تحریر: دلجان بلوچ
زرمبش مضمون

ہر قوم کی تاریخ میں کچھ ایسے لوگ ہوتے ہیں جو شہرت یا انعام کے لیے نہیں بلکہ اپنے نظریے اور قوم کے لیے جیتے ہیں۔ وہ چراغوں کی طرح جل کر اپنے لوگوں کو روشنی دیتے ہیں، چاہے خود راکھ کیوں نہ بن جائیں۔ آج ہم ایسے ہی ایک ساتھی کو یاد کر رہے ہیں، جس نے اپنی پوری زندگی بلوچ تحریکِ آزادی کے نام وقف کر دی۔
اس نے جوانی کے دنوں سے لے کر بڑھاپے تک ایک ہی مقصد کے لیے جدوجہد کی۔ پارٹی کا کام ہو، ساتھیوں کی رہنمائی ہو یا قوم کا مقدمہ دنیا تک پہنچانا،وہ ہمیشہ صفِ اول میں رہا۔ وہ شخص آرام اور آسائش کے تصور سے کوسوں دور، اپنی سرزمین سے دور رہ کر بھی اسے بھول نہ سکا۔ اس نے جلاوطنی کی سختیاں، تنہائی، غربت اور مسلسل خطرات برداشت کیے، مگر کبھی اپنے عزم میں لرزش نہ آنے دی۔
ایسے لوگ وقت اور حالات سے نہیں ٹوٹتے۔ وہ جانتے ہیں کہ آزادی کی راہ لمبی اور کٹھن ہوتی ہے۔ اسی یقین نے اسے آخری ایام تک مضبوط رکھا۔ جسم کمزور ہوا، مگر حوصلہ نہیں ٹوٹا۔ دل میں ایک ہی آرزو تھی، اپنی قوم کو آزاد اور سر بلند دیکھنے کی۔
اس نے اپنی جدوجہد کو کسی نام یا مقام سے نہیں جوڑا۔ گمنامی میں رہ کر بھی وہ وہ کر گیا جو بڑے بڑے دعویدار نہ کر سکے۔ وہ تاریخ کے صفحوں پر شاید نمایاں نہ ہو، مگر ان دلوں میں زندہ ہے جنہیں اس نے امید دی، جنہیں اس نے سکھایا کہ قربانی کے بغیر آزادی نہیں ملتی۔
ایسے لوگ مر کر بھی زندہ رہتے ہیں۔ ان کی زندگی ہمیں یہ سبق دیتی ہے کہ اصل کامیابی نام کمانا نہیں، اپنی قوم کے لیے جینا ہے۔ کماش شوکت واقعی ایک سچا سپاہی، ایک مخلص ساتھی، اور ایک گمنام مگر عظیم ہیرو تھا۔
