
تحریر : رامین بلوچ
کولاچی کی وہ ملاقات آج بھی ذہن کے نہاں خانے میں تازہ ہے۔ جب میں سنگر کے لیے لکھا کرتا تھا اور اس کا مستقل قاری بھی تھا، تو ہر نئے شمارے کا بےچینی سے انتظار رہتا۔ انہی دنوں میری ملاقات شوکت بلیدی سے ہوئی ایک ایسی ملاقات جو محض تعارفی نہیں، بلکہ فکری اور روحانی رفاقت کی بنیاد بنی۔اگرچہ ریاستی جبر کے بہاؤ نے رابطوں میں رکاوٹیں پیدا کر دیں اور ہمارے درمیان طویل فاصلے حائل ہو گئے، مگر ذہنی و فکری سطح پر شوکت بلیدی ہمیشہ میرے قریب رہے۔ وہ میرا سنگت بھی تھا اور میرا رفیقِ راہ بھی۔جب شوکت بلیدی نے "سنگر پبلی کیشن” کی بنیاد رکھی، تو یہ محض ایک اشاعتی ادارہ نہیں تھا بلکہ بلوچ فکری مزاحمت کا ایک نیا باب تھا۔ انہوں نے سنگر میگزین کو جس خلوص، محنت اور نظریاتی وابستگی کے ساتھ جاری رکھا، اس نے جلد ہی اسے بلوچ پرنٹ میڈیا کا بنیادی ستون بنا دیا۔
بلوچ صحافت کی تاریخ میں اگر کسی ادارے نے مزاحمت، فکری پختگی اور صحافتی استقامت کو ایک لڑی میں پرویا ہے تو وہ ادارہ "سنگر” ہے۔یہ محض ایک اشاعتی ادارہ نہیں بلکہ فکر، شعور اور اجتماعی مزاحمت کی علامت بن چکا ہے۔
سنگر کا سفر کتاب کی سیاہی سے لے کر ڈیجیٹل اسکرین کی روشنی تک، تخلیقی اور فکری ارتقا کی ایک داستان ہے—ایسا سفر جو صرف وقت کے بہاؤ کا نہیں بلکہ تحریکِ شعور کے تسلسل کا مظہر ہے۔2009ء میں جب سنگر نے کتابی اشاعت سے اپنی بنیاد رکھی، اس وقت بلوچ خطے میں فکری و ادبی سرگرمیوں کا دائرہ محدود ضرور تھا، مگر عزم و یقین سے معمور تھا۔ دوسری جانب ریاستی جبر، میڈیا سنسرشپ اور نوآبادیاتی بیانیے نے بلوچ قومی مسئلے کو مسلسل دباؤ میں رکھا ہوا تھا۔سنگر نے اسی پس منظر میں اپنی راہ متعین کی۔ 2012ء میں ماہنامہ سنگر میگزین کا اجرا ہوا، اور یہ لمحہ بلوچ صحافتی تاریخ میں ایک نئے دور کے آغاز کا سنگِ میل ثابت ہوا۔جہاں دیگر اخبارات ریاستی پالیسیوں اور محض چند سینٹی میٹر اشتہارات کے تابع تھے، وہیں سنگر نے ایک متبادل بیانیہ تخلیق کیا،ایسا بیانیہ جو فکری، مزاحمتی اور قومی شعور کا آئینہ دار تھا۔سنگر میگزین نے اُن موضوعات کو صفحۂ اوّل پر جگہ دی جنہیں پاکستانی مین اسٹریم میڈیا دانستہ طور پر نظرانداز کرتا رہا۔ چاہے وہ جبری گمشدگیوں کا المیہ ہو، بلوچ وسائل کی لوٹ مار، بلوچ وطن پر ریاستی قبضے کا مسئلہ، بلوچستان میں انسانی حقوق کی پامالیاں ہوں یا بلوچ نسل کشی پر مبنی ریاستی جنگی جرائم ،سنگر نے اپنے صفحات پر ان تمام حقائق کو بے نقاب کیا۔اس نے صحافت کو ریاستی مفادات کے تابع کرنے کے بجائے اسے ایمانداری، جرات اور سچائی کی بنیاد پر استوار کیا، چاہے اس کی قیمت دباؤ، دھمکی یا پابندیوں کی صورت میں ہی کیوں نہ چکانی پڑی۔
سنگر کا اندازِ تحریر محض رپورٹنگ تک محدود نہیں رہا بلکہ یہ ادارہ درحقیقت بیانیہ سازی کا منبع رہا ہے۔ سنگر نے خبر کو صرف ایک خبر کے طور پر پیش نہیں کیا، بلکہ اپنی صفحات پر بلوچ تاریخ، جدوجہد اور مزاحمت کو گویا ایک فکری پینٹنگ کے روپ میں اُبھارا۔اس کے مضامین میں ایک ایسا فکری توازن پایا جاتا تھا جہاں تحقیق، تنقید اور تجزیہ—تینوں عناصر ایک صحافتی آہنگ میں گُندھے ہوئے نظر آتے۔ یہ وہ زمانہ تھا جب بلوچ مین اسٹریم میڈیا میں ایک واضح فکری خلا محسوس کیا جاتا تھا۔ سنگر نے اس خلا کو پُر کرنے کا جو بیباک اور بامقصد آغاز کیا، وہ بلوچ صحافت کی تاریخ میں ایک تاریخی سنگِ میل کی حیثیت رکھتا ہے۔
سنگر نے ثابت کیا کہ محدود وسائل، مسلسل خطرات، اور شدید دباؤ کے باوجود نظریاتی صحافت ممکن ہے۔ جہاں بلوچ صحافیوں کو خاموش کرایا جا رہا تھا، وہاں سنگر نے لفظ کی مزاحمت کو زندہ رکھا۔اس نے بلوچ صحافت کو ایک نیا فکری رخ عطا کیا جو محض سیاسی بیانیے سے آگے بڑھ کر علمی مکالمے اور فکری تجزیے کو جنم دیتا ہے۔ایک وقت وہ بھی آیا جب سنگر نے خود کو بدلتے ہوئے تقاضوں سے ہم آہنگ کر لیا۔ ہارڈ کاپی سے ڈیجیٹل میڈیا کی طرف منتقلی محض ایک تکنیکی پیش رفت نہیں تھی، بلکہ وقت کے دھارے کے ساتھ فکری ہم آہنگی کا اظہار تھی۔ آج سنگر کا مواد سوشل میڈیا، ویب سائٹس، اور مختلف آن لائن پلیٹ فارمز پر دستیاب ہے۔اپنے سولہ سالہ سفر میں سنگر نے جس تسلسل، استقامت اور خلوص کا مظاہرہ کیا ہے، وہ بلوچ صحافت کی تاریخ میں کم ہی دیکھنے کو ملتا ہے۔ ایسے ادوار میں جب بہت سے ادارے دباؤ یا وسائل کی کمی کے باعث تحلیل ہو گئے، سنگر نے اپنی فکری اساس کو مضبوطی سے قائم رکھا۔اگر بلوچ صحافت کا کوئی ایسا چہرہ ہے جس نے مزاحمت کو قلم کی طاقت سے جِلا بخشی، تو وہ چہرہ یقیناً سنگر ہے۔
شوکت بلیدی نے سنگر پبلی کیشن کے زیرِ اہتمام درجنوں کتابیں شائع کیں وہ کتابیں جو محض کاغذ پر چھپے الفاظ نہیں تھیں، بلکہ بلوچ مزاحمتی تاریخ کے جیتے جاگتے اوراق تھیں۔ ہر اشاعت ان کے عزم، بصیرت اور قومی وابستگی کی زندہ گواہ تھی۔شوکت بلیدی نے بلوچ صحافت کو صرف ایک پیشہ نہیں، بلکہ ایک فکری فریضہ بنایا۔ ان کی تحریری میراث آنے والی نسلوں کے لیے روشنی کا وہ مینار ہے جو مزاحمت اور آزادی کے راستے کو ہمیشہ منور کرتا رہے گا۔
کراچی کی اس شام کی وہ ملاقات آج بھی ذہن کے نہاں خانے میں تازہ ہے۔ وہ سنگر میگزین کا اداریہ لکھنے میں مصروف تھا۔ مجھے یاد نہیں کہ وہ کون سا شمارہ تھا، مگر وہ لمحہ آج بھی واضح اور روشن ہے۔ گفتگو کے دوران وہ اچانک رُکا، میری طرف دیکھا اور مسکراتے ہوئے بولا:
"سنگت، میں نے موت سے نہیں، خاموشی سے ڈرنا سیکھا ہے، کیونکہ خاموشی ہی جبر کا پہلا ساتھی بنتی ہے۔”
وہ باتوں باتوں میں کہہ رہا تھا کہ جبر ہمیشہ اُس لمحے سے طاقتور ہو جاتا ہے، جب لوگ بولنا چھوڑ دیتے ہیں۔ خاموشی دراصل ظلم کی بقا کا ایندھن ہے۔ اس لیے بولنا، لکھنا اور سوال کرنا ہی قومی بقا کا حقیقی عمل ہے۔
پھر کچھ دیر خاموش رہ کر اُس نے آہستگی سے کہا:
"سنگت، موت انسان سے زندگی چھین لیتی ہے، مگر خاموشی انسان کے اندر کی سچائی، اس کی آواز اور اس کے ہونے کی معنویت چھین لیتی ہے۔ جو قوم خاموش ہو جائے، وہ زندہ رہ کر بھی مر جاتی ہے۔”یہ الفاظ محض ایک گفتگو کا حصہ نہیں تھے، بلکہ اُس شخص کے فکری اثاثے کا خلاصہ تھے، جس نے اپنی پوری زندگی سچ لکھنے، سچ بولنے، اور سچ کے ساتھ کھڑے رہنے میں گزاری۔
گزشتہ دنوں شوکت بلیدی جیسے اکیڈمک، فکری اور قلمی جہدکار کی وفات کی خبر نے جہاں بلوچ سیاسی، مزاحمتی اور ادبی حلقوں کو گہرے صدمے سے دوچار کیا، وہیں مجھے بھی ذاتی طور پر ایک گہرے اور دلی دکھ سے گزرنا پڑا۔
شوکت جان اُن کم یاب شخصیات میں سے ایک تھا جو لفظ کو مزاحمت کا ہتھیار اور تحریر کو شعور کی مشعل بناتے ہیں۔ ایسے لوگ جب رخصت ہوتے ہیں تو ان کی موت محض حیاتیاتی نہیں ہوتی، بلکہ وہ اپنے ساتھ ایک عہد کا فکری باب بھی بند کر جاتے ہیں۔شوکت بلیدی نے بلوچ تاریخ کے ادبی و سیاسی مزاحمتی منظرنامے میں وہ مقام حاصل کیا جو صرف قلم سے نہیں بلکہ کردار سے تعبیر پاتا ہے۔ اُس نے لفظ اور عمل کے درمیان موجود فاصلے کو مٹا دیا اور یہ ثابت کیا کہ جب تحریر عزم اور کمٹمنٹ سے جڑ جائے تو وہ خود ایک عملِ مزاحمت بن جاتی ہے۔آج جب وہ ہمارے درمیان موجود نہیں، تو اس کی کمی محض ایک فرد کی نہیں بلکہ ایک عہدِ صداقت کی کمی محسوس ہوتی ہے۔ مگر سچ یہ ہے کہ ایسے لوگ دراصل مرتے نہیںوہ اپنے نظریات، اپنی تحریروں اور اپنے موقف کی صورت میں ہمیشہ زندہ رہتے ہیں۔
ادب اور صحافت جب کسی مقبوضہ قوم کی تاریخ کے ساتھ جُڑ جاتے ہیں تو وہ محض اظہار یا اطلاع کے ذرائع نہیں رہتے، بلکہ مزاحمت کے ہتھیار بن جاتے ہیں۔ شوکت بلیدی انہی چند نادر شخصیات میں سے ایک تھا، جس نے قلم کو محض پیشہ نہیں بلکہ جدوجہدِ آزادی کا فکری ہتھیار بنایا۔
سنگر پبلی کیشن محض ایک اشاعتی ادارہ نہیں بلکہ ایک فکری مورچہ تھا — جہاں سے شعور، آگہی اور آزادی کی آواز قرطاس و قلم کے ذریعے محفوظ ہو جاتی تھی۔شوکت جان جب اداریہ لکھنے بیٹھتا، تو وہ روایتی صحافتی انداز میں نہیں لکھتا تھا۔ اُس کا ہر لفظ جدوجہدِ آزادی کا استعارہ بن جاتا۔ اُس کے قلم سے سیاہی نہیں، بلکہ مزاحمت ٹپکتی تھی۔ ہر اداریہ، ہر مضمون، اور ہر جملہ اُس کی فکری وابستگی اور سیاسی عزم کی گواہی دیتا تھا۔وہ جب لکھتا تھا، تو گویا صفحات پر بلوچ تاریخ اُتارتا تھا۔ وہ جانتا تھا کہ غلام سماج میں لکھنا محض ادبی مشق نہیں، بلکہ ایک پُرخطر سیاسی عمل ہے—جو استبداد کے خلاف اعلانِ مزاحمت بن جاتا ہے۔سنگر پبلی کیشن کے زیرِ سایہ شوکت بلیدی نے ایک ایسا فکری دائرہ تشکیل دیا جو بلوچ سماج کے سیاسی شعور اور ادبی بیداری کا مرکز بن گیا۔ اس ادارے نے محض کتابیں شائع نہیں کیں، بلکہ وہ فکری بیج بوئے جن سے آنے والی نسلوں میں آزادی، شناخت اور مزاحمت کے درخت پھوٹے۔
شوکت بلیدی نے سنگر کو ایک ایسی پناہ گاہ میں تبدیل کر دیا جہاں قلم بلوچ قوم کی آزادی کا ترجمان بن گیا۔ اُس کے نزدیک ادب اور سیاست ایک دوسرے سے جدا نہیں تھے۔ اُس کا یقین تھا کہ ادب اگر سیاست سے لاتعلق ہو جائے تو وہ محض تفریح بن جاتا ہے، اور سیاست اگر ادب کی بصیرت سے خالی ہو تو وہ ظلم کا آلہ کار بن جاتی ہے۔شوکت بلیدی نے لفظ کو صرف اظہار کا وسیلہ نہیں بلکہ مزاحمت کا ہتھیار بنایا۔ اُس کے لیے لکھنا، عملِ تخلیق سے بڑھ کر عملِ مزاحمت تھا۔ اُس نے جھوٹے بیانیوں، مسلط کردہ سامراجی تاریخ اور استحصالی ریاستی ڈھانچوں کے خلاف ایک طویل فکری جنگ لڑی۔شوکت بلیدی اب جسمانی طور پر ہمارے درمیان موجود نہیں، مگر اُس کی تحریریں آج بھی زندہ ہیں۔ اُس کے اداریے اب بھی سوال اٹھاتے ہیں، اُس کے جملے آج بھی غلامی کے سینے پر پتھر کی طرح گرتے ہیں۔ اُس کی زندگی اور جدوجہد اس بات کی روشن مثال ہیں کہ مزاحمت صرف محاذوں پر نہیں لڑی جاتی، بلکہ قلم، کاغذ اور اشاعت کے اداروں کے ذریعے بھی ممکن ہے۔
2010 میں بلوچ نیشنل موومنٹ (بی این ایم) کے جاہو کونسل سیشن میں شوکت بلیدی کا مرکزی کمیٹی کے رکن کے طور پر انتخاب محض ایک رسمی یا تنظیمی تقرری نہیں تھا، بلکہ یہ ایک ایسے شخص کی فکری عظمت، سیاسی بصیرت، نظریاتی پختگی اور عملی دیانت کا اجتماعی اعتراف تھا، جس نے اپنی تحریر، جدوجہد اور عزم کے ذریعے بلوچ قومی شعور کو ایک فکری سمت دی۔یہ انتخاب دراصل اس بات کی گواہی تھا کہ شوکت بلیدی صرف ایک کارکن نہیں بلکہ ایک نظریاتی معمار تھا — جو سیاست کو فکری تسلسل اور قومی ذمہ داری کے طور پر دیکھتا تھا۔ جاہو کا وہ سیشن بلوچ قومی سیاست کے لیے ایک سنگِ میل ثابت ہوا، جہاں تنظیم نے محض نمائندوں کا انتخاب نہیں کیا بلکہ اُن کرداروں کو پہچانا جو فکر، عمل اور ایمان کے سنگم پر کھڑے تھے۔شوکت بلیدی کی شمولیت نے بی این ایم کی فکری سمت میں ایک تازہ ہوا کا جھونکا پیدا کیا۔ اُس کے آنے سے تنظیم میں علمی، فکری اور تحریری رجحانات نے ایک نیا رُخ اختیار کیا۔ اس انتخاب کے پس منظر میں شوکت بلیدی کی وہ برسوں پر محیط فکری تربیت، تحریری مشق اور سیاسی تجربہ شامل تھا، جس نے اُسے محض ایک نظریاتی ساتھی نہیں بلکہ ایک فکری رہنما بنا دیا۔
بی این ایم کا پلیٹ فارم اُس کے لیے بلوچ قوم کی فکری تعمیر کا ایک اکیڈمک اور تحریری محاذ بن گیا جہاں اُس نے اپنی دانش، بصیرت اور قلم کے ذریعے آزادی کی فکر کو نئی معنویت عطا کی۔
جلاوطنی اور بیماری کے ایام میں بھی اُس نے اپنی وابستگی کو کمزور نہیں ہونے دیا۔ وطن سے دوری، رفیقوں کی جدائی اور اجنبیت کی اذیت کے باوجود اُس کے عزم میں کوئی لرزش نہیں آئی۔ وہ مانتا تھا کہ جلاوطنی محض جغرافیائی فاصلے کا نام نہیں، بلکہ شعور کی آگ کو مزید تیز کرنے کا ایک عمل ہے۔بیماری کے باوجود وہ لکھتا رہا، مباحث میں حصہ لیتا رہا، اور نوجوانوں کو فکری سمت دیتا رہا۔ اُس کے لیے زندگی کی اصل معنویت اپنے نظریے سے وفادار رہنے میں تھی۔ اُس کا یقین تھا کہ انسان کی اصل صحت اُس کے ایمان اور عزم میں پوشیدہ ہے، جسم کی کمزوری اُسے شکست نہیں دے سکتی جب فکر زندہ اور راست ہو۔
جلاوطنی اپنی وطن سے دوسرے کے دیس مین ایک ایسا مرحلہ ہے جہاں انسان کے یقین، ارادے اور شعور کی گہرائیوں کا اندازہ ہوتا ہے۔ شوکت بلیدی جیسے فکری جہدکار کے لیے جلاوطنی شکست نہیں، بلکہ تخلیقِ نو کا موقع تھی۔ وطن سے دوری نے اس کے قلم کو خاموش نہیں کیا، بلکہ اسے مزید تیز، بلیغ اور بااثر بنا دیا۔ جب وہ بیماری کے بستر پر تھا، تو اس کے فکر کی شعلہ بجھی نہیں؛ وہ تحریر کے ذریعے اپنی فکری جنگ جاری رکھے ہوئے تھا۔ جسمانی کمزوری کے باوجود اس کی روح میں جو توانائی تھی، وہ بلوچ قوم کی تیسری نسل کے لیے ایک مشعلِ راہ بن گئی۔ وہ اپنی عمل سے ثابت کردیا نظریہ اگر روح میں بس جائے تو بیماری، تنہائی، اور جلاوطنی بھی اس کو شکست نہیں دے سکتیں۔ شوکت بلیدی نے اپنی جلاوطنی کو مزاحت میں بدلا، اپنی بیماری کو تخلیقی توانائی میں ڈھالا۔ اس کے لیے لکھنا محض ایک عمل نہیں، بلکہ ایک عبادت تھی سنگر کا ہر دیباچہ اور تمہید یہ ثابت کرچکا تھا کہ انسان کا اصل وطن اس کا نظریہ ہے، اور جو اپنے نظریے سے وفادار رہتا ہے، وہ کہیں بھی اجنبی نہیں ہوتا۔
اُس کی موت بلاشبہ ایک اجتماعی قومی سانحہ ہے، مگر ایسے لوگ کبھی واقعی رخصت نہیں ہوتے؛ وہ اپنے جسم سے جدا ہو کر بھی اپنی تحریروں، خیالات اور یادوں میں زندہ رہتے ہیں۔ شوکت بلیدی بھی اُنہی جاوداں روحوں میں سے تھا جن کے جانے سے وقت جیسے ٹھہر سا جاتا ہے، مگر اُن کے افکار زمانے کے ہر موڑ پر گونجتے رہتے ہیں۔آج جب ہم اُس کے فراق میں سوگوار ہیں تو دراصل ہم اپنے عہد کے ایک دیانتدار گواہ، ایک فکری محافظ، اور ایک مزاحمتی دانشور کو کھو بیٹھے ہیں۔ تاہم اُس کی یاد ہمیں یہ یقین دلاتی ہے کہ فکر کی موت ممکن نہیں، نظریہ مٹایا نہیں جا سکتا، اور سچائی ہمیشہ کسی نہ کسی لفظ میں سانس لیتی رہتی ہے۔
یہ ایک مستند سچ ہے کہ موت محض ایک حیاتیاتی انجام نہیں، بلکہ ایک فکری امتحان بھی ہے ۔یہ دیکھنے کا امتحان کہ آیا انسان اپنی زندگی میں ایسا چراغ روشن کر گیا ہے جو اُس کے بعد بھی اندھیروں میں روشنی بانٹتا رہے۔ شوکت بلیدی اُنہی نادر انسانوں میں سے تھا جن کی رخصتی ایک خاموش سانحہ نہیں، بلکہ ایک اجتماعی خلاء بن جاتی ہے۔ اُس نے اپنی زندگی کو ایک عہد بنا دیا تھا: سچ کہنا، چاہے اس کی قیمت کتنی ہی بڑی کیوں نہ ہو۔ یہی وصف اُسے محض ایک صحافی یا لکھاری نہیں، بلکہ ایک فکری محافظ بناتا تھا۔شوکت بلیدی کی موجودگی علم و شعور کی دنیا میں ایک مسلسل مکالمہ تھی۔ وہ صرف لکھتا نہیں تھا، بلکہ سوال اٹھاتا، دلیل دیتا، اور نوجوان نسل کے ذہنوں میں فکر کی چنگاری بھڑکاتا تھا۔ اُس کی فکر میں مزاحمت ضرور تھی، مگر اس مزاحمت میں اخلاقی بلندی، علمی ٹھہراؤ، اور فکری شفافیت بھی نمایاں تھی۔ یہی وجہ ہے کہ اُس کے الفاظ وقتی احتجاج نہیں بلکہ تاریخی گواہی بن گئے۔آج جب ہم اُس کے نہ ہونے کے احساس سے دوچار ہیں، تو دراصل ہم اس حقیقت کا سامنا کر رہے ہیں کہ جسم فنا ہو جاتا ہے مگر فکر باقی رہتی ہے۔ شوکت بلیدی رخصت ہو گیا، مگر اُس کے لفظ اب بھی زندہ ہیں؛ اُس کے نظریے کی روشنی اب بھی ہمارے فکری آسمان پر جگمگا رہی ہے۔ وہ ہمیں یہ سکھا گیا کہ مزاحمت کی اصل بنیاد ایمان ہے — ایمان سچ پر، ایمان آزادی پر، اور ایمان انسان کے وقار پر۔ یہی ایمان انسان کو جاوداں بناتا ہے، اور یہی ایمان شوکت بلیدی کو اُن زندہ ناموں میں شامل کرتا ہے جو کبھی مٹتے نہیں۔
شوکت بلیدی جہاں بھی رہا — چاہے کولاچی کی خاموش گلیوں میں، بلیدہ کے ویران راستوں پر، یا جلاوطنی کے تنہائی بھرے کمروں میں — اس کے قلم نے بلوچ تقدیر کا حرفِ اول لکھا۔ وہ محض لکھاری نہیں تھا، وہ ایک فکری معمار تھا جو ہر لفظ کے ساتھ اپنی قوم کے زخموں پر مرہم رکھتا اور ہر جملے میں آزادی کی دھڑکن بُنتا۔ جلاوطنی نے اگر اس کے جسم کو دیس سے جدا کیا، تو اس کی روح نے سرزمینِ بلوچستان کو پہلے سے بھی زیادہ گہرے شعور سے محسوس کیا۔ اس کے لیے جلاوطنی تنہائی نہیں بلکہ تخلیقی بیداری کا لمحہ تھیجہاں فکر خاموشی سے روشنی میں بدلتی ہے۔شوکت بلیدی کے نزدیک تحریر محض بیان کا وسیلہ نہیں بلکہ وجود کی توثیق تھی۔ وہ مانتا تھا کہ اگر موقف سچ پر قائم ہو، تو وہ نہ صرف وقت کو شکست دیتا ہے بلکہ موت کو بھی بےاثر بنا دیتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ شوکت بلیدی کی تحریریں آج بھی زندہ ہیں، جیسے وہ خود ان لفظوں میں سانس لے رہا ہو۔اس نے اپنے قلم سے ایک ایسا فکری قلعہ تعمیر کیا جسے جبر کی آندھیاں بھی مسمار نہیں کر سکیں۔ شوکت بلیدی کی فکری میراث ہمیں یہ سبق دیتی ہے کہ سچائی کا موقف اگر دلیل، علم اور ایمان کے ساتھ ہو تو وہ تاریخ کے سب سے اندھیرے ادوار میں بھی چراغ بن کر جلتا ہے۔ وہ ہمیں یاد دلاتا ہے کہ جلاوطنی، قید یا موت — یہ سب عارضی مظاہر ہیں؛ اصل طاقت وہ فکر ہے جو ظلم کے خلاف ڈٹ جائے اور اپنی سرزمین کے لیے لکھنے کو عبادت سمجھ لے۔آج جب ہم شوکت بلیدی کو یاد کرتے ہیں، تو دراصل ہم اس فکری روایت کو خراجِ تحسین پیش کرتے ہیں جو لفظ کو مزاحمت کا ہتھیار اور تحریر کو آزادی کی سانس بناتی ہے۔
4 اکتوبر 2025 کو بظاہر جگر کی بیماری کے باعث شوکت بلیدی کی موت کی خبر محض ایک خبر نہیں تھی، بلکہ ایک عہد کے خاتمے کی صدا تھی۔ یہ رخصتی ان گنت دلوں میں ایک ایسا خلا چھوڑ گئی جسے محض یادوں سے پُر نہیں کیا جا سکتا۔ مگر سوال اب بھی زندہ ہے — کیا یہ موت قدرتی تھی یا اُس خاموش جنگ کا تسلسل جس کا وہ تمام عمر حصہ رہے؟ بلوچ نیشنل موومنٹ کے بیانیے میں جن حملوں اور زہریلے سازشوں کا ذکر ہے، وہ محض الزامات نہیں بلکہ ایک تاریخی تناظر کا تسلسل ہیں، جہاں ریاستی جبر اکثر اپنی سفاکی کو “حادثے” یا “بیماری” کے پردے میں چھپاتا آیا ہے۔شوکت بلیدی کی موت ایک جسم کا خاتمہ نہیں، بلکہ ایک فکری تسلسل کا نیا آغاز ہے۔ وہ اس نسل سے تعلق رکھتے تھے جس نے دکھا دیا کہ فکر کو قتل نہیں کیا جا سکتا، کہ جسم مٹ بھی جائے تو لفظ زندہ رہتے ہیں۔ ان کے قلم نے اس مزاحمت کو زبان دی جسے نوآبادیاتی سامراج نے اکثر “انتہا پسندی” کہہ کر رد کیا، مگر جو دراصل آزادی، خودداری اور شناخت کی بازیافت تھی۔یہ بھی سچ ہے کہ ان کی موت کے گرد موجود ابہام بذاتِ خود ایک علامت ہے — اس نظام کے زہر کی علامت جو سچ بولنے والوں کو خاموش کر دیتا ہے، جو سوال اٹھانے والوں کے جسموں کو توڑ دیتا ہے مگر ان کے نظریات کو نہیں۔ “سست زہر” صرف کیمیائی نہیں ہوتا؛ یہ وہ فکری زہر بھی ہے جو غلام ذہنوں کو پلایا جاتا ہے تاکہ وہ سوال کرنا بھول جائیں۔ شوکت بلیدی اسی زہر کے خلاف مزاحمت کی علامت بن گئے۔تاریخ کے صفحات پر ان کا نام اُن لوگوں کے ساتھ درج ہوگا جنہوں نے طاقت کے اندھے مراکز کے سامنے سچ کا علم بلند رکھا۔ ان کی جلاوطنی، ان کے زخم، — سب اس بات کے گواہ ہیں کہ فکری صداقت کو مٹایا نہیں جا سکتا۔ وہ مرے نہیں، وہ ہر اس لفظ میں زندہ ہیں جو ظلم کے خلاف بولا جائے، وہ ہر اس تحریر میں سانس لے رہے ہیں جو آزادی کے ارمان کو زندہ رکھتی ہے۔ان کی رخصتی ایک اختتام نہیں، بلکہ ایک دعوتِ دوام ہے کہ ہم بھی اپنے حصے کا چراغ جلائیں، تاکہ ظلم کی شب میں کسی اور کا ذہن راستہ پا سکے۔
