ذیشان ظہیر: ایک سوال، ایک مزاحمت، ایک علامت

تحریر : داد جان بلوچ

بلوچ سرزمین پر ریت، خون اور آنسو ایک ساتھ بہتے ہیں۔
یہاں کے پہاڑ گواہ ہیں اُن ماؤں کی چیخوں کے، جنہوں نے بیٹوں کے سائے کو دفن ہوتے دیکھا؛ اُن بہنوں کی سسکیوں کے، جو صبح کا سورج کسی نئی جدائی کے خوف سے دیکھتی ہیں؛ اور اُن بچوں کے سہمے وجودوں کے، جنہوں نے بچپن میں ہی موت اور جدائی کے فلسفے سیکھ لیے۔ انہی چیخوں میں ایک نام اب صداؤں میں گونج رہا ہے۔ "ذیشان ظہیر۔”وہ جو باپ کی گمشدگی کے بعد خود ایک ستون بن گیاذیشان ایک عام سا بچہ تھا۔ اسکول میں پڑھتا، شام کو فٹبال کھیلتا، دوستوں کے ساتھ ہنستا، اور ماں کے ہاتھ سے نرمی سے کھانا کھاتا تھا۔لیکن ایک دن سب کچھ بدل گیا۔ اُس کے باپ، ظہیر احمد، کو ریاستی ادارے لے گئے بغیر وارنٹ، بغیر عدالت، بغیر واپسی۔ذیشان نے اُس دن بچپن دفنا دیا۔

وہ فقط دس سال کا تھا، مگر اُس کی آنکھوں میں ایک غیر معمولی خاموشی اتر آئی۔ اُس دن کے بعد نہ وہ بچہ رہا، نہ خواب ویسے رہے۔ اُس نے اسکول کے بستے کے ساتھ اب ماں کا دکھ، بہنوں کی فکر، اور باپ کی جبری گمشدگی کا سوال اٹھانا شروع کیا۔ وہ صرف بڑا نہیں ہوا، بلکہ ذمہ دار، باشعور، اور زندگی کے تلخ فلسفے کو بھی سمجھ گیا۔اور ج احتجاج کو عبادت بنا لیاذیشان کو کسی سیاسی مفاد سے دلچسپی نہ تھی۔ اُس کی سیاست صرف اتنی تھی: "میرے بابا کہاں ہیں؟”بے گناہ لوگوں کو کیوں لاپتہ کر رہے ہو؟ جواب دو!

یہ سوال لے کر وہ ہر احتجاج میں کھڑا رہا۔ سخت گرمی ہو یا سخت دھمکیاں، وہ پیچھے نہیں ہٹا۔ اُس نے مظاہروں میں بینر تھاما، سیمیناروں میں سچ بولا، اور ہر اسٹیج پر وہی سوال دہراتا رہا جو اس ریاست سے ہر بلوچ پوچھ رہا ہے:
"میرے پیارے کہاں ہیں؟”مگر اُس کی آواز ریاست کے لیے ناقابلِ برداشت ہو گئی۔ریاست کو وہ سوال پسند نہیں، جس میں سچ شامل ہو۔ اور ذیشان کے سوالوں میں صرف سچ تھا ، خاموش، مگر کاٹ دار سچ۔

ذیشان کی زندگی فقط احتجاج نہیں تھی، وہ ایک پورے خاندان کا سہارا تھا۔ اُس نے مزدوری کی، بچوں کو ٹیوشن پڑھایا، کبھی رات بھر کام کیا تاکہ بہنوں کی فیس ادا ہو جائے، اور صبح پھر مظاہرے میں شریک ہوا۔وہ ماں کی آنکھوں کا سکون تھا، جس نے شوہر کی جدائی سہہ لی، مگر بیٹے کے لمس سے جڑی رہی۔بہنیں اُسے صرف بھائی نہیں، باپ سمجھتی تھیں۔ جب بھی کوئی خوف دروازے پر دستک دیتا، ذیشان دیوار بن کر کھڑا ہو جاتا۔ اُس کے مسکرانے کا انداز، اُس کے نرم لہجے، اور اُس کے پرانے کپڑوں میں چھپا وقار سب کچھ اب ایک خاموش کمرے کی دیواروں میں قید تھے۔

ذیشان گول کیپر تھا۔ وہ دروازہ روکتا تھا جیسے وہ اپنی بہنوں کے خوابوں کی حفاظت کرتا، جیسے وہ اپنے خاندان پر آنے والی آندھیوں کو روکتا۔فٹبال اُس کے لیے صرف کھیل نہیں، زندگی کا استعارہ تھی۔اب اُس کا کلب بند ہے۔ میدان خالی ہے۔ گیند ادھوری ہے۔ ٹیم کے بچوں کی آنکھوں میں نمی ہے۔ وہ سب پوچھتے ہیں:”کیا ہم بھی کل غائب ہو جائیں گے؟”

29 جون 2025 کو ذیشان کی زندگی کی گھڑی روک دی گئی۔اُسے دن دہاڑے گرمکان فٹبال چوک سے اغوا کیا گیا۔ وہ دن خاندان کے لیے قیامت سے کم نہ تھا، لیکن قیامت اگلے دن آئی جب ذیشان کی لاش ملی۔ذیشان کے جسم پر جلنے کے نشان تھے، ناخن ادھڑے ہوئے، ہڈیاں ٹوٹی ہوئی، چہرہ مسخ، اور سینے میں گولیاں جیسے کسی نے انصاف کے ہر سوال کو گولی مار دی ہو۔اُسے ایسے مارا گیا جیسے وہ مجرم تھا۔لیکن اُس کا جرم کیا تھا؟ فٹبال کھیلنا؟ بہنوں کا خیال رکھنا؟ باپ کو یاد کرنا؟ یا سچ بولنا؟

ذیشان کی ماں اُس دن پھر بیوہ ہو گئی ، بیٹے کے ہاتھوں کو چھوا، جو کبھی مزدوری کرتے تھے، اب وہ ٹھنڈے اور خاموش تھے۔ اُس نے ماتھے کو چوما، جہاں کبھی پسینہ ہوتا تھا، اب خون جما ہوا تھا۔اور وہ بس اتنا کہہ سکی:
"پہلے میرا شوہر چھینا، اب میرا بیٹا بھی لے لیا… اب میں کس کے لیے زندہ رہوں؟

ذیشان اب ہمارے درمیان نہیں، لیکن وہ ایک علامت بن چکا ہے ۔ اس قوم کی، جو صبر کے دامن میں لہو سنبھالے کھڑی ہے۔وہ اُن خوابوں کی علامت ہے جو انصاف چاہتے ہیں، اور اُن سوالوں کی علامت ہے جن کا جواب نہیں دیا جا رہا۔

ریاست نے ذیشان کو ختم کر دیا، مگر اُس کے سوال کو ختم نہ کر سکی۔اُس کی سانسیں چھین لی گئیں، مگر اُس کی سوچ آج بھی گلیوں میں گونجتی ہے۔وہ اب جسمانی طور پر ہمارے درمیان نہیں، لیکن اُس کا جذبہ، اُس کی جدوجہد اور اُس کے خواب، اب ہم سب کا اثاثہ بن چکے ہیں۔

یہ صرف ایک نوجوان کی کہانی نہیں ہے، یہ ایک پورے بلوچ سماج کا نوحہ ہے۔یہ ذاتی دکھ نہیں، اجتماعی المیہ ہے۔
وہ المیہ جس میں ریاستی طاقت کے سامنے ایک فرد کی کمزوری نہیں، بلکہ اُس کی مزاحمت پوری قوم کی آواز بن جاتی ہے۔

ذیشان اب خاموش ہے، لیکن اُس کی خامشی ہمیں بولنے پر مجبور کرتی ہے۔ہماری بولنا اُن کی طاقت ہے ۔ہم جتنے خاموش رہیں گے، ظلم اتنا ہی بے خوف ہوتا جائے گا۔ذیشان کے گمشدہ یا مارے جانے کے بعد اگر ہم بھی چپ رہے، تو ہم بھی اس جرم میں برابر کے شریک ہوں گے۔

ذیشان کا خواب صرف انصاف کا مطالبہ نہیں تھا،
بلکہ یہ ایک ایسا آئینہ تھا جس میں پوری قوم نے اپنی محرومیوں کو، اپنے زخموں کو، اور اپنی اُمیدوں کو دیکھا۔

یہ خواب ہر مظلوم بلوچ کی آنکھوں میں جگمگاتا ہے۔
یہ خواب ریاست کی گولیوں سے نہیں ٹوٹتا، بلکہ اور بھی شفاف ہوتا جاتا ہے۔ذیشان کا خواب ہمیں یاد دلاتا ہے کہ جب تک ہم اجتماعی شعور کے ساتھ آگے نہیں بڑھیں گے،
ہر گھر میں ذیشان پیدا ہوتے رہیں گے اور ختم کیے جاتے رہیں گے۔

جب ایک ریاست کسی فرد کی سوچ سے خوف کھاتی ہے،
تو یہ اُس سوچ کی طاقت کا سب سے بڑا ثبوت ہے۔
ریاست نے ذیشان کو ختم کیا،لیکن سوال باقی ہے:
ہم کب تک چپ رہیں گے؟ہم کب اپنی خاموشی کو آواز میں بدلیں گے؟ہم کب تک خوابوں کو دفن کرتے رہیں گے؟
ذیشان کا خواب ابھی مرا نہیں،وہ ہمیں جھنجھوڑ رہا ہے:
یہ وقت ہے جاگنے کا ورنہ کل ہمارے نام بھی صرف خبروں کی فہرست میں ہوں گے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Next Post

سی ایس ایس، تحصیلداری یا آزادی ؟

اتوار جولائی 27 , 2025
سوشل میڈیا آج کے دور کا سب سے بڑا "ڈیجیٹل آئینہ” بن چکا ہے۔ یہ نہ صرف افراد کی روزمرہ زندگی، احساسات اور رویوں کا مظہر ہے بلکہ اس کے ذریعے ایک مکمل سماجی بیانیہ بھی ابھرتا ہے۔ اسی آئینے میں ہم بلوچ سماج کی پوری شبیہ دیکھ سکتے ہیں، […]

توجہ فرمائیں

زرمبش اردو

زرمبش آزادی کا راستہ

زرمبش اردو ، زرمبش براڈ کاسٹنگ کی طرف سے اردو زبان میں رپورٹس اور خبری شائع کرتا ہے۔ یہ خبریں تحریر، آڈیوز اور ویڈیوز کی شکل میں شائع کی جاتی ہیں۔

آسان مشاہدہ