بانک کریمہ بلوچ، بی ایس او اور بلوچ خواتین

تحریر: دل مراد بلوچ

بانک کریمہ بلوچ کی پانچویں برسی ہے۔ پانچ سال بعد ہی سہی ان کی سیاست، تنظیم اور بلوچ سماج یا تحریک میں خواتین کے مقام و اہمیت پر تنقیدی نگاہ ڈالنا چاہئے، یہ موضوع میری علمی کم مائیگی اور محدود بصیرت کی وجہ سے کوسوں پرے ہے لیکن چند گزارشات رکھنے کی جسارت تو کرسکتا ہوں۔

اس موقع پر میں سمجھتا ہوں کہ بانک کریمہ بلوچ کی دیو قامت شخصیت کے باب میں بی ایس او اور بلوچ تحریک میں خواتین کے کردار پر بات برمحل اور ضروری ہے کیونکہ ان تینوں کو ایک دوسرے سے الگ نہیں کیا جاسکتا۔ اس باب میں دو المیوں سے ہم چاہ کر بھی دامن نہیں چھڑا سکتے۔ پہلی یہ کہ بی ایس او یا طلبا سیاست کو بلوچ سماج میں کس طرح برتا گیا یا برتا جارہا ہے اور دوسرا خواتین کا کردار۔

پہلا سوال خود بی ایس او سے ہے۔ بی ایس او کو جس سانچے میں ڈھالا گیا، اسے بھی بلوچ سیاست کے المیوں میں شمار کیا جاسکتا ہے۔ بلوچ سیاست میں جس انداز سے بی ایس او کی سیاست کو گلوریفائی کیا گیا اور کیا جا رہا ہے، اس کی مثال مشکل سے ملتی ہے۔ بی ایس او کو ایک طلبہ تنظیم کے بجائے ایک متھ Myth کی طرح برتا گیا ہے ـ کس ٹکڑی کا قبلہ کب اور کیسے بدلے، کچھ کہا نہیں جا سکتا۔

گزشتہ بیس برسوں میں جس بی ایس او آزاد کو ہم نے دیکھا ہے، اس نے تحریک کے ہر بڑے اسٹیک ہولڈر کا خیمہ جوائن کیا ہے۔ یہ روٹیشن اس وقت تک چلتی رہے گی جب تک ماس پارٹی اور طلبہ سیاست ایک ہی آئینی چھتری تلے کام نہیں کریں گے۔

متھ اداروں سے بالاتر ہوتا ہے، اس پر نہ تنقید کی جاسکتی ہے اور نہ ہی اس کے فکر و عمل پر سوال اٹھایا جاسکتا ہے۔ بی ایس او کو گلوریفائی کرکے اسے متھ بنا دیا گیا ہے جس کی وجہ سے وہ تنظیم کی سطح سے اوپر اٹھ کر ایک مقدس شے بن گئی۔ بی ایس او کی ہر تقسیم، صف بندی اور نظریاتی کمزوریوں کو قومی مجبوری کے نام پر جائز ٹھہرایا گیا۔ نتیجتاً تنظیم خود احتسابی کے بجائے تقدیس کے حصار میں چلی گئی۔

اگر وسیع تناظر میں دیکھا جائے تو ہماری طلبہ سیاست محض ایک تنظیمی تجربہ نہیں رہا بلکہ اس نے طویل عرصے تک ہماری مجموعی سیاسی نفسیات کی تشکیل میں مرکزی کردار ادا کیا ہے۔ یہ سیاست اکثر ایک عبوری مرحلہ بننے کے بجائے خود ایک مستقل ذہنی سانچہ بن گیا ـ جس کے اندر افراد کی سیاسی تربیت اور ترجیحات ڈھلتی چلی گئیں۔ اس فکری وراثت میں وقتی برتری، خیمہ آرائی اور اندرونی کشمکش کو اکثر نظریاتی استحکام اور ادارہ جاتی تسلسل پر فوقیت دی گئی۔ ایسے ماحول میں آنے والے افراد، چاہے ان کی نیت کتنی ہی شفاف اور ارادے کتنے ہی مخلص کیوں نہ ہوں، خود کو ایک ایسی اجتماعی ذہنیت کا حصہ پاتے ہیں جو انہیں مستقل مزاجی کے بجائے ردعمل، شکست و ریخت اور کھینچا تانی کی طرف دھکیلتی ہے۔ یوں یہ مسئلہ کسی ایک فرد یا ایک تنظیم تک محدود نہیں رہتا بلکہ ایک طویل سیاسی روایت کی صورت اختیار کر لیتا ہے، جس کے اثرات ہماری مجموعی سیاست کی ہیئت پر آج بھی محسوس کیے جا سکتے ہیں۔

طلبہ سیاست ایک عبوری مرحلہ ہوتا ہے۔ یہ پارٹی سیاست یا دوسرے لفظوں میں قومی سیاست کے لیے نرسری کا کام کرتا ہے۔ طلبہ اسی پلیٹ فارم سے تربیت حاصل کرکے پارٹی سیاست کا حصہ بنتے ہیں ـ بلوچ سیاست کا المیہ یہ ہے کہ بی ایس او کو ہمیشہ عبوری کے بجائے پارٹی سیاست کا عہدہ دیا گیا۔ اس کے نہایت ہی منفی اثرات مرتب ہوئے۔ بی ایس او کو قومی پارٹی سمجھنے کا نتیجہ یہ نکلا کہ ہماری قومی سیاست ہمیشہ عبوری مرحلے میں رہی۔ وہ کبھی بالغ ہی نہ ہوئی۔ نقصانات کو شمار کرنے میں کسی کو دلچسپی ہے نہ توفیق ـ اسی رویے کی وجہ سے مسلح جدوجہد کا پلڑا بھاری ہے اور وہ جمہوری محاذ کے ہر ممکن موقع کو ایکسپلائٹ کرنے سے نہیں ہچکچاتا۔ اس نے نہ صرف پارٹی سیاست کو کم زور کرکے قومی سیاست کے ارتقا کے عمل کو سست کیا بلکہ بساں اوقات اسے جامد بھی کردیا۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا ہم ادارہ جاتی ڈھانچے تشکیل دینے میں ناکام ہوگئے۔

بلوچ طلبہ سیاست بھی ہماری قومی سیاسی میراث کی اسی کوکھ سے جنم لیتی ہے جس میں پارٹی اور پارٹی استحکام کے مقابلے میں شکست و ریخت کو فوقیت حاصل رہی۔ جہاں نظریہ اور ادارہ جاتی تسلسل اکثر پس منظر میں دھکیل دیے جاتے ہیں اور خیمہ فتح کرنے کی خواہش کمان سنبھال لیتی ہے۔ اس فضا میں اختلاف فکر کا دروازہ کھولنے کے بجائے کھینچا تانی کو جنم دیتا ہے جو وقت کے ساتھ محض ایک رویہ نہیں بلکہ سیاسی مزاج بن جاتا ہے۔ یہی مزاج آج بھی مختلف صورتوں میں ہماری سیاست کی مجموعی ہیئت پر حاوی دکھائی دیتی ہے اور اگر ماضی کے اوراق پلٹے جائیں تو یہی رجحانات اس سے کہیں زیادہ سخت اور بے رحم صورتوں میں ابھرتے نظر آتے ہیں۔

بلوچ قوم اور سیکولرازم، بلوچ قوم اور خواتین کی برابری پر بہت کچھ لکھا اور بولا جاتا ہے، جب بھی بولا جاتا ہے تو فہرست گل بی بی سمیت چند ایک کلاسیک ناموں سے آگے بڑھ نہیں پاتی ہے ـ جب پوری نصف آبادی کی نمائندگی پر مبنی کرداروں کا شمار انگلیوں پر گنا جاسکے تو اس پر اترانے کی کوئی معقول وجہ نہیں بنتی ـ البتہ اپنے لیے طفل تسلی ہوسکتی ہے، اس سے زیادہ قطعی نہیں ـ بانک کریمہ بلوچ کی سیاست کی سب سے بڑی اہمیت یہ تھی کہ انہوں نے ہمارے سبالٹرن طبقات میں سے ایک طبقے یعنی عورت کو زبان دی ـ

گائتری چکرورتی اسپیواک ایک معروف بھارتی فلسفی، ادبی نقاد، مترجمہ اور پوسٹ کالونیل تھیورسٹ ہیں، جن کا نام خصوصاً سبالٹرن تھیوری کے ساتھ جڑا ہوا ہے ـ گائتری اسپیواک کے مطابق "سبالٹرن نہیں بول سکتے۔” سبالٹرن کو اول بولنے نہیں دیا جاتا یا سماج پر غالب طبقہ ان کی زبان کو ترجمہ کرکے ان کے خیالات، احساسات اور نظریات کو بے ضرر بنا دیتا ہے یا سرے سے ان کی آواز کو ہی غائب کردیتا ہے لیکن بانک کریمہ بلوچ نے فیصلہ کیا کہ سبالٹرن بول سکتے ہیں، کمان سنبھال سکتے ہیں ـ بانک کریمہ بلوچ نے خود آگے بڑھ کر تنظیمی، نظریاتی اور سماجی سطح پر عورت کو مفعول سے خودمختار فاعل بنادیا ـ جس بانک کریمہ کو میں جانتا ہوں وہ مفعول بننے کے لیے قطعی راضی نہ تھی ـ شاید یہی دلیری تھی کہ کریمہ بلوچ نے نسائی سوال کو بلوچ قومی سوال کا حصہ بنا دیا۔ یہ عمل مردانہ بالادستی پر قائم بلوچ قومی سیاست کے لیے چیلنج بھی تھا اور امکانات سے لبریز بھی

یہ بھی ہمارے سیاسی المیوں میں شمار کیا جائے کہ بانک کریمہ بلوچ کو جلاوطن ہونا پڑا ـ یہ فیصلہ کس نے کیا، کون اس کے پیچھے تھا، بانک کا فیصلہ تھا، تنظیم کا فیصلہ تھا، محرک کچھ بھی ہوں، اس سے بلوچ تحریک کو زیادہ فائدہ نہ ملا۔ ہمیں اس پر ضرور سوچنا چاہئے کہ جلاوطنی محض جغرافیائی بے دخلی نہیں ہوتی۔ یہ سیاسی تنہائی اور عدم تحفظ کو بھی جنم دیتی ہے۔ اگر ہم تجزیہ کریں تو بانک کریمہ بلوچ کی شہادت میں بھی اس عنصر کو کسی نہ کسی سطح پر پاسکتے ہیں لیکن ہمیں اس امر سے سروکار نہیں، ہمارا اجتماعی کام گویا بس گلوریفائی کرنا رہ گیا ہے۔ کم زور ادارہ جاتی ڈھانچے اور نفسیاتی لحاظ سے نابالغ سیاسی سوچ کی وجہ سے ہم اپنی قومی ذمہ داریوں سے غافل رہے ہیں۔ یقیناً ریاست کا بھی کردار ہے مگر ریاست کے ساتھ ساتھ ہماری تنظیمی کم زوریوں اور اجتماعی لاابالی پن نے بھی ایک عظیم رہنما کو ہم سے چھین لیا۔ ہمیں خوداحتسابی پر عمل کرکے بانک کریمہ بلوچ کی شہادت کو گلوریفائی کرنے کی بجائے اس نکتے پر سوچ بچار کرنا چاہیے کہ ہم سے کہاں غلطی ہوئی اور کیا ہم اب بھی انہی غلطیوں کو نہیں دہرا رہے؟ یاد رہے خوداحتسابی سے خود کو ماورا سمجھنا بھی ایک جرم ہے۔

بانک کریمہ ایک بڑے کردار اور عملی بلوچ رہنما تھیں، مگر میرا ماننا ہے کہ انہیں سیاست کرنے کا پورا موقع ہی نہ مل سکا۔ اسٹوڈنٹس سیاست کو اگر کوئی بڑے دل گردے کے مالک قومی یا پارٹی سیاست کا متبادل سمجھتا ہے تو سمجھ لے مگر میں بوجوہ اس سے متفق نہیں۔ اگر انہیں سیاست کا موقع ملتا تو وہ متذکرہ بالا رویوں کے خلاف مزید تندہی سے مزاحمت کرتیں۔

افسوس صد افسوس! بانک کو پارٹی یا قومی سیاست کا موقع ہی نہ ملا اور ہم نے انہیں چین سے طلبہ سیاست کرنے ہی نہ دیا ـ اس پاک روح کو داغدار کرنے کی کوشش کی گئی، کجا کہ ہم انہیں کریڈٹ دیتے کہ ان کی جرات مندانہ سیاست نے بلوچ خواتین کے لیے سیاست کے دروازے کھول دیئے، بادشاہوں اور ان کے چیلوں نے ان کے خلاف وسیع پیمانے پر سائبر وار شروع کرکے پر زمین تنگ کردی، تنقید کے نام پر وہ غلاظت بکھیری گئی جس کی مثال ہمیں صرف پاکستانی سیاست میں متحرمہ بینظر بھٹو کے خلاف نواز شریف کے خاندان کی کریہہ کردار میں صورت میں نظر آتی ہے اور بس، یہ کردار کشی محض سیاسی اختلاف نہیں تھی بلکہ ایک گہری مردانہ بالادستی (Male Chauvinism) کا اظہار بھی تھی، جہاں ایک عورت کی جرات مندانہ، خودمختار سیاست کو برداشت کرنے کے بجائے اسے مشکوک بنانے، اس کی نیت اور کردار پر حملہ کرنے کو آسان راستہ سمجھا گیا۔ یہ وہی پدرسری رویہ تھا جس پر بلوچ سماج بظاہر تنقید کرتا ہے مگر عملی سیاست میں خود اسی کو دہرا دیتا ہے۔

بانک کشادہ دل مکران کے بیکران ہستی تھیں، جنہیں کوہ سلیمان سے لے کر تفتان و ساحل بلوچ تک ایک قومی علامت کے طور پر ابھر کر آگے بڑھنا تھا مگر۔۔۔۔بانک کریمہ بلوچ صرف ایک عورت نہیں، فرد نہیں ایک سیاسی امکان تھیں۔ امکانات قاتل کے ہاتھوں نہیں مرتے، وہ تب مرتے ہیں جب سماج انہیں پہچاننے، سنبھالنے اور آگے بڑھانے سے قاصر رہے۔ اصل سوال یہ نہیں کہ بانک کریمہ بلوچ کو کس نے مارا، بلکہ یہ ہے کہ ہم نے ان کے زندہ رہتے ہوئے انہیں کس حد تک سیاست کرنے دی، سنا اور قبول کیا۔ ان کی شہادت کے بعد ان کے سیاسی ورثے کے ساتھ ہم نے کیا کیا؟ یہی سوالات ہماری اجتماعی سیاست کا سب سے سخت احتساب بھی ہے۔

شومئی قسمت کہ ہم نے کریمہ جیسی ایک امکان اور دیو ہیکل علامت کو کینڈا کے برفانی جھیل میں ہمیشہ کے لیے منجمد پایا لیکن کریمہ برف نہیں ہمیشہ منجمد رہے وہ ایک پاک روح تھیں، وہ زمان و مکان کے حدود و قیود سے ماورا ہوکر بلوچ روح سے لے کر فضاؤں تک، ہمیشہ ہماری رہنمائی کے لیے موجود ہیں۔

یہ تحریر زرمبش پبلیکیشنز کی جانب سے شائع ہونے والی اس کتاب سے ماخوذ ہے جو بانک کریمہ بلوچ کی زندگی اور جدوجہد پر مبنی ہے۔ اس تحریر کو اب زرمبش اردو کے پلیٹ فارم کے ذریعے قارئین کے لیے شائع کیا جا رہا ہے۔

بانک کریمہ بلوچ سے متعلق مکمل کتاب درج ذیل لنک پر دستیاب ہے:
https://t.me/zrumbeshpub/54

مدیر

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Next Post

کوئٹہ: معروف انسانی حقوق کے رہنما ماما قدیر بلوچ انتقال کر گئے

ہفتہ دسمبر 20 , 2025
وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز (VBMP) کے وائس چیئرمین اور معروف انسانی حقوق کے رہنما ماما قدیر بلوچ طویل علالت کے بعد انتقال کر گئے۔ ان کی وفات کی تصدیق وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کے آفیشل چینل کی جانب سے جاری بیان میں کی گئی۔ بیان کے مطابق ماما […]

توجہ فرمائیں

زرمبش اردو

زرمبش آزادی کا راستہ

زرمبش اردو ، زرمبش براڈ کاسٹنگ کی طرف سے اردو زبان میں رپورٹس اور خبری شائع کرتا ہے۔ یہ خبریں تحریر، آڈیوز اور ویڈیوز کی شکل میں شائع کی جاتی ہیں۔

آسان مشاہدہ