
تحریر: رامین بلوچ – دوسرا حصہ
آج بھی بلوچ گل زمین پر انسانی حقوق کی بدترین خلاف ورزیاں جاری ہیں۔ جبری گمشدگیاں، فرضی مقابلوں میں قتل، سیاسی آزادیوں پر پابندیاں،میڈیا پر قدغن، شہری آبادیوں کے خلاف فوجی آپریشن ایک معمول بن چکا ہے۔
بلوچ ایک مقبوضہ قوم ہیں، جنہوں نے ہمیشہ، آزادی اور استعماری قوتوں کے خلاف جدوجہد کی ہے۔ ایسے میں یہ بھی ضروری ہے کہ ہم اس مسئلے کو صرف مذہبی جذبات کے بجائے سیاسی، تاریخی اور قومی شعور کی بنیاد پر دیکھیں۔ ایران، جو کہ فلسطینی مزاحمت کا حامی ہونے کا دعویٰ کرتا ہے، خود بلوچستان میں جبر و استبداد کی علامت ہے۔ بلفرض اسرائیل اگر فلسطینی عوام کا دشمن ہے تو ایران بھی بلوچ قوم کی آزادی کا انکار کرنے والا ایک جابر ریاست ہے۔لہٰذا ہمارے لیے یہ ممکن نہیں کہ ہم صرف ایک سامراج کی مخالفت کریں اور دوسرے کو نظرانداز کریں۔ بحیثیت بلوچ، ہمیں مظلوم اقوام کے ساتھ یکجہتی رکھنی چاہیے، لیکن اپنے قومی مفادات، سیاسی بصیرت، اور استعماری تضادات کو مدنظر رکھتے ہوئے
مشرق وسطیٰ عشروں سے سیاسی، مذہبی اور جغرافیائی تنازعات کا مرکز رہا ہے۔ ایران اور اسرائیل کے درمیان حالیہ بڑھتی ہوئی کشیدگی نے اس خطے میں ایک نئی جنگی فضا کو جنم دیا ہے، جس میں مختلف علاقائی اور عالمی طاقتیں اپنے اپنے مفادات کے تحت شریک ہو رہی ہیں۔ اس کشمکش نے نہ صرف اسرائیل فلسطین تنازعے کو مزید پیچیدہ بنا دیا ہے بلکہ پوری دنیا کے امن کو بھی خطرے میں ڈال دیا ہے۔
ایران اور اسرائیل کے درمیان دشمنی کی جڑیں 1979ء کے خمینی انقلاب سے جا ملتی ہیں، جب ایران نے اسرائیل کو "غاصب ریاست” قرار دے کر اس کے وجود کو تسلیم کرنے سے انکار کر دیا۔ اس کے بعد سے ایران نے فلسطینی مزاحمتی تنظیموں، خاص طور پر حماس اور حزب اللہ، کی حمایت کی، جسے اسرائیل اپنی سلامتی کے لیے سنگین خطرہ سمجھتا ہے۔
حالیہ برسوں میں، جب اسرائیل نے ایران کی نیوکلیئر سرگرمیوں کو نشانہ بنانا شروع کیا اور ایران نے اس کے جواب میں مشرق وسطیٰ میں
اپنے اثرورسوخ کو بڑھایا، تو دونوں ریاستوں کے درمیان پراکسی وارز میں شدت آتی گئی۔ شام، لبنان، عراق اور یمن جیسے ممالک اس جنگی دائرے میں شامل ہوتے گئے۔ ایران کے پاسددران انقلاب کی موجودگی، اسرائیلی فضائی حملے، اور حزب اللہ کی موجودگی اس تنازعے کو براہ راست جنگ میں تبدیل کردیئے۔
ایران اور اسرائیل کی کشمکش صرف دو ریاستوں تک محدود نہیں رہی۔ اس میں چین، ترکی، شمالی کوریا، روس اور عرب ممالک جیسے سعودی
عرب، قطر اور متحدہ عرب امارات نے اپنے اپنے انداز میں پوزیشن اختیار کی ہے۔ جب کہ ترکی چین اور روس، ایران کے سیاسی و دفاعی اتحادیوں کے طور پر ابھرے
دوسری جانب امریکہ اگرچہ بظاہر ایک ثالث کی حیثیت سے خود کو پیش کرتا ہے، لیکن اس کی طویل عرصے سے اسرائیل کی فوجی و مالی امداد اور اقوام متحدہ میں اس کے حق میں ووٹنگ، اس کے کردار کو جانبدار بناتی ہے۔ امریکہ کی اس یکطرفہ حمایت نے مشرق وسطیٰ کے دیگر ممالک میں اشتعال انگیزی پیدا کی، جس کا فائدہ ایران نے اٹھایا اور خود کو فلسطینی مزاحمت کا علمبردار بنا کر عرب عوام کی حمایت حاصل کی۔
ایران، حزب اللہ، شام، اردن اور مصر کا اس تنازعے میں ملوث ہونا دراصل فلسطینی عوام کی حمایت میں ایک علامتی اور عسکری اظہار ہے، لیکن یہ اظہار مشرق وسطیٰ میں ایک مکمل جنگ کی شکل بھی اختیار کرچکی ہیں ۔ حزب اللہ جیسی تنظیمیں اسرائیل کے خلاف سرحدی حملے کرتی ہیں، جس کے جواب میں اسرائیل لبنان یا شام میں بمباری کرتا ہے، یوں جنگ کی آگ مزید بھڑک اٹھتی ہے۔
مشرق وسطیٰ کا علاقہ، بالخصوص فلسطین، دنیا کے قدیم ترین اور مقدس ترین خطوں میں شمار ہوتا ہے۔ اس خطہ زمین کو مختلف اقوام، مذاہب، تہذیبوں اور سلطنتوں نے نہ صرف تاریخی طور پر آباد کیا ہے بلکہ روحانی مرکز کے طور پر بھی تسلیم کیا ہے۔ آج جب ہم فلسطین کے مسئلے کو صرف ایک قوم یا مذہب کے تناظر میں دیکھتے ہیں، چاہے وہ عرب فلسطینی ہوں یا یہودی اسرائیلی — تو ہم اس خطے کی گہرائیوں میں پیوست تاریخی اور تہذیبی تنوع سے نظریں چرا رہے ہوتے ہیں۔
قدیم زمانے میں فلسطین کنعانیوں کا علاقہ تھا۔ بعد ازاں یہاں عبرانی قوم آباد ہوئی جس نے یروشلم کو اپنا روحانی و سیاسی مرکز بنایا۔ حضرت داؤدؑ اور حضرت سلیمانؑ کی سلطنتیں اسی خطے میں قائم ہوئیں، اور ہیکلِ سلیمانی اس دور کی عظیم روحانی و تمدنی علامت تھی۔ بعد ازاں رومی سلطنت، بازنطینی عہد اور پھر اسلامی قبضہ گیریت کے نتیجے میں فلسطین کی شناخت میں مزید تہذیبی پرتیں جڑتی چلی گئیں۔
جب حضرت عیسیٰؑ کی تعلیمات یہاں پھیلیں تو فلسطین، بالخصوص یروشلم، عیسائیت کا مرکز بن گیا۔ بعد ازاں ساتویں صدی میں خلافت راشدہ کے دور میں حضرت عمرؓ نے بیت المقدس کو فتح کیا اور اس خطے میں اسلام کا غلبہ ہوا۔ تب سے آج تک مسلمان اسے نہ صرف قبلہ اول بلکہ ایک روحانی میراث کی حیثیت سے تسلیم کرتے ہیں۔
یروشلم کی گلیاں یہودیوں، عیسائیوں اور مسلمانوں،تینوں ابراہیمی مذاہب،کے لیے مقدس ہیں۔ یہاں مسجد الاقصیٰ، چرچ آف دی ہولی سپلکر، اور ویسٹرن وال جیسی عبادت گاہیں موجود ہیں۔ ان تینوں مذاہب کے پیروکار اس شہر کو اپنے روحانی تشخص کا مرکز مانتے ہیں۔ اس لحاظ سے یروشلم کو صرف ایک قوم یا مذہب کا مرکز قرار دینا تاریخی و فکری طور پر محدودیت کا مظہر ہے۔
1948 میں اسرائیل کے قیام کے بعد سے فلسطین کا مسئلہ اقوامِ عالم کی نظروں میں ایک متنازع سیاسی مسئلہ بن گیا۔ عرب دنیا نے اسرائیل کے قیام کو ناجائز اور استعماری منصوبہ قرار دیا، جب کہ یہودیوں نے اسے اپنے تاریخی وطن کی بازیابی سے تعبیر کیا۔ نتیجتاً، لاکھوں فلسطینی اپنے
گھروں سے بے دخل ہوئے، جب کہ اسرائیل نے رفتہ رفتہ اپنے اثر و رسوخ کو پورے خطے پر پھیلایا۔
یہاں ایک بنیادی سوال ابھرتا ہے: کیا ہم فلسطین کو صرف ایک سیاسی یا قومی مسئلے کے طور پر دیکھ سکتے ہیں؟ یا ہمیں اس کی تاریخی، مذہبی، تہذیبی اور انسانی جہات کو بھی تسلیم کرنا ہوگا؟
یہ کہنا کہ فلسطین صرف عربوں کا وطن ہے یا اسرائیل صرف ایک قابض ریاست ہے، تاریخی لحاظ سے جزوی سچائی کو پیش کرتا ہے۔ فلسطین ایک ایسا خطہ ہے جہاں مختلف اقوام اور مذاہب نے صدیوں تک نہ صرف زندگی گزاری بلکہ ایک دوسرے کے ساتھ تہذیبی مکالمہ بھی قائم رکھا۔ یہ زمین صرف قوموں کی ملکیت نہیں بلکہ انسانیت کا مشترکہ ورثہ ہے۔ہمیں فلسطین کو ایک "تاریخی تہذیبی ورثہ” کے طور پر دیکھنا ہوگا، نہ کہ صرف ایک متنازع جغرافیائی خطہ کے، اس کے تمام باشندوں،یہودی،، عیسائی، عرب کے تاریخی، تہذیبی اور روحانی دعوؤں کو سنجیدگی سے سمجھنا ہوگا۔ اسی صورت میں عرب فلسطینی اور یہودی اسرائیلی نفرت، انتقام اور سیاسی مفادات کے بجائے انصاف، مکالمے اور بقائے باہمی کی راہ پر چل سکتے ہیں۔
اسرائیل-فلسطین تنازعہ دنیا کے قدیم ترین اور پیچیدہ سیاسی و مذہبی تنازعات میں سے ایک ہے، جو صدیوں پر محیط تاریخی، مذہبی، نسلی اور جغرافیائی عوامل کا نتیجہ ہے۔ اس تنازعے کا مرکزی نکتہ زمین یعنی "فلسطین” ہے، جسے یہودی، مسلمان اور عیسائی تینوں مذاہب کے لوگ مقدس مانتے ہیں۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا فلسطین صرف یہودیوں کا وطن ہے، صرف عربوں کا، یا دونوں کا حق تسلیم کیا جا سکتا ہے؟
فلسطین ایک قدیم علاقہ ہے جو مشرق وسطیٰ میں واقع ہے، اور ہزاروں سال سے مختلف قوموں، سلطنتوں اور مذاہب کا مرکز رہا ہے۔
قدیم تاریخ: عبرانی (یہودی))روایات کے مطابق یہ خطہ حضرت ابراہیم، حضرت اسحٰق، حضرت یعقوب اور ان کی نسلوں کا مسکن رہا ہے۔ تقریباً 1000 قبل مسیح میں یہاں یہودیوں کی سلطنت قائم ہوئی، جو بعد میں بابل اور رومی سلطنتوں کے تحت آگئی۔ 70ء میں رومیوں نے یہودیوں کو فلسطین سے نکال دیا، جس کے بعد وہ دنیا بھر میں منتشر ہو گئے۔
7ویں صدی میں عربوں نے نے اس خطہ پر قبضہ کرلیا کیا اور یروشلم کو اسلامی خلافت میں شامل کر لیا۔ اس کے بعد یہاں عرب، عیسائی اور یہودی آبادی صدیوں تک مشترکہ طور پر آباد رہی، تاہم اکثریت عربوں کی رہی۔
(1917–1948): پہلی جنگ عظیم کے بعد برطانیہ نے فلسطین پر قبضہ کر لیا۔ 1917 میں اعلان بالفور کے ذریعے برطانوی حکومت نے فلسطین میں یہودی قومی وطن کے قیام کی حمایت کی، جس سے عرب آبادی میں بے چینی پھیل گئی۔
1947–1948: اقوام متحدہ نے فلسطین کو دو ریاستوں (یہودی اور عرب))میں تقسیم کرنے کی تجویز دی۔ یہودیوں نے اسے قبول کیا، لیکن عربوں نے مسترد کر دیا۔ 1948 میں اسرائیل کی قیام کے بعد عرب ممالک نے حملہ کیا،
اب تاریخی حقائق کو دیکھ لیں تو فلسطین یہودی اور عرب دونوں کا وطن ہے یہ موقف اگرچہ سیاسی اور تاریخی لحاظ سے انتہائی حساس ہے۔ اس کا جواب مختلف نقطہ نظر سے دیکھا جا سکتا ہے: