شال جبری لاپتہ افراد کی بازیابی کیلئے قائم بھوک ہڑتالی کیمپ کو 5423 دن ہوگئے۔
اظہار یکجہتی کرنے والوں میں خضدار سے سیاسی اور سماجی کارکنان رجب علی بلوچ ، دین محمد بلوچ ، نیاز بلوچ و دیگر مکتبہ فکر کے لوگوں نے کیمپ آہ کر اظہار یکجہتی کی.
اس موقع پر ماما قدیر بلوچ نے کہا کے بلوچستان میں ضحاک نامی شخص کی حکومت ہے ضحاک نے چونکہ اقتدار کی خاطر اپنے بوڑھے و قریب المرگ بوڑھے باپ کو قتل کیا تھا ۔ اسلئے اپنے باپ کے کرسی پہ بیٹھتے ہی ضحاک کے دونوں بازوؤں سے دو سانپ نمودار ہوئے جس کو دیکھ کر ضحاک بہت پریشان ہوا تب اسے شیطان نے بزرگ کے روپ میں آہ کر کہا کے ان سانپوں کے غائب ہونے کا حل یہ ہے کے روزانہ دو انسانی دماغ کا گودا ان سانپوں کو کھلایا جائے تو ءمیہ سانپ تو یہ سانپ غائب ہو جائے گے ۔
بلوچستان میں بھی ہر روز کسی نا کسی مقام پر بلوچوں کا مسخ شدہ لاش ملنا معمولی بات بن گئی ہے ابتک قریبا 20 ہزار مسخ شدہ لاشیں ملی ہے ہمیں اس بات پہ اب شک نہیں یقین ہے کے یہ کام کسی ایجنٹ کا نہیں بلکے ضحاک اور اس کے خفیہ اداروں کا ایجنڈا ہے ، لیکن حکومت اور اس کے خفیہ اداروں کو پتہ ہونا چاہئے کے بلوچ عوام اب جھوٹے کہانیوں پہ یقین نہیں کرتا بس موت کا ایک خطرناک کھیل جاری ہے ۔
جس کا مقصد یہ یقین دلانا ہے کے موت ہی انصاف کی علامت ہے اسلئے سپریم کورٹ کے سوال پہ ان خفیہ اداروں کے ذمہوراروں نے کہا کے ہم اپنے ساتھیوں کے گلے کاٹنے والوں کو کیسے چھوڑ دیں دنیا کے تاریخ میں پہلی بار سپریم کورٹ کے سامنے کسی ادارے کے ذمہدار نے ایسا بیان دیا ہے جس پہ دنیا کو نا صرف حیران ہونا چاہئے بلکے اس کے خلاف سخت ایکشن لے اب یہ دنیا پہ منحصر ہے کے وہ اس پیدا ہونے والے غیر انسانی صورتحال پر کس قدر سنجیدگی کا مظاہرہ کرینگے۔