تنظیمی رہنماؤں کی ریمانڈ میں توسیع بلوچستان کے آواز کو دبانے کے لیے عدلیہ اور ریاستی اداروں کو مشترکہ گڑ جوڑ ہے۔ بی وائی سی

بلوچ یکجہتتی کمیٹی کے ترجمان نے میڈیا کو بیان جاری کرتے ہوئے کہا کہ آج انسدادِ دہشتگردی عدالت نے بلوچ یکجہتی کمیٹی کے رہنماؤں کی پولیس ریمانڈ میں مزید 20 روز کی توسیع کر دی ہے۔ یہ اقدام نہ صرف قانون و انصاف کے بنیادی اصولوں کی خلاف ورزی ہے بلکہ پاکستان میں عدلیہ کی آزادی پر بھی سنگین سوالات کھڑے کرتا ہے۔ یہ واضح ہو چکا ہے کہ عدالتیں ریاستی و عسکری دباؤ کے سامنے جھک رہی ہیں اور انسانی حقوق کے محافظوں کو انصاف دینے کے بجائے جابرانہ قوتوں کے ہاتھ مضبوط کر رہی ہیں۔ اس فیصلے نے ایک بار پھر ثابت کیا کہ بلوچستان میں جاری انسانی حقوق کے بحران میں عدلیہ بھی بالواسطہ شریکِ جرم ہے۔

ترجمان نے کہا کہ بلوچستان میں عدلیہ کا کردار انتہائی مایوس کن رہا ہے۔ تھری ایم پی او کے تحت بلوچ یکجہتی کمیٹی کی قیادت کی گرفتاری کے خلاف ہم نے شروع دن سے بلوچستان ہائی کورٹ سے رجوع کیا، لیکن عدالت نے بار بار ریاستی دباؤ میں آکر کبھی کیس کو ہوم ڈیپارٹمنٹ منتقل کیا، کبھی مسترد کر دیا، اور اب بغیر کسی قانونی جواز کے مسلسل رہنماؤں کو ریمانڈ پر بھیجا جا رہا ہے۔ عدالت نے شہری آزادیوں کے مقابلے میں ریاستی مؤقف کو ترجیح دے دی ہے۔

انہوں نے کہا کہ انسدادِ دہشتگردی عدالت نے پولیس کی جانب سے کوئی واضح پیش رفت نہ ہونے کے باوجود بار بار ریمانڈ میں توسیع دی۔ ہماری قانونی ٹیم نے نشاندہی کی کہ انسدادِ دہشتگردی قانون (ATA) کے تحت 14 دن سے زائد جسمانی ریمانڈ صرف ٹھوس شواہد پر دیا جا سکتا ہے، لیکن اس قانونی حد کو نظرانداز کرتے ہوئے پہلے 10 دن، پھر 15 دن اور اب مزید 20 دن کا ریمانڈ دیا گیا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ بلوچستان میں عدالتیں انصاف فراہم کرنے کے بجائے عسکری خواہشات اور سازشوں پر عمل درآمد کر رہی ہیں۔ عدلیہ کا کام آئین اور قانون کا تحفظ اور شہریوں کو انصاف فراہم کرنا ہے، لیکن بلوچستان میں عدلیہ خود کالونیل دور کے طرز پر آئینی اصولوں کی دھجیاں اڑا رہی ہے اور جبر کے اس کھیل میں شریکِ جرم بن چکی ہے۔

ترجمان نے کہا کہ ڈاکٹر مہرنگ بلوچ اور بلوچ یکجہتی کمیٹی کی قیادت کا واحد “جرم” یہ ہے کہ وہ پُرامن اور جمہوری اصولوں کے تحت بنیادی انسانی حقوق اور انصاف کا مطالبہ کر رہے ہیں۔ مگر ریاست نے ان پر دہشتگردی جیسے بے بنیاد الزامات عائد کر کے انہیں مجرموں کی طرح قید کر رکھا ہے۔ یہ طرزِ عمل بین الاقوامی انسانی حقوق اور انصاف کے تمام معیارات کی صریح خلاف ورزی ہے۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ ہم اقوامِ متحدہ، عالمی انسانی حقوق کی تنظیموں اور بین الاقوامی برادری سے مطالبہ کرتے ہیں کہ بلوچستان میں جاری ریاستی ظلم و جبر اور عدالتی ناانصافی کے اس سلسلے کا فوری نوٹس لیا جائے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Next Post

کیا ایک بلوچ گوریلا (سرمچار) کو اپنے نشان چھپانے چاہئیں؟

اتوار اگست 3 , 2025
تحریر: زاکر بلوچ زرمبش مضمون بلوچ مسلح قومی تحریک میں سرمچار ایک مرکزی کردار ادا کرتے ہیں۔ یہ وہ نوجوان ہوتے ہیں جو گوریلا جنگ کے اصولوں کے تحت قابض ریاستی اداروں کے خلاف برسرِ پیکار ہوتے ہیں۔ ان کے کردار کو صرف مسلح مزاحمت تک محدود نہیں کیا جا […]

توجہ فرمائیں

زرمبش اردو

زرمبش آزادی کا راستہ

زرمبش اردو ، زرمبش براڈ کاسٹنگ کی طرف سے اردو زبان میں رپورٹس اور خبری شائع کرتا ہے۔ یہ خبریں تحریر، آڈیوز اور ویڈیوز کی شکل میں شائع کی جاتی ہیں۔

آسان مشاہدہ