حکیم بلوچ کی جبری گمشدگی اور عالمی خاموشی

تحریر: ماہل بلوچ
زرمبش مضمون

یہ صدی، جسے دنیا انصاف، انسانی حقوق اور آزادی کی اقدار کا سب سے روشن زمانہ قرار دیتی ہے، بلوچ کے دروازے پر آ کر اندھیروں کی مانند بکھر جاتی ہے۔ جہاں ایک طرف طاقتور قومیں اور ریاستیں اپنے شہریوں کے لیے مساوات اور انصاف کے بڑے بڑے دعوے کرتی ہیں، وہیں دوسری طرف بلوچ گھر آج بھی انتظار، خوف اور بے بسی کے اندھیروں میں ڈوبے ہوئے ہیں۔ ان گھروں کی دہلیز پر ہر دستک ماں کے دل کو دہلا دیتی ہے، ہر آہٹ بہن کے وجود کو لرزا دیتی ہے، اور ہر سایہ ایک نئے نقصان، ایک نئی جدائی اور ایک نئے زخم کا پیغام بن جاتا ہے۔ انہی گھروں میں حکیم بلوچ جیسے نوجوانوں کی کہانیاں لکھی جاتی ہیں، جو نہ مجرم تھے، نہ دہشت گرد، اور نہ کسی غیر قانونی سرگرمی میں ملوث؛ بلکہ ایک وکیل تھے، قانون کے محافظ تھے۔ وہ شخص، جو عدالتوں میں حق اور انصاف کا عَلَم بلند کرتا تھا، 23 اور 24 جولائی کی درمیانی شب جبری طور پر غائب کر دیا گیا۔ یوں ایک بار پھر اس حقیقت پر مہر ثبت ہو گئی کہ اس سرزمین پر قانون طاقتور کے ہاتھ میں محض ایک ہتھیار ہے، کمزور کے لیے ڈھال نہیں۔

یہ المیہ محض ایک فرد کا نہیں بلکہ ایک پورے معاشرتی اور تاریخی سانچے کا عکس ہے۔ وہ سانچہ جو نوآبادیاتی ذہنیت کی باقیات سے تشکیل پایا ہے، وہ ذہنیت جسے فرانز فینن نے اپنی کتاب The Wretched of the Earth میں اس طرح بیان کیا کہ نوآبادیات کا مقصد صرف زمین پر قبضہ نہیں بلکہ ذہنوں کو غلام بنانا ہوتا ہے۔ غلامی کی سب سے بڑی صورت یہ ہے کہ مظلوم کو اپنی بے وقعتی اور اپنی بے بسی پر یقین دلا دیا جائے، تاکہ وہ اپنے حق کے لیے آواز بلند کرنے کی جرات بھی کھو دے۔

حکیم بلوچ کی گمشدگی کو اگر محض ایک واقعہ سمجھا جائے تو یہ ناانصافی ہوگی۔ یہ واقعہ دراصل ایک فلسفہ، ایک علامت اور ایک استعارہ ہے۔ یہ ہمیں یاد دلاتا ہے کہ کس طرح نوآبادیاتی طاقتیں اور ان کے قائم کردہ ریاستی ڈھانچے آج بھی قانون کو انصاف کے لیے نہیں بلکہ جبر کو دوام دینے کے لیے استعمال کرتے ہیں۔ یہی وہ تلخ حقیقت ہے جس پر ایڈورڈ سعید نے زور دیا کہ نوآبادیات کے خاتمے کے بعد بھی اس کی باقیات زندہ رہتی ہیں—وہ باقیات جو اداروں، قوانین اور رویوں میں چھپی رہتی ہیں اور کمزور اقوام کو بار بار ان کے وجود کی کم وقعتی کا احساس دلاتی ہیں۔

آج حکیم بلوچ پر 11-EEE جیسا کالا قانون نافذ کیا گیا، ایک ایسا قانون جو ماضی میں سنگین مجرموں اور دہشت گردوں کے خلاف استعمال ہوتا رہا۔ لیکن اب ایک وکیل—جو خود قانون کا محافظ تھا—اس قانون کے شکنجے میں جکڑا گیا۔ کئی ہفتے گزرنے کے باوجود ریاست خاموش ہے: نہ کوئی وضاحت، نہ کوئی جواب، نہ کوئی عدالتی شنوائی۔ یہ سب کچھ صرف ایک شخص کے ساتھ نہیں بلکہ ایک پوری قوم کے ساتھ ہو رہا ہے۔ نوآبادیاتی منطق یہی ہے کہ طاقتور اپنے ہر اقدام کو "ضرورت” اور "قانون” کا نام دیتا ہے، جبکہ مظلوم کی ہر آواز کو "خطرہ” اور "جرم” قرار دیا جاتا ہے۔ البرٹ میمی نے اپنی کتاب The Colonizer and the Colonized میں واضح کیا کہ استعماری قوتیں ہمیشہ اپنی موجودگی کو جواز دینے کے لیے مظلوم کو کمتر اور غیر محفوظ دکھاتی ہیں، تاکہ اس کے خلاف کیا گیا ہر ظلم ایک ناگزیر عمل محسوس ہو۔

لیکن سوال یہ ہے کہ اگر قانون کے محافظ خود غیر محفوظ ہیں تو عام شہری کہاں جائیں؟ اگر انصاف کے دروازے وکیلوں پر بند ہیں تو مظلوم عوام کس چوکھٹ پر دستک دیں؟ ارسطو نے کہا تھا کہ انصاف ریاست کی بنیاد ہے۔ لیکن جب انصاف ہی غائب ہو جائے تو ریاست محض طاقت کا ڈھانچہ رہ جاتی ہے—ایک ایسا ڈھانچہ جو کمزور کی سانسیں چھینتا ہے اور طاقتور کی گرفت کو مزید مضبوط کرتا ہے۔ یہی کچھ بلوچ سرزمین پر ہو رہا ہے، جہاں ایک طرف ماں کی آنکھوں کی روشنی انتظار کرتے کرتے بجھ جاتی ہے، بہنوں کے خواب اجڑ جاتے ہیں، دوست اپنی سنگت سے محروم ہو جاتے ہیں؛ اور دوسری طرف ریاست ایک لفظِ تسلی یا انصاف دینے کو تیار نہیں۔ اس کے نزدیک بلوچ کی زندگی، خواب اور جدوجہد سب بے معنی ہیں۔ یہی وہ تلخ فلسفہ ہے جس پر فینن نے کہا تھا کہ جب قانون ظلم کا ہتھیار بن جائے تو وہ قانون نہیں رہتا بلکہ طاقت کی زبان بن جاتا ہے، اور حکیم بلوچ کا کیس اسی فلسفے کی زندہ مثال ہے۔

مجھے وہ لمحہ یاد ہے جب حکیم بلوچ کو اٹھائے جانے کے بعد #ReleaseHakeemBaloch سوشل میڈیا پر ٹرینڈ کرنے لگا۔ چند ہی گھنٹوں میں یہ ساتویں نمبر پر آیا، پھر نویں پر چلا گیا اور آہستہ آہستہ غائب ہو گیا۔ یہ لمحہ میرے لیے ایک آئینہ تھا، جس نے دکھایا کہ ہماری آوازیں کتنی ناپائیدار ہیں۔ ہم کتنی جلدی اپنے دکھ اور زخم بھول جاتے ہیں اور کتنی آسانی سے ایک ماں کا انتظار اور ایک بہن کی بینائی سوشل میڈیا کے شور میں دب جاتی ہے۔ اگر ہم اپنی آواز کو مسلسل اور متحد رکھیں تو شاید کوئی دوست اپنی سنگت کو نہ کھوئے، کوئی وکیل اپنے فرض کی ادائیگی کرتے ہوئے غیر محفوظ نہ ہو اور کوئی ماں اپنی زندگی بھر کا خواب کھونے سے بچ جائے۔ لیکن یہ سب کچھ اسی وقت ممکن ہے جب ہم نوآبادیاتی ذہنیت کو پہچانیں، اسے بے نقاب کریں اور اس کے خلاف مسلسل آواز بلند کریں۔ یہ ذہنیت صرف زمین پر قبضہ نہیں کرتی بلکہ انسان کے شعور اور امید پر بھی قبضہ کرتی ہے۔ اگر ہم خاموش رہے تو یہ قبضہ ہمیشہ کے لیے مکمل ہو جائے گا۔

یہ اکیسویں صدی ہے، مگر بلوچ کے گھروں میں آج بھی نوآبادیات کی صدی کے سائے ہیں۔ ایک طرف دنیا انسانی حقوق کے ڈھنڈورے پیٹتی ہے، آزادی اور انصاف کے نعرے بلند کرتی ہے، اقوام متحدہ کے چارٹرز اور عالمی معاہدوں میں انصاف اور انسانی وقار کی ضمانت دیتی ہے۔ لیکن دوسری طرف حکیم بلوچ جیسے لوگ خاموشی میں غائب کر دیے جاتے ہیں، اور کوئی عالمی ادارہ ان کے حق میں آواز بلند نہیں کرتا۔ یہ صرف ایک انسانی المیہ نہیں بلکہ عالمی انصاف کے نظام پر ایک سوالیہ نشان ہے۔ تاریخ یہ سوال ضرور پوچھے گی کہ جب دنیا آزادی اور انصاف کے دعوے کر رہی تھی تو اس وقت ایک بلوچ وکیل کیوں غیر محفوظ تھا؟ انصاف کے دروازے اس پر کیوں بند تھے؟ تاریخ یہ سوال ہر اس ادارے سے کرے گی جو انصاف کا دعویٰ کرتا ہے مگر ظلم پر خاموش رہتا ہے؛ ہر اس معاشرے سے کرے گی جو آزادی کا نعرہ لگاتا ہے مگر کمزور کی غلامی پر آنکھیں بند کر لیتا ہے؛ اور ہر اس ریاست سے کرے گی جو اپنے شہریوں کو انصاف کے بجائے اندھیروں میں دھکیل دیتی ہے۔

مدیر

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Next Post

طلبہ کا کردار اور شال کی موجودہ صورتحال

ہفتہ اگست 30 , 2025
تحریر: مہراج بلوچزرمبش مضمون شال کی گلیوں، بازاروں اور تعلیمی اداروں میں آج ایک عجیب منظر دکھائی دیتا ہے۔ یہ شہر علم و تہذیب کا مرکز رہا ہے۔ یہاں سے ایسے لوگ نکلے جنہوں نے اپنی قابلیت اور کردار سے نہ صرف اپنے علاقے بلکہ پورے ملک کا نام روشن […]

توجہ فرمائیں

زرمبش اردو

زرمبش آزادی کا راستہ

زرمبش اردو ، زرمبش براڈ کاسٹنگ کی طرف سے اردو زبان میں رپورٹس اور خبری شائع کرتا ہے۔ یہ خبریں تحریر، آڈیوز اور ویڈیوز کی شکل میں شائع کی جاتی ہیں۔

آسان مشاہدہ