راجی مُچی گوادر: بلوچ قومی فخر کا لمحہ

تحریر: حفیظ بلوچ
زرمبش مضمون

آج سے ایک سال قبل، گوادر کے ساحل پر منعقد ہونے والے بلوچ قومی اجتماع "راجی مُچی” میں کھڑے ہو کر میں نے اپنی آنکھوں سے ریاستی جبر، استحصال اور بربریت کے مناظر دیکھے۔ پورا شہر محاصرے میں تھا، مگر پھر بھی لوگ، پہاڑوں اور راستوں کو چیرتے ہوئے، سمندر کے کنارے اُس مقام پر پہنچ رہے تھے جہاں ہزاروں کا ہجوم امن کی گواہی بن کر جمع ہو رہا تھا۔

کسی کو معلوم نہ تھا یہ لوگ کہاں سے آ رہے ہیں، کس طرح رکاوٹوں کو عبور کر کے یہاں پہنچ رہے ہیں۔ گوادر کے ہر راستے پر ریاستی ناکہ بندی تھی، مگر پھر بھی بلوچ عوام کا ایک سیلاب، ساحلی سڑکوں پر امن کے قافلوں کی صورت میں امڈ آیا تھا۔ اچانک گولیوں کی آواز گونجی۔ میں بے اختیار اُس سمت کو چل پڑا۔ لوگ بھی اسی طرف دوڑ رہے تھے۔ نعرے تھے، چیخیں تھیں۔ کوئی چیخ رہا تھا: “ہمارے لوگ شہید کر دیے گئے! ظالموں نے انہیں مار ڈالا!”

اسی ہنگامے میں، میں نے ڈاکٹر صبیحہ بلوچ کو دیکھا۔ اپنے مخصوص، باوقار انداز میں وہ لوگوں کو پُرامن رہنے کی تلقین کر رہی تھیں۔ کبھی کسی فرد، کبھی پورے مجمعے کو مخاطب کر کے کہتی تھیں: “اس طرف مت جاؤ، اشتعال سے بچو!”
میں نے بھی آواز دی: “صبیحہ! اُس طرف مت جاؤ!”
مگر شاید میرے الفاظ اُس شور کے سمندر میں کہیں کھو گئے۔

کچھ ہی دیر بعد معلوم ہوا کہ ایف سی کی فائرنگ سے دو نوجوان شہید ہو چکے ہیں اور کئی زخمی۔ عوامی ہجوم کو دیکھ کر ایف سی پیچھے ہٹ گئی۔ میرے سامنے ہی دو زخمیوں کو موٹر سائیکل پر ڈال کر اسپتال لے جایا گیا۔

مگر راجی مُچی صرف ایک واقعہ نہیں یہ ایک تاریخ ہے۔ بلوچ مزاحمت کی سنہری قوس، ایک ایسا دن جس پر جتنا لکھا گیا، کم ہے، اور جتنا لکھا جائے گا، وہ بھی کم ہوگا۔
میں صرف اس دن کا نہیں بلکہ اس پورے عمل کا حصہ رہا۔ انتظامی تیاریاں ہوں یا ریاستی کریک ڈاؤن، آنسو گیس ہو یا مذاکرات کی میز میں ہر لمحے کا شریکِ کار تھا۔ میں اس آخری لمحے کا بھی گواہ ہوں جب ڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ نے ہزاروں کے مجمع سے حلف لیا، اور ایک قافلے کی شکل میں تربت کی جانب روانہ ہوئیں۔

28 جولائی 2023 سے لے کر میرے قیامِ گوادر تک، میں نے ڈاکٹر ماہ رنگ کی قیادت کو ابھرتے، نکھرتے اور فولاد بنتے دیکھا۔ کئی اعصاب شکن لمحات میں ان کا فیصلہ کن کردار دیکھ کر میں ششدر رہ گیا۔ جب عوام غیض و غضب کی کیفیت میں تھے اور صرف ایک اشارے کے منتظر، تب ڈاکٹر ماہ رنگ نے مائیک پر آ کر کہا:

"ہم پُرامن جدوجہد کے وارث ہیں۔ ریاست ہمیں مشتعل کر کے تشدد کی طرف دھکیلنا چاہتی ہے، لیکن ہم دنیا کو دکھا دیں گے کہ ہم نظریاتی جدوجہد کے ماننے والے ہیں۔ ایک گملا بھی نہیں ٹوٹنا چاہیے۔”

میں اس چھوٹی قامت مگر عظیم انسان کو دیکھ رہا تھا، جس کی معنویت، حوصلہ اور سیاسی بصیرت لاکھوں میں ممتاز اور ناقابلِ فراموش تھی۔آج وہ تین ماہ سے زائد عرصے سے قید میں ہیں، لیکن ان کی مسکراہٹ اور استقامت وہی ہے جو راجی مُچی کے دنوں میں تھی۔ جب موت کی آہٹیں ان کے گرد منڈلا رہی تھیں، تب بھی وہ مسکرا کر مجھ سے کہتی تھیں:
"لالہ! میں ہر حالت کے لیے تیار ہوں۔ کیا آپ بھی تیار ہیں؟”
اور میں نے بھی مسکرا کر جواب دیا تھا:
"میں اور میرے ساتھی تمہارے ساتھ ہیں، تم پر آنچ نہیں آنے دیں گے۔”یہ طاقت، یہ ہمت ہمیں اُس نے دی۔ اپنے الفاظ، اپنی بصیرت سے ہمیں اتنا مضبوط کیا کہ ہم نے ہر سخت لمحے کا سامنا سینہ تان کر کیا۔

یہ داستان کسی ایک دن یا ایک ہفتے کی نہیںیہ گویا ایک پوری صدی کا بیان ہے، ایک تسلسل ہے۔ جب کامریڈ یوسف عزیز مگسی نے پہلی راجی مُچی منعقد کی، اور پھر کامریڈ ماہ رنگ بلوچ نے عوامی راجی مُچی کی قیادت سنبھالی۔ فرق صرف اتنا تھا کہ مگسی کی راجی مُچی بلوچ قیادت کی نشست تھی، جبکہ ماہ رنگ کی راجی مُچی پوری بلوچ قوم کی آواز بنی۔

کراچی سے ڈیرہ غازی خان، بولان سے چلتن و خاران، شال سے خضدار، نوشکی، دالبندین، تربت، پنجگور اور سیستان تک ہر بلوچ خطے کی نمائندگی گوادر میں موجود تھی۔
آٹھ سے دس لاکھ بلوچوں کو گوادر پہنچنے سے روکا گیایہ میرا نہیں بلکہ ان ریاستی اداروں کا اندازہ ہے جنہوں نے بلوچستان کو بند کیا ہوا تھا۔ اصل تعداد شاید اس سے بھی زیادہ ہو۔

یہ محض چند یادیں ہیں۔ اگر ہر دن کی روداد لکھنے بیٹھوں تو ہفتوں درکار ہوں گے۔ہاں، مجھے فخر ہے کہ میں اس مزاحمتی تاریخ کا حصہ رہا۔ ایک عام کارکن کی حیثیت سے، کامریڈ ماہ رنگ بلوچ نے مجھ پر جو اعتماد کیا، وہ میرے لیے اعزاز تھا۔ شاید میں اس کا اہل نہ تھا، مگر یہ بھروسہ، یہ رفاقت میری زندگی کا حاصل ہے۔

بطور ایک بلوچ، ایک مقامی (انڈیجینس) کارکن، میں آج بھی اسی پُرامن جدوجہد کا ادنیٰ سپاہی ہوں۔ اور یہ میری خوش نصیبی ہے کہ میں کامریڈ ڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ کے عہد میں زندہ ہوں، ان کا ساتھی ہوں، اور ان کے قافلے کا ہمسفر ہوں۔
اس سے بڑی سعادت کیا ہو سکتی ہے؟

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Next Post

نیدرلینڈز: استاد واحد کمبر کی جبری گمشدگی کو ایک سال، بی این ایم کا پاکستانی سفارت خانے کے سامنے احتجاج

پیر جولائی 28 , 2025
دی ہیگ: بلوچ نیشنل موومنٹ (بی این ایم) کی جانب سے دی ہیگ میں پاکستانی سفارت خانے کے سامنے احتجاجی مظاہرہ کیا گیا۔ مظاہرے کا مقصد استاد واحد کمبر بلوچ کی جبری گمشدگی کو ایک سال مکمل ہونے پر عالمی برادری کو متوجہ کرنا اور بلوچستان میں جاری ریاستی جبر […]

توجہ فرمائیں

زرمبش اردو

زرمبش آزادی کا راستہ

زرمبش اردو ، زرمبش براڈ کاسٹنگ کی طرف سے اردو زبان میں رپورٹس اور خبری شائع کرتا ہے۔ یہ خبریں تحریر، آڈیوز اور ویڈیوز کی شکل میں شائع کی جاتی ہیں۔

آسان مشاہدہ