بلوچ سماج پر نوآبادیاتی ذہنیت کے پینترے اور ہتھکنڈے

تحریر: رامین بلوچ (پہلا حصہ)

بلوچ وطن میں شال سے متصل نواحی علاقہ، ڈغاری سے حالیہ دنوں سامنے آنے والی ایک ویڈیو نے پورے بلوچ سماج کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا ہے۔ چھپن سیکنڈ کی یہ ویڈیو سوشل میڈیا پر وائرل ہوئی جس میں دیکھا جا سکتا ہے کہ ایک بلوچ نوجوان اور لڑکی کو ہجوم کے سامنے انتہائی بے دردی سے گولیوں کا نشانہ بنایا جا رہا ہے۔مقتولین کی شناخت احسان سمالانی بلوچ اور گودی بانو بلوچ کے نام سے ہوئی ہے، جنہوں نے ڈیڑھ سال قبل پسند کی شادی کی تھی۔ ویڈیو کا سب سے دل دہلا دینے والا منظر یہ ہے کہ مقتولہ بانو نے قرآن پاک اُٹھا کر قاتلوں کے سامنے پیش ہوتے ہوئے کہا:”صرف گولی مارنے کا حق ہے، بس سات قدم ساتھ چلو، پھر مار دینا“ جواب میں اسے بھی گولیوں کا نشانہ بنا دیا گیا۔
یہ واقعہ اگرچہ عیدالاضحیٰ سے کچھ روز قبل پیش آیا، مگر ویڈیو منظرِ عام پر آنے کے بعد اس نے کئی سوالات کو جنم دیا ہے
ذرائع کے مطابق اس واقعے کے مرکزی ملزمان جلال ولد بار جان ساتکزئی، نصیر ساتکزئی اور جاڑو ساتکزئی ہیں۔ ان میں سے جلال خان کا تعلق ریاستی ڈیتھ اسکواڈ سے بتایا جاتا ہے، جو ایک نجی ملیشیا کے طور پر کام کرتا ہے اور جنہیں ایف سی کے کرنل نے باقاعدہ اسلحہ فراہم کیا۔ یہی وجہ ہے کہ واقعے کے بعد نہ ان کے خلاف کوئی ایف آئی آر درج ہوئی، نہ گرفتاری عمل میں آئی۔

بلوچ تاریخ کے اوراق پر جب ہم بلوچ قوم کے تہذیبی، فکری اور انقلابی ورثے کا مطالعہ کرتے ہیں تو ایک بات روزِ روشن کی طرح عیاں ہو جاتی ہے کہ بلوچ سماج اپنی اصل میں محبت، رواداری، مہمان نوازی اور فطری آزادی کا علمبردار رہا ہے۔ بلوچ قوم نے صدیوں تک اپنی سرزمین پر اپنی روایات، اپنی ثقافت اور اپنے تہذیبی نظم کو قائم رکھا، مگر سامراجی جارحیت نے اس تسلسل کو توڑنے کے لیے مختلف حربے استعمال کیے۔ ان میں سب سے خطرناک حربہ یہ تھا کہ بلوچ سماج میں ایسی فرسودہ رسومات اور اقدار کی آمیزش کی جائے جو نہ صرف سماجی انتشار کا باعث بنیں بلکہ قوم کو اندر سے کھوکھلا بھی کریں۔

غیرت کے نام پر قتل، جسے آج بعض حلقے بلوچ سماج کا "کوڈ آف اونر” قرار دیتے ہیں، درحقیقت نوآبادیاتی عفریت کی پیدا کردہ وہ گمراہ کن روایت ہے جس کا بلوچ تاریخ، بلوچ نیشنلزم اور بلوچ تہذیب سے کوئی تعلق نہیں۔ بلوچ قبائلی دستور میں "سیاہ کاری” کا جو تصور آج رائج کر دیا گیا ہے، اس کی جڑیں دراصل سامراجی و ملائی ذہنیت میں ہیں۔ انگریز و پنجابی سامراج نے جب بلوچستان کو اپنی نوآبادی بنایا تو صرف زمینی قبضہ کافی نہیں تھا، بلکہ بلوچ شعور پر بھی قابض ہونا ان کی ضرورت بن گیا۔ اس کے لیے انہوں نے مذہبی انتہا پسندی، ملائیت اور قبیلہ جاتی جھگڑوں کو ہوا دی۔ بلوچ سماج میں کچھ طبقوں کو خرید کر، ان کے ذریعے ایسی فرسودہ رسموں کو بلوچ سماج میں "غیرت” کے نام پر داخل کیا گیا جو اس سے قبل بلوچ تہذیب میں موجود نہیں تھیں۔

بلوچ، جس نے ہمیشہ محبت کو اوّلیت دی، جس نے اپنی سرزمین پر کبھی کسی اقلیت کو تنگ نہیں کیا، آج اس کے معاشرے میں برادر کشی، عورتوں پر جبر، اور غیرت کے نام پر قتل جیسے ناسور سامراجی سازش کے تحت پروان چڑھائے جا رہے ہیں۔ یہ بلوچ قوم کی فطرت نہیں بلکہ اس پر مسلط کردہ بیماری ہے۔ سامراج نے جب دیکھا کہ بلوچ جنگجو، مہمان نواز، محبت پرست اور آزادی پسند ہے، تو انہوں نے ان کے ذہنوں میں مذہبی انتہاپسندی، قبیلہ پرستی اور انفرادی دشمنیوں کے بیج بوئے تاکہ قوم اپنی اجتماعی حریت کی جدوجہد کو بھول کر آپس میں الجھ جائے۔بلوچ قوم کی تاریخ میں "حملہ آور ہونا” اس کے مزاج کا حصہ نہیں رہا۔ بلوچ نے ہمیشہ دفاع کیا ہے، اپنی سرزمین کی حفاظت کی ہے، مگر کبھی جارحیت کی ابتدا نہیں کی۔ یہی وجہ ہے کہ بلوچ قوم دوستی ایک پرامن مزاحمت کی علامت رہی ہے، نہ کہ جبری اقدار اور فرسودہ روایات کی۔
تاریخ کے صفحات پر جب بھی نوآبادیاتی جبر، مذہبی جنونیت، اور سماجی رجعت پرستی کا مطالعہ کیا جائے گا تو بلوچ قوم کی کہانی ان سیاہ سطور میں ضرور لکھی جائے گی جہاں مزاحمت، محبت، سیکولر سوچ اور انسانیت دوستی کو منظم طریقے سے کچلنے کی سازشیں رچائی گئیں۔
بلوچ سرزمین پر "غیرت کے نام پر قتل” محض چند افراد کا قتل نہیں، یہ دراصل ایک تہذیبی نسل کشی ہے۔ یہ بلوچ قوم کی سیکولر اور روادار سماجی روح کے خلاف جاری ایک منظم جارحیت ہے جسے مقامی سردار، میر، معتبر، ملاء اور ریاستی مشینری مل کر انجام دیتے ہیں تاکہ دنیا کو یہ جھوٹا تاثر دیا جائے کہ بلوچ معاشرہ قبائلی، دقیانوسی اور عورت دشمن ہے۔

اگر بلوچ تاریخ کے اوراق پلٹے جائیں تو واضح ہوتا ہے کہ سیاہ کاری یا غیرت کے نام پر قتل کی کوئی قدیم روایت بلوچ معاشرے میں موجود نہیں تھی۔بلوچ تہذیب کی بنیاد مہر، مہمان نوازی، عورت کی عزت، اور شخصی آزادی پر رکھی گئی تھی۔لیکن جب نوآبادیاتی قوتوں نے بلوچ خطے میں اپنا پنجہ گاڑا، تو انہیں ایک ایسی سماجی زنجیر کی ضرورت تھی جو قوم کو اندر سے بانٹ دے، ان کی سیکولر اور انسان دوست اقدار کو مسخ کرے اور بلوچ سماج کو دنیا کے سامنے وحشی اور پسماندہ بنا کر پیش کرے۔یوں ریاستی سرپرستی میں ملائیت اور قبائلیت کا گٹھ جوڑ تشکیل دیا گیا۔آج جو غیرت کے نام پر قتل کے واقعات ہوتے ہیں، ان کے پیچھے محض سماجی نفسیات نہیں بلکہ سیاسی مفادات اور ریاستی سازشیں کارفرما ہیں۔ان سرداروں، میروں اور معتبرین کی سرپرستی میں یہ سلسلہ جاری ہے جو قابض ریاست کے مفادات کے محافظ ہیں۔یہ لوگ ریاست کے آلہ کار بن کر، ایک طرف بلوچ مزاحمت کو کمزور کرتے ہیں اور دوسری طرف اپنی گماشتگی اور دلالی کومضبوط بناتے ہیں۔
بلوچ عورت کو غلام بنانے، نوجوانوں کو خوف زدہ رکھنے اور محبت جیسے فطری جذبے کو جرم قرار دینے کا عمل دراصل ایک سیاسی ہتھیار ہے۔
یہ قتل محض جسموں کا نہیں، فکر کا ہے۔یہ قتل کسی ایک لڑکی یا لڑکے کا نہیں، یہ محبت کے حق، فرد کی آزادی، اور مزاحمت کے شعور کا قتل ہے۔
یہ بلوچ تاریخ کی اس سنہری روایت کا قتل ہے جس میں عورت کو جنگ کے میدانوں میں بھی سپہ سالاروں کے ساتھ برابری سے کھڑا دیکھا گیا۔یہ بلوچ مہر پرستی، سیکولر طرزِ زندگی، اور فطری انسانی محبت کے خلاف بغاوت ہے جو قابض اور اس کے مقامی ایجنٹ انجام دے رہے
ہیں۔یہ قتل، غلامی کے بیانیے کو تقویت دینے کے لیے کیا جاتا ہے تاکہ دنیا بلوچ قوم کو پسماندہ، دقیانوسی اور جنگلی سمجھے۔

فلسفیوں نے "غیرت” کو ہمیشہ فرد کی عزتِ نفس، آزادی انسانی وقار اور برابری سے جوڑا ہے،جبکہ آج اسے سماجی قتل کے ہتھیار کے طور پر استعمال کیا جا رہا ہے۔یہ "غیرت” دراصل ایک کالونیئل کنسٹرکٹ ہے، جسے قابض طاقتوں نے اپنے مقامی ایجنٹوں کے ذریعے بلوچ سماج پر مسلط کیا ہے۔یہ وہ "غیرت” نہیں جو ایک مقبوضہ قوم کے باوقار اور آزاد مستقبل کے لیے ہو، بلکہ یہ وہ "غیرت” ہے جو مقبوضہ کو مزید غلام بنانے کے لیے ایجاد کی گئی ہے۔یہ جرم فرد کا نہیں، بلوچ سماج کا سانحہ ہے۔یہ قتل صرف جسموں کے نہیں ہوتے، یہ بلوچ قوم کے مزاحمتی مزاج، سیکولر شناخت، اور تہذیبی تسلسل کا قتل ہیں۔یہ جرم، سردار اور ریاست کے اس گٹھ جوڑ کا حصہ ہے جس کا مقصد بلوچ قوم کے نظریاتی شعور کو مفلوج کرنا ہے۔
بلوچ قومی تاریخ کے اوراق کو جب ہم ایک نوآبادیاتی عدسے کے بجائے اپنی تہذیب کی آنکھ سے دیکھتے ہیں تو وہاں ہمیں عورت محض کمزور، محکوم یا زیرِ دست مخلوق نظر نہیں آتی، بلکہ وہ زندگی کی تخلیق، بقا اور مزاحمت کی علامت بن کر ابھرتی ہے۔ خاص طور پر بلوچ سماج میں عورت کا مقام کوئی روایتی مردانہ بیانیہ نہیں، بلکہ ایک ایسا انقلابی وجود ہے جو تمدن، تاریخ، ثقافت اور روحانیت کی اساس رکھتی ہے۔ز
بلوچ سماج کی قدیم تاریخ، جیسا کہ مہرگڑھ کی تہذیب میں دیکھنے کو ملتا ہے، عورت کو تخلیق کی علامت اور معاشرتی نظام کی بنیاد کے طور پر پیش کرتی ہے۔ ہزاروں مٹی کے ٹیلے، جن سے برآمد ہونے والی عورت کی مورتیاں اس بات کی گواہی دیتی ہیں کہ بلوچ سماج میں عورت محض ایک فرد نہیں بلکہ ایک مقدس روایت، ایک روحانی مرکز اور ایک سماجی ستون ہے۔
قدیم بلوچ مدر سری نظام میں خاندان کی سربراہی عورت کے پاس تھی۔ یہ حقیقت سامراجی تاریخ نگاری کے اس جھوٹے بیانیے کو رد کرتی ہے جو عورت کو ہمیشہ پسماندہ دکھانے کی کوشش کرتا ہے۔ بلوچ تہذیب میں عورت کو "گل زمین” اور "وطن” سے تشبیہ دینا محض شعری استعارہ نہیں، بلکہ ایک فکری اور فلسفیانہ حقیقت ہے۔ جس طرح زمین زندگی کو جنم دیتی ہے، اسی طرح عورت تمدن کو تخلیق کرتی ہے۔

بلوچ روایتی ضابطہ اخلاق میں عورت کی عزت و حرمت کو سب سے بلند مقام حاصل ہے۔ "بلوچیت” کا تصور غیرت کے نام پر قتل میں نہیں بلکہ عورت کے احترام میں مضمر ہے۔ بلوچ مرد کے لیے سب سے بڑا جرم وہ ہے جو عورت کے تقدس کو پامال کرے۔ یہی وجہ ہے کہ بلوچ کوڈ آف اونر میں عورت کو نقصان پہنچانا ناقابلِ معافی گناہ سمجھا جاتا رہا ہے
تاریخ کے مروجہ بیانیے میں جہاں مرد کو ہمیشہ طاقت، حکمرانی اور مذہب کا مرکز دکھایا گیا ہے، بلوچ سماج کے ابتدائی ادوار میں عورت کو معبود کے طور پر مانا جاتا تھا۔ قدیم مورتیاں، جنہیں سامراجی مورخین نے محض "پریتھوی ماتا” یا "زرخیزی کی دیوی” کے عنوانات دے کر نظرانداز کیا، دراصل بلوچ قوم کی ان روایات کا حصہ ہیں جو عورت کو روحانی و تخلیقی معراج پر فائز کرتی تھیں۔
یہ مورتیاں ہمیں بتاتی ہیں کہ بلوچ عورت تاریخ کے کسی گوشے میں کمزور یا محکوم نہیں رہی، بلکہ وہ قوتِ تخلیق، عقل، دانائی اور قیادت کی علامت رہی ہے

مدیر

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Next Post

بلوچستان کا ننگا سچ

پیر جولائی 21 , 2025
تحریر: عزیز سنگھور ـ زرمبش مضمون بلوچستان کی سرزمین ایک بار پھر خون میں نہلا دی گئی۔ بلوچستان کے دارالحکومت کوئٹہ کے نواحی علاقے سنجیدی ڈیگاری مارگٹ میں 3 جون 2025 کو ایک لڑکی اور لڑکے کو غیرت کے نام پر سرعام گولیاں مار کر قتل کر دیا گیا۔ یہ […]

توجہ فرمائیں

زرمبش اردو

زرمبش آزادی کا راستہ

زرمبش اردو ، زرمبش براڈ کاسٹنگ کی طرف سے اردو زبان میں رپورٹس اور خبری شائع کرتا ہے۔ یہ خبریں تحریر، آڈیوز اور ویڈیوز کی شکل میں شائع کی جاتی ہیں۔

آسان مشاہدہ