بلوچ انسانی حقوق کے سرگرم کارکن کامریڈ بیبو قمبرانی نے سرکاری ملازمت پر معطلی پہ سوشل میڈیا پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھا ہے کہ "بطورِ زندہ سماج کے زندہ شہری ہر انسان کا اس کے اپنے سماج یا قوم کیساتھ ایک مخصوص ناطہ جڑا ہوتا ہے اور اسی ناطے ہماری قومی سماجی زمہ داریاں بنتی ہیں جنہیں ہم اپنی بساط کے مطابق سرانجام دیتے ہیں۔ ذاتی یا انفرادی زندگی میں انسان کی عارضی ترجیحات ضرور ہوتی ہیں مگر ایک سیاسی کارکن کیلئے قومی زمہ داریاں سب سے بالا و مقدم ہوتی ہیں۔
انہوں نے لکھا ہے کہ "بطورِ ایک نوآبادی سماج کی باشندہ اور مقبوضہ دھرتی کی بیٹی کے میری اوّلین ترجیحات میں قومی زمہ داریاں شامل ہیں جبکہ ثانوی سطح پر میری ذاتی ضروریات آجاتی ہیں۔
قومی فرائض کے پیش نظر جب جب جہاں جہاں ضرورت محسوس ہوئی میں نے اپنی حاضری یقینی بنائی، چاہے لاپتہ افراد کا مسئلہ ہو، ماورائے عدالت قتل یا انسانی حقوق کی پامالی کا مسئلہ ہو ہم نے اپنا کردار ادا کرنے کی از خد کوشش کی ہے۔ قطع نظر اسکے کہ میرے عمل سے میری ذاتی ذندگی پر کوئی آنچ آ سکتی ہے یا خاندان کو نقصان پہنچ سکتا ہے، میرے والدین کی تربیت یہی رہی ہیکہ قوم و راج فرد یا ذات سے بالاتر و مقدم ہے اسلئے قومی فرض نبھاتے جانا اولین ترجیح رہی ہے۔
میری عارضی زندگی میں میری نوکری سے برطرفی کے سوال کو لیکر سوشل میڈیا پر آج بڑا چرچا ہو رہا ہے، عوامی حلقے میری جبری برطرفی پر غم و غصّے کا اظہار کررہے ہیں اور ہمدردی کا اظہار بھی کیا جا رہا ہے جس پر میں انکے مشکور ہوں۔ کاش، یہی ہمدردی میرے آفس کے ہمکار بلوچ ملازمین بھی دکھاتے تو نوبت یہاں تک نہ پہنچتی۔
انہوں نے مزید کہا ہے کہ بہرحال یہ بتاتی چلوں کہ مجھے یا میرے خاندان کو اس سے قبل بھی سنگین دھمکیاں کا سامنا رہا ہیں سیاسی عمل یا قومی فرض سے دستبرداری پر مجبور کرنے کی کوشش کی جاتی رہی ہے مگر ہم نے ان زیادتیوں کو ہمیشہ خندہ پیشانی سے قبول کیا۔ کیونکہ ہمارا خاندان کوئی پہلا خاندان نہیں ہے جنہیں قومی حق ادائی پر نقصان اٹھانا پڑا ہو، نہ ہم کوئی آخری خاندان ہیں جو ان حالات سے گزریں گی۔
آج ہزاروں فرزندانِ وطن زندانوں میں قید ہیں، یا ہزاروں کی مسخ شدہ لاشیں گرائی گئی ہیں، انہیں معاشی یا سماجی طور پر انہیں نقصان پہنچایا گیا ہے اسکی وجہ صرف اور صرف یہی رہا ہیکہ انہوں نے قومی حق ادائی پر دھرتی کا قرض اتارنے کی کوشش کی ہے۔ مجھ جیسے سیاسی کارکنوں کو بھی اسی آگ پر سے گزرنا ہے، ہمیں اگر دھرتی اس امتحان کیلئے چُنتی ہے تو یہ بہت بڑا احسان ہوگا۔
جب تک قوم غلام ہے، ظلم و جبر برقرار ہے، عدم مساوات و ناانصافی کا نظام رائج ہے تو مزاحمت برقرار رہیگی اور اسکے ساتھ زیادتیوں کا طوفان بھی برپا رہیگا۔ اسکا ادراک بلوچستان کا ہر فرزند رکھتا ہے اور شعوری طور پر جدوجہد عمل کا حصہ ہے۔
انھوں نے کہاہے کہ میں ملازمت یا ذاتی ضرورتوں پر قومی فرض کو ترجیح دہتے ہوئے برملا کہتی ہوں کہ جب تک ظالم جابر قابض اپنی روش نہیں بدلے گی، ہم اپنی مزاحمت سے دستبردار نہیں ہونگے۔ ہمیں کامل یقین ہیکہ اپنی دھرتی پر جیت ہماری ہوگی اور ظالموں کو شکست و ریخت کا منہ دیکھنا پڑے گا۔
واضح رہے کہ بیبو قمبرانی کو انکے انسانی حقوق کیلئے سرگرمیوں کی بنیاد پر سرکاری نوکری سے معطل کرنے کا نوٹیفکیشن جاری کردیا گیا ہے.