ جس طرح ظلم اور جبر کے خلاف ابھر نے والا یہ پر امن تحریک جس نے تربت سے اسلام آباد تک ایک پتھر بھی کسی کو نہیں مارا وہ اپنے آغاز سے ریاستی تشدد اور مظالم کا شکار ہے۔

یہ بات آپ صحافی حضرات سمیت پوری دنیا کے لیے اس حقیقت کو آشکار کرنے کے لیے کافی ہے کہ یہ ریاست گزشتہ 75 سالوں سے بلوچستان پر ایک کالونی کے طرز پر حکمرانی کر رہی ہے جہاں انسانی زندگی کی کوئی اہمیت نہیں، جہاں بلوچ عوام کا قتل عام اور ان پر جبر کرنے والے ریاستی گماشتوں پر مشتمل ٹولا لوگوں کو دبانے کیلئے کسی بھی حد تک گئی ہے۔ جنکے ظلم سے آج بلوچ کا ہر گھر متاثر ہے، وہاں رہنے والے لوگ کس قدر ریاستی جبر اور بر بریت کا سامنا کر رہے ہیں۔ آج آپ صحافی حضرات ہر ذی شعور انسان اس بات پر بحث کر رہی ہے کہ جب یہ ریاست اپنے دار الحکومت اسلام آباد میں ہزاروں کیمروں، انسانی حقوق کے تنظیم اور صحافیوں کے موجودگی میں بلوچ خواتین و بچوں پر مشتمل ایک پر امن دھرنے کو چاروں طرف سے خار دار تاروں سے بند کر کے هر روز دهمکی، ہر اسگی، پرافائلنگ اور پر تشدد جیسے سنگین اقدامات سے دبانے کی کوشش کر رہی ہے تو اسلام آباد سے ہزاروں کلومیٹر دور بلوچستان کے دور افتاد ان علاقوں میں ریاست کارویہ بلوچوں کے ساتھ کیسا ہو گا، وہ گاؤں جہاں انٹر نیٹ تو دور بجلی بھی نہیں ہے تو وہاں ریاست بلوچ عوام پر کس قدر ظلم کرتا ہو گا۔ جہاں پر ایک عام سپاہی اور ایک عام ریاستی ڈیتھ اسکواڈ اپنا قانون بنا کر لوگوں کو سرے عام قتل اور اغوا کرتے ہیں۔

جہاں پر آئین، قانون، سزاد جز اسب کچھ سیکیورٹی ادارے ہی متعین کرتے ہیں، اس جنگل کے قانون میں ہمارے ہر طبقہ کے لوگ متاثر ہیں، بی وائی سی شروع دن سے کسی بھی غیر انسانی عمل کے خلاف سیسہ پلائی دیوار کی طرح کھڑا رہا ہے اور ہم یہ عہد کر چکے ہیں کہ بلوچ قوم کے ساتھ ساتھ اس لئے میں کسی بھی غیر انسانی عمل ، ریاستی مظالم کے خلاف مزاحمت کو مزید توانا کریں گے اور عوامی قوت کے ساتھ ان تمام ریاستی درندگی کے خاتمے تک اس خطے کے ساتھ ساتھ دنیا میں بسنے والے انسان دوست لوگوں کو متحرک کرنے میں اپنی پوری توانائی کو بروئے کار لا کر ان درندگی اور مظالم کے خاتمے تک اس تحریک کو جاری رکھے گے۔

ڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ نے کہا کہ ہم سمجھتے ہیں کہ وہ دن دور نہیں جب اس خطے کے مظلوم عوام کسی بھی غیر انسانی عمل کے خلاف یکجاہ ہو کر اس ظالم ریاست سے ہر ظلم کا حساب لے گے۔ بلوچستان میں لاکھوں لوگ اس تحریک کے حمایت میں سڑکوں پر نکل چکے ہیں اور ریاستی اداروں کی جانب سے بلوچستان کی پوری آبادی کو دہشت گردا قرار دے کر ریاستی اداروں نے پوری بلوچ قوم کو واضح پیغام دیا ہے کہ انہیں صرف بلوچستان کے وسائل اور زمین سے غرض ہے اور اس زمین پر بسنے والے لوگوں کی کوئی اہمیت نہیں، لیکن ہم یہاں واضح کر دیں کہ ہمارے لئے ہماری زمین پر ایک چیونٹی بھی عزیز ہے اور ایک انسان اور بلوچ کی جان کی قدر تو بہت بڑی بات ہے اور انکی جان ومال کی حفاظت ، اس پر ہر ظلم کے خلاف کھڑا ہونا ہمارا ایمان بن چکا ہے، جس کو کوئی بھی قوت کمزور نہیں کر سکتی۔

آپ لوگوں نے یہ بھی دیکھا کہ یہ ریاست نہ صرف پر تشد و اقدمات کے ذریعے مظلوموں کے آواز کو دبانے کی کوشش کرتی آرہی ہے بلکہ میڈیا اور نے صحافی نما ایجنٹوں کے ذریعے پروپیگنڈہ کر کے کسی طرح جھوٹ بیانیہ بناتی ہے اور کس طرح اپنے مظالم کو چھپانے کے لیے جھوٹی بیانیہ بنانے کی جنگ لڑ رہی ہے۔ جو مظلوم لوگوں کے حقیقی مسئلوں سے رو گردانی اور انکو سنجیدہ حل کے بجائے اپنی جھوٹی بیانیہ سے چھپانے کی ناکام کوشش کرتے ہیں۔ لیکن مظلوم لوگ اپنی حقیقی مسکوں سے بخوبی واقف ہیں اور وہ اپنے خطے میں اس جنگل کا قانون ختم کرنے کیلئے متحرک ہو چکے ہیں۔ ہمارے اس تحریک کا مقصد ہی یہی تھا کہ ہم یہاں کے لوگوں کے ساتھ ساتھ پوری دنیا کو اس ریاست اور اسکے اداروں کی مظلوم اقوام اور خاص کر بلوچ قوم پر پر تشد داور تعصبانہ رویے کو دیکھائے جو ہماری اس پر امن تحریک نے واضح کر کے دنیا کو دکھادی۔

اگر اب بھی دنیا کے انسان دوست لوگ، اور ادارے خاصکر یونائیٹڈ نیشن اور یورپی یونین ان ریاستی مظالم کو نظر انداز کریں گے تو یہ انسان دوستی اور انسانیت کی سب سے بڑی شکست ہو گی۔ ریاست اور اسکے ادارے دارالحکومت، جہاں پر کئی ملکوں کے ایمبیسیڈر ز ، انسانی حقوق کے اداروں کے ساتھ ساتھ انٹر نیشنل میڈ یا با ہو سز کی موجودگی میں اس تحریک سے جڑے لوگوں پر تشدد، پروفائلنگ کرنا اور ہراساں کرنا شامل ہیں، جہاں یہ ادارے اس حد تک گر گئے کہ ہمارے پر امن تحریک کو ختم کرنے کیلئے برائے نام جھوٹے سیکیورٹی ٹریٹ الرٹ جاری کر کے اسلام آباد میں عام لوگوں کے ساتھ ساتھ غیر ملکی لوگوں کے بیچ پینک اور ان کے حالات پیدا کئے تاکہ ہمیں مزید ہراساں کیا جائے اور ہماری اس تحریک کو تشدد سے ختم کر کے جسٹیفائی کیا جا سکے۔ تو (Insecurity) سیکیورٹی آپ اندازہ لگائے کہ یہ سیکیورٹی ادارے کس قدر عام بلوچ آبادی پر ظلم ڈھا رہے ہیں ، اور یہ لوگ بلوچستان کے حقیقی حالات کو گزشتہ 75 سالوں سےکس طرح دنیا کے سامنے دباتی آرہی ہے۔

ہم اس اہم نقطے کو بھی اس پر یس کا نفرنس کے ذریعے پوری دنیا کے سامنے واضح کرنا چاہتے ہیں کہ جس طرح ریاست اس تحریک کے آغازت ہوئی سماج میں مذہبی، قبائلی علاقائی اور جنس کے بنیاد پر مختلف طریقوں سے پروپیگنڈہ کرتا آرہا ہے لیکن ہم اس چیز کو آج واضح کرنا چاہتے ہیں کہ بلوچ قوم کے در میان مذ ہبی، قبائلی علاقائی اور زبان و جینڈر کے درمیان پر کوئی فرق موجود نہیں ہے، بلوچ ایک منظم و متحد قوم ہے اور ریاست کے تمام روایاتی پروپیگنڈے دم توڑ چکے ہیں۔

انھوں نے کہاکہ جس طرح یہ تحریک 20 دسمبر کے یخ بستہ شام اسلام آباد میں داخل ہوتی ہی ہمارے پر امن قافلے کا استقبال لا تھی، واٹر کینن اور گرفتاریوں سے کی گئی اس کے بعد گزشتہ ایک مہینے سے اسلام آباد پریس کلب کے سامنے جاری دھرنے میں ہم نے ایک رات بھی ایسا نہیں گزارا ہے جس میں ہمیں اسلام آباد پولیس اور خفیہ اداروں کی جانب سے دھمکیاں ، ہر اسگی اور پُر تشد د اقدامات کا سامنانہ کرنا پڑا ہو۔

اسلام آباد پولیس اور خفیہ اداروں کے اہلکاروں کے پُر تشد و اقدامات کے عینی شاہدین اسلام آباد کے معزز عوام ، صحافی حضرات اور انسانی حقوق کے رہنما ہیں جن کی موجودگی میں اس پورے دھرنے کے دورانیہ میں ریاستی سیکورٹی فورسز کبھی بھی پر امن نہیں رہے ہیں۔ جس کی تازہ مثال گزشتہ روز ہونے والا ہمار ا مظلوم اقوام کا بین القوامی کا نفرنس تھا جس کو روکنے اور ناکام بنانے کے لیے کرفیوں جیسا سماں تھا، چاروں طرف راستے بند کیے گئے تھے ، ہمارے معزز مہمانان اور شرکاء کو آنے سے روکا گیا اور ہمارے استاد اور وکلاء کو تشدد کا نشانہ بھی بنایا گیا ہے جس کی ویڈیو ثبوت بھی موجود ہے۔

اس ریاست کی جانب سے ہم بلوچوں نے اسلام آباد میں وہ رویوں کا بھی سامنا کیا جس میں ہمارے بوڑھی ماؤں پر واٹر کینن اور لاٹھیاں استعمال کیے گئے اور ہمارے نوجوانوں کو جیل اور تھانوں میں لے گئے اور یہاں تک کے انہوں نے ہمارے کیمپ میں کمبل اور کھانے تک آنے نہیں دیے۔ جبکہ اسلام آباد پولیس اور خفیہ ادارے مسلسل ہمارے نوجوان ساتھیوں کو ہراساں کرنے کے ساتھ ساتھ پروفائلنگ بھی کرتے رہے ہیں جس میں انہیں برابر است دھمکیاں بھی دی گئی، اس میں اس طرح کے جملے بار بار استعمال کیے گئے کہ "ہم تمہیں بعد میں دیکھیں گے”۔ جبکہ اسلام آباد پولیس نے اس پورے دورانیے میں اس چیز کا بھی خیال نہیں رکھا کہ اس دھرنے میں ہمارے ساتھ اکثریت خواتین اور بچے ہیں لیکن ان سب کے باوجود انہوں نے اسلام آباد پریس کلب کے سامنے اس چھوٹے سے جگہ کو ہمارے لیے قید خانہ بنا کے رکھا ہے۔ جہاں گزشتہ ایک مہینے سے انہوں نے بلوچستان کے پر امن آواز کو دبانے کے لیے بلوچ ماؤں، بچوں اور بزرگوں کے ساتھ قیدیوں اور غلاموں سے بدتر سلوک کیا اور جو نفرت ہم نے ریاست کے سیکورٹی اداروں کے آنکھوں میں بلوچوں کے لیے دیکھا، یہاں اس دھرنے میں موجود ہمارے معصوم بچے، بزرگ اور عور تیں اس نفرت کو کبھی بھی بھول نہیں پائیں گے۔

بلوچ یکجہتی کمیٹی رہنما نے کہاکہ ہم اس عوامی تحریک کے شروع دن سے ریاست سے کہہ رہے ہیں کہ یہ تحریک بلوچستان میں جاری بلوچ نسل کشی کے خلاف ایک عوامی تحریک ہے۔ اس تحریک کی قوت عوام ہے اور جس تحریک کے پاس عوامی قوت اور حمایت ہو اس تحریک کو طاقت اور تشدد سے کسی صورت ختم نہیں کیا جا سکتا۔

لیکن اس ریاست نے جس طرح گزشتہ 75 سالوں سے ایک ذمہ دار ریاست ہونے کا ثبوت دینے کے بجائے ہمیشہ انفرادی ، ضدانا اور بچگانہ جیسے رویہ اور سوچ کو اداراتی شکل دے کر مظلوم لوگوں کو تشدد کی طرف دھکیل دیا جس کو پرائم منسٹر آف پاکستان نے واضح الفاظ میں اس تحریک کے سیمپتا ئیز رز جس میں جر نسٹ اور انٹلکچھ لڑ کو مسلح تنظیم کے کیپ میں شامل ہونے کا واضح پیغام دیا، کیا یہ ریاست کی سنجیدگی ہے ؟ کیا اس ملک میں حقیقی مسئلوں کا حل صرف تشدد سے ہی ممکن ہے جسکی تلقین وزیر اعظم نے کیا ہے ؟ کیا ہماری پر امن تحریک کو ریاست تشدد کر کے اس طرف نہیں دکھیل رہی ؟

کیا یہ ریاست اور اسکے ادارے پوری بلوچ آبادی کو پر تشدد ہونے پر اکسا نہیں رہی ؟ کیا یہ غیر سنجیدگی اور غیر انسانی عمل میں نہیں آتے؟ کیا سیکیورٹی اداروں کے ساتھ تمام ریاستی ادارے یہاں کے برائے نام سیاسی پارٹیاں برائے راست بلوچ نسل کشی میں ملوث نہیں ہیں؟ کیا یہ سب آگ میں تیل ڈالنے کا کام نہیں کر رہے ہیں؟ لیکن ہم یہ دنیا کے سامنے واضح کرنا چاہتے ہیں کہ بلوچ یکجہتی کمیٹی انکی ان پر تشد در ویوں اور اکسانے سے اپنے راستے کو متعین نہیں کرتی بلکہ شعوری طور پر شروع دن سے پر امن رہی ہے۔ اور اپنی منزل تک پر امن رہ کر مزاحمت کرتی رہے گی۔ بی وائی سی کو جس طرح ریاستی اداروں کی طرف سے تشدد کی طرف لے جانے کی ناکام کوشش کی جارہی ہے ہم عالمی انسانی حقوق کے ادارے سے درخواست کرتے ہیں کہ وہ ریاستی اداروں کی اس عمل کے خلاف نوٹس لے۔

اس ریاست کو یہ معمولی بات سمجھ نہیں آرہی ہے کہ اگر اس تحریک کے حمایت میں دشت جیسے دور افتادا گاؤں میں عورتوں، بچوں سمیت ہزاروں لوگ نکل سکتے ہیں تو آپ کو ذمہ دار ریاست کا ثبوت دیگر یہ تسلیم کرنا چاہیے تھا کہ یہ ایک عوامی تحریک ہے اور اس تحریک کے پیچھے پوری بلوچ قوم کھڑی ہے جو گزشتہ 75 سالوں سے آپ کی ظلم اور جبر کو برداشت کرتے آرہے ہیں۔اور اب وہ آپ سے بیزار ہو چکے ہیں اس لیے وہ لیاری سے لیکر تونسہ شریف تک اور دالبندین سے لیکر جاؤ تک لاکھوں کی صورت سڑکوں پر نکل رہے اور ہم سمجھتے ہیں اگر یہ ریاست ایک ذمہ دار ریاست کا کردار ادا کرتے اور اس بات کو تسلیم کرتے تو شاید وہ عمل اس ریاست کے حق میں جاتا لیکن ریاست نے پر تشد در و یہ اختیار کر کے اپنے لیے بلوچ عوام میں نفرت اور بیزاری کے ایک اور باب کا اضافہ کیا۔

بلوچ رہنما نے کہاکہ میرے خیال سے ایک میٹرک کے طالب علم کو اس بات کا بخوبی علم ہوتا ہے کہ عوامی تحریکوں کو تشدد اور طاقت سے روکنے کا یہ مراد ہوتا ہے کہ آپ اس تحریک کے طاقت میں اضافہ اور اپنے لیے مزید نفرت پیدا کر رہے ہو لیکن جس بات کا ادراک میٹرک کے اسٹوڈنٹس کو ہوتا ہے لیکن افسوس اس ریاست اور اسکے اداروں کو اس بات کا ادراک نہیں ہے۔

اس ریاست نے اس تحریک کو روکنے کے لیے ہر علاقے میں مظاہرین پر ایف آئی آر درج کیے ، مارچ کو روکنے کے لیے بھر پور تشدد کا استعمال کیا، اسلام آباد سمیت متعدد علاقوں میں مظاہرین کو گرفتار کرنا، جبری گمشدگی کے شکار افراد کے لواحقین کے گھروں میں چھاپہ مار نا، اسلام آباد سمیت ہر علاقے میں ہونے والے مظاہرین کی پروفائلنگ کرنا، دھمکیاں دینا، ہراساں کرنا اور بلوچستان سے بد نام زمانہ ڈیتھ اسکواڈ کے لوگوں کو اکھٹا کر کے ہمارے مد مقابل ان کے کیمپ لگانے سمیت ہر قسم کے حربے استعمال کیے لیکن کیا اس سے یہ تحریک ختم ہوئی؟ بلکہ ہم سمجھتے ہیں کہ ریاست کے ان مظالم اور جبر نے استحریک کو مزید توانائیاں فراہم کیا ہے، کیونکہ ہم سچ اور حق پر ہیں اور یہ ریاستی ادارے جھوٹ اور پروپیگنڈہ پر قائم رہنے کی ناکام کوشش کر رہی ہے۔ ہماری طاقت سچائی ہے اور تمہارا جھوٹ کے سہارے ریاست کو چلا رہے ہو۔

ریاست کے اس ظلم نے ہمارے ماؤں، بچے اور بزرگوں کو زیادہ حوصلہ فراہم کیا اور سب سے اہم بات جس کا اس ریاست کو قطع بھی اندازہ نہیں ہے کہ اسلام آباد میں بلوچ عوام پر ہونے والے مظالم نے بلوچستان بھر میں بلوچ عوام کے دلوں میں نفرت اور بیزاری کے ایک اور باب کا اضافہ کیا ہے۔

پریس کانفرنس دورا کہاکہ ہم سمجھتے ہیں کہ اس پورے پر امن دھرنے کے دوران جس طرح ریاست کے فورسز اور خفیہ اداروں نے پر تشد در و یہ انتیار کیا اور اس پر امن تحریک کو ختم کرنی کی کوشش کی اس کی تو ہمیں پہلے سے توقع تھی، بلکہ ہمیں ان سے اس سے بھی زیادہ توقع تھی کیونکہ ہم ان کے خطر ناک مظالم کا سامنا گزشتہ 75 سالوں سے بلوچستان میں کرتے آرہے ہیں۔ لیکن سب سے افسوسناک امر یہ ہے کہ ہم نے اس مشکل وقت میں ریاست کے تمام ستونوں کو ایک پیچ پر پایا ہے جس میں عدلیہ سے لیکر میڈیا تک شامل ہے۔ ریاست کے سیکورٹی ادارے ایک جانب ہمیں تشدد کانشانہ بنار ہے تھے تو دو سری جانب ریاست کی عدلیه مجرمانه خاموشی اختیار کی ہوئی تھی، میڈیاریاست کے مظالم کو چھپانے کے لیے ہمارے خلاف مہم چلانے میں مصروف ہیں، نام نہاد وفاقی پارٹیوں کے لوگ ہمیں گالیاں اور دھمکیاں دے رہے تھے اور خود ساختہ دانشور ہمارے لیے نفرت کا بر اور است اظہار کر رہے تھے۔

ہم یہاں اس دھرنے میں ان تمام نفرت انگیز مناظر کے اپنی یاداشت میں محفوظ کر رہے تھے کہ کسی طرح یہ لوگ بلوچوں کے معصوم بچوں اور بوڑھی عورتوں سے بھی نفرت کرنے کے ساتھ ساتھ وہ اس رویے اور نفرت کو عام پاکستانی لوگوں کے ذہن میں انجکٹ کر کے ہمارے خلاف بھڑ کانے کیلیے اپنی پوری توانائی خرچ کر رہے ہیں۔ ہم بطور انسانی حقوق کے کارکن اسکی شدید مزمت کرتے ہیں اور عالمی انسانی حقوق کے اداروں سے درخواست کرتے ہیں کہ اس پر تحقیقات کر کے اس خطے میں اس جنونیت کو ختم کرنے میں موثر اقدامات کریں اور ذمہ دار ریاستی اداروں کو اس جنونیت اور نفرت پھیلانے پرجواب وہ ٹھہرائیں۔ ہم کس قدر سادہ لوح لوگ تھے، یہ سمجھتے رہے کہ اسلام آباد میں کم سے کم یہ لوگ آکر ہمیں سنیں گے ہمارے لوگوں کو سنیں گے لیکن دارالحکومت 75 سالوں سے بلوچ لوگوں کو ادشمن سمجھ کر ہمارے ساتھ غیر انسانی عمل تیز کر دی، اور یہ آگے بھی ہماری اس پر امن تحریک کو تشدد اور طاقت کے ذریعہ ختم کرنے کی نیت رکھتے جسکے ہم عالمی انسانی حقوق کے ساتھ ساتھ ، مہذب دنیا کے لوگوں سے گزارش کرتے ہیں کہ اس سنگین مسئلے کی جانب پورے توجہ دے۔

انھوں نے کہاکہ ہم تربت سے یہاں تک اس لئے آئے تھے کہ انصاف کا بول بالا کرنے میں مدد کریں، لیکن آج اس ریاست کے ساتھ اس کے میڈیا، عدلیہ ، نام نہاد دانشور اور وفاقی پارٹیوں کو ذرا برابر بھی اندازہ نہیں ہے کہ ہم یہاں اسلام آباد سے بلوچستان کیا لیکر جائیں گے۔ یہ مائیں اور بچے اسلام آباد سے صرف اور صرف نفرت لیکر واپس بلوچستان جائیں گی جس کا میچ اسلام آباد 75 سالوں سے بور ہا ہے اور یہاں آکر اس کو اسلام آباد نے اپنی پر تشد داور دشمن جیسے سلوک نے مزید آشکار کر دیا۔ اور وہ آپ کے رویے ، آپ کے گالیاں ، آپ کے تشدد اور اس درد و تکلیف بھری کہانی کو بلوچستان کے گھر گھر کو سنائیں گے ۔

آپ کی یہ جبر کی داستان کو ہم لوریوں کے صورت ہم اپنے آنے والے نسلوں کو سنائیں گے۔ جبکہ ہم سمجھتے ہیں کہ ریاستی خفیہ اداروں اور فوج کے چمچہ گیری میں نام نہاد صحافی، دانشور اور وفاق پرست پارٹیوں کے لوگ بلوچ دشمنی میں اس حد تک کر گئے ہیں اور ہمیں یقین ہے شرمندگی اور ندامت اسلام آباد اور اسکے اداروں کی نصیب میں لکھی جائے گی۔ اور ان کے آنے والے نسلیں اپنے آباءود اجداد کے ان حرکات پر شرمندہ ہو جائینگی۔ وفاق پرست پارٹیوں نے نہ صرف اپنے لوگوں کو ہمارے اس تحریک کے خلاف متحرک کر کے ہماری خلاف مہم چلائی بلکہ انہوں نے بلوچستان سے قاتل، چور ، منشیات فروش اور ڈیتھ اسکواڈ کے لوگوں کو آنے والے الیکشن کے لیے بھرتی کر کے اپنی بلوچ دشمن پالیسیوں کا واضح اظہار بھی کیا ہے۔ اس کے ساتھ دانشوروں اور صحافیوں نے اپنے قلم کو چند مراعات کے خاطر سودا کر کے اپنے قلم کو بلوچ قوم کے دشمنی میں بھر پور استعمال کیا اور کل اسلام آباد پریس کلب نے پولیس کو اس دھرنے کے خلاف نوٹس بھیج کر پوری کر دیا جو پوری صحافت کے تاریخ میں ایک داغ ہے۔ یہ سب یادر کھے جائے گے۔

ڈاکٹر ماہ رنگ نے کہاکہ ہم سمجھتے ہیں کہ بلوچ نسل کشی کے خلاف جاری اس تحریک کا اسلام آباد آنا اور اسلام آباد میں دھر نادینا اس ریاست کے لیے ایک بہترین موقع تھا کہ وہ بلوچستان میں جاری سیاسی تنازعے کو حل کرنے کے لیے تشدد اور طاقت کا استعمال ترک کر کے بات چیت کا آغاز کرتا۔ لیکن ریاست نے اس پر امن تحریک پر طاقت اور تشدد کا استعمال کر کے پوری دنیا کے سامنے یہ ثابت کیا ہے کہ ریاست کار و یہ بلوچ قوم اور بلوچستان کے حوالے سے کس قدر پر تشدد ہے اور اس پر امن تحریک پر طاقت اور تشدد کے استعمال کے بعد یہ ریاست عملی طور پر ثابت کر چکا ہے کہ وہ بلوچستان کے مسئلے پر کس قدر غیر سنجیدہ ہے۔

ریاست ، عدلیہ ، میڈیا، وفاق پرست پارٹیاں اور نام نہاد صحافیوں اور دانشوروں کے بلوچ دشمن رویوں اور بلوچ قوم کے لیے نفرت دیکھ کر ہم اپنے اسلام آباد دھرنا اور اپنے تحریک کے چوتھے فیز کے خاتمے کا اعلان کرتے ہیں اور اس کے ساتھ ہم اپنے تحریک کے پانچواں فیز کے آغاز کا اعلان کرتے ہیں جس میں بلوچ نسل کشی کے خاتمے کے لیے انسان دوست اور مہذب لوگ خاصکر بلوچ عوام کو مزید متحرک کریں گے اور دنیا کے مہذب لوگوں کے سامنے مظلوم عوام پر ریاستی تشدد کو آشکار کرتے رہیں گے ۔ ہم یہ ریاستی غیر انسانی پالیسیوں اور رویوں کو عوامی عدالت میں رکھیں گے، عوامی طاقت کو اس جابر ریاست اور اسکے اداروں کو انصاف کے کٹہرے میں لانے کیلئے متحرک کریں گے اور مظلوم عوامی طاقت سے اس ظالم اور جاہر اداروں کو انسانیت کی قدر کرنا سکھائیں گے اور انکو انسان بنا کر دم لیں گے۔ اور ہماری یہ تحریک مختلف نیز زسے گزر کر بلوچ نسل کشی کے خاتمے تک جاری رہے گا۔ اسکے علاوہ ہمارے سوشل میڈیا کیمپین کے ساتھ ساتھ مختلف ذرائع بروئے کارلا کر بلوچ نسل کشی کے کیمپینین کو وسعت دیں گے۔

ہمارے اسلام آباد دھرنے کے دوران ہمارے اقوام متحدہ کے نمائندگان سمیت جتنے بھی انسانی حقوق کے تنظیموں کے ساتھ روابط ہوئے ہیں، ہم نے ان سب کو تحریری اور زبانی دونوں صورت ہمارے تحریک کے خلاف ریاست کے بنتے بھی پر تشدد اقدامات کی باقاعدگی سے آگاہ کرتے رہیں ہیں اور اس خطے میں خاصکر بلوچستان میں ہونے والے انسانی حقوق کی بدترین پامالی سے متعلق آگائی دیتے رہیں گیں۔

جس کیلئے عالمی انسانی حقوق کی اداروں سے امید کرتے ہیں کہ وہ ہماری اس تحریک سے جڑے رہنے کے ساتھ اپنی پوری سپورٹ دیں گے اور ایک مستقل جڑے رہنے کے راہ ہموار کریں گے، تاکہ ہم مل کر انسانی جانوں کا ضیاہ ہونے سے بچانے کے ساتھ ساتھ جبری گمشدگی جیسی انتہائی سنگین اور غیرانسانی عمل کو جلد سے جلد روک تھام کیلئے موثر عملی کردارادا کر سکیں۔ اور مل کر انسانیت کا بول بالا کر سکیں۔ اس کے علاوہ ہم اپنے تحریک کے اگلے فیز میں اس بات پر سب سے زیادہ توجہ رکھیں گے کہ ہم بین القوام دنیا کو بلوچستان کے انسانی حقوق کے صور تحال اور بلوچ نسل کشی کے حوالے سے مسلسل آگاہ کرتے رہے۔ اور ہم اپنے تحریک کے اگلے فیز اس ریجن کے تمام محکوم اور مظلوم عوام کو متحرک کر کے اپنے ساتھ روابط اور اتحاد کو بڑھانے کے اقدامات کریں گے اور ہر جابر کے خلاف مشترکہ طور پر جد وجہد کریں گے۔ اسی تسلسل کو بر کرار رکھتے ہوئے 27 جنوری کو شال (کوئٹہ) میں ایک جلسے کا انعقاد کریں گے جس میں تمام مکتبہ فکر کے لوگوں کو شرکت کی التجا کرتے ہیں۔

اس کے ساتھ ہم ریاست کو بھی یہ پیغام دینا چاہتے ہیں کہ تمہارے تمام تر حربے، سازش اور پر تشد د اقدامات نے ہمارے حوصلے اور ہمت کو مزید منہ کیا ہے اور ہمارے تحریک کو ترقی دینے کا باعث بنا ہے اور اب تحریک اسلام آباد سے بہت کچھ سمیٹ کر واپس بلوچستان جارہا ہے اور ہم اسلام آباد کی تعلم کی ایک ایک داستان کو بلوچستان کے گھر گھر میں پہنچائیں گے اور عوامی طاقت و قوت سے بلوچستان سے آپ کی ظلم و جبر اور انتہائی غیر انسانی اقدامات کے خلاف ہمیشہ ڈٹ کر کھڑے رہیں گے ۔ ہم سمجھتے ہیں اس حالت میں اس تحریک کی اسلام آباد سے واپس بلوچستان جانا اس تحریک کو نئی قوت اور طاقت فراہم کرے گی۔

آخر میں ڈاکٹر ماہ رنگ نے پریس کانفرنس میں کہاکہ ہم ان سب کرداروں کا شکر یہ ادا کرتے ہیں جنہوں نے اس پوری تحریک میں ہمیں سپورٹ کیا، خاصکر اس خطے کے مظلوموں سے کہ وہ ہمارے ساتھ مستقل جڑنے کے راہ ہموار کرنے میں بھی اپناکردار ادا کریں۔ وہ چند اچھے انسان جن میں صحافی، وکلاء، اساتذہ، طلباء سیای اورانسانی حقوق کے کار کن اور شہری شامل ہیں ان کے ہم تہ دل سے مشکور ہیں۔ آپ لوگ تعداد میں چند تھے لیکن آپ لوگوں کی محبت ہمدردی اور جذبے نے لاکھوں کے برابر حوصلہ عطا کیا ہے۔ ہم آپ کے احترام ، محبت اور ہمدردی کو کبھی بھی نہیں بھولیں گے۔

پریس کانفرنس دوران ڈاکٹر ماہ رنگ کے ساتھ وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کے وائس چئیرمین ماما قدیر بلوچ اور لاپتہ افراد کے لواحقین بھی موجود تھے ۔

مدیر

نیوز ایڈیٹر زرمبش اردو

مدیر

نیوز ایڈیٹر زرمبش اردو

Next Post

خاران: الیکشن کمیشن دفتر پر دستی بم حملہ

منگل جنوری 23 , 2024
خاران میں بم دھماکہ

توجہ فرمائیں

زرمبش اردو

زرمبش آزادی کا راستہ

زرمبش اردو ، زرمبش براڈ کاسٹنگ کی طرف سے اردو زبان میں رپورٹس اور خبری شائع کرتا ہے۔ یہ خبریں تحریر، آڈیوز اور ویڈیوز کی شکل میں شائع کی جاتی ہیں۔

آسان مشاہدہ