
اسلام آباد میں بلوچ لاپتہ افراد اور بلوچ یکجہتی کمیٹی کے رہنماؤں کے لواحقین کے دھرنے کو 11 دن مکمل ہو گئے ہیں، مگر پاکستانی ریاست کی طرف سے منظم جبر اور رکاوٹوں کا سلسلہ بدستور جاری ہے۔
پریس کلب جانے والی سڑکیں بدستور بسوں، رکاوٹوں اور خاردار تاروں کے ذریعے بند ہیں۔ شدید گرمی کے باوجود مظاہرین کو دھرنے کے مقام پر کیمپ لگانے کی اجازت نہیں دی گئی، جس کے باعث بزرگ خواتین اور بچے روزانہ بے ہوش ہو رہے ہیں۔ اس کڑی صورتحال کے باوجود مظاہرین اپنے مطالبات پر ڈٹے ہوئے ہیں۔
مظاہرین کے مطابق اب ہراسانی میں مزید اضافہ ہو گیا ہے۔ انٹیلی جنس اداروں سے وابستہ اہلکار، اسلام آباد پولیس کی موجودگی میں، خاص طور پر نوجوان مرد مظاہرین کی پروفائلنگ کر رہے ہیں۔ وہ مظاہرین کی بغیر اجازت ویڈیوز بناتے ہیں، احتجاجی مقام پر منڈلاتے رہتے ہیں اور خاندانوں کا ان کے گھروں تک پیچھا کرتے ہیں تاکہ انہیں دھرنا ختم کرنے پر مجبور کیا جا سکے۔
مزید یہ کہ بوراک ڈیجیٹل سے تعلق رکھنے والے نمائندے، جو مظاہرین کے مطابق ریاستی اداروں کے بیانیے کو تقویت دیتے ہیں، دھرنے کے مقام پر پہنچے اور مظاہرین کے خلاف منفی پروپیگنڈے کی کوشش کی۔
بلوچ لاپتہ افراد کے خاندان اور بلوچ یکجہتی کمیٹی نے اعلان کیا ہے کہ وہ اپنے پرامن احتجاج سے پیچھے نہیں ہٹیں گے جب تک کہ جبری گمشدہ افراد کی بازیابی کے مطالبات پورے نہیں ہوتے۔