
تحریر: سوبین بلوچ زرمبش مضمون
بلوچ وطن کی سرزمین ایک بار پھر اپنے عظیم سپوتوں کے لہو سے سرخ ہو گئی ہے۔ یہ سرزمین صدیوں سے ظلم، جبر اور استعمار کے خلاف مزاحمت کی علامت رہی ہے۔ 22 جون 2025 کو گریشہ میں شہید ہونے والے بلوچستان لبریشن فرنٹ کے تین سرمچاروں کی قربانی نے اس روایت کو مزید تابندہ کر دیا ہے۔ یہ صرف ایک جھڑپ نہ تھی، بلکہ ایک عہد، ایک داستان اور ایک نئی تاریخ تھی جو ان شہداء کے لہو سے رقم ہوئی۔
ریاستی سرپرستی میں قائم ڈیتھ اسکواڈ کے خلاف لڑتے ہوئے شہید ہونے والے مقبول بلوچ عرف قندیل بلوچ، سراج بلوچ عرف زبیر بلوچ اور خالد بلوچ عرف سفر بلوچ بلوچ نوجوان نسل کی وہ علامتیں ہیں جو کتابیں چھوڑ کر بندوق تھامنے پر مجبور ہوئے — اس لیے نہیں کہ انہیں جنگ پسند تھی، بلکہ اس لیے کہ ان کی سرزمین پر امن کے تمام راستے بند کر دیے گئے تھے۔
مقبول بلوچ کا شمار ان نوجوانوں میں ہوتا ہے جنہوں نے جدید تعلیم حاصل کی، شعور کی آنکھ کھولی، مگر ریاستی جبر کی دیوار سے ٹکرا کر بغاوت کا راستہ اپنایا۔ نیشنل یونیورسٹی آف ماڈرن لینگویجز (نمل)، اسلام آباد سے فارغ التحصیل یہ نوجوان 2021 میں جبری گمشدگی کا شکار ہوا۔ ریاستی عقوبت خانوں میں سات ماہ گزارنے کے بعد وہ جسمانی طور پر تو رہا ہو گیا، مگر ذہنی و فکری طور پر وہ اب آزاد نہ تھا — وہ بغاوت کی راہ پر گامزن ہو چکا تھا۔
بلوچستان لبریشن فرنٹ میں شمولیت کے بعد مقبول نے قلیل وقت میں جس جرات، نظم و ضبط اور عسکری صلاحیت کا مظاہرہ کیا، اس نے اسے ایک نظریاتی جنگجو بنا دیا۔ وہ "قربان یونٹ” کا حصہ بنا — ایک ایسا یونٹ جسے صرف وہی سرمچار سونپا جاتا ہے جو غیر معمولی بصیرت اور اعتماد کا حامل ہو۔ مقبول نے کیلکور، گچک، مشکے اور گریشہ سمیت کئی محاذوں پر دشمن کو للکارا، اور بالآخر اپنے آبائی علاقے میں شہادت کا عظیم رتبہ پایا۔
سراج بلوچ اور خالد بلوچ — دونوں کا تعلق گریشہ سے تھا، دونوں 2020 میں جبری گمشدگی کا شکار بنے، اور دونوں نے رہائی کے بعد آزادی کی جدوجہد کو اپنی زندگی کا مقصد بنا لیا۔ ان کا راستہ آسان نہ تھا۔ مگر ظلم کے زخم، زندانوں کی تاریکیاں اور اپنوں کی چیخیں انہیں کسی اور ہی دنیا کا باشندہ بنا چکی تھیں۔
سراج نے حساس عسکری مشنز میں شرکت کی، جبکہ خالد نے جھاؤ، نال اور اورناچ کے سنگلاخ پہاڑوں میں دشمن کو للکارا۔ وہ صرف جنگجو نہ تھے — وہ نظریاتی محافظ تھے، ایک ایسی نسل کا حصہ جو بندوق سے پہلے نظریے پر یقین رکھتی ہے، اور گولی سے پہلے قلم کو عزت دیتی ہے۔ مگر جب قلم توڑ دیے گئے اور زبانیں کاٹ دی گئیں، تب ان کے ہاتھوں میں بارود آیا۔
یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ گریشہ کی یہ جھڑپ محض ایک عسکری واقعہ نہ تھی بلکہ بلوچ قومی تحریک کے تسلسل کا مظہر تھی۔ تین نوجوان، تین نظریات، تین خواب — جو اب قوم کی اجتماعی یادداشت کا حصہ بن چکے ہیں۔ ان کا خون خاموش نہیں رہے گا۔ وہ چراغ جو انہوں نے اپنے لہو سے جلائے ہیں، وہ اب صدیوں تک روشنی دیتے رہیں گے۔
بلوچستان میں پیدا ہونے والا ہر باشعور نوجوان اب اس حقیقت سے آگاہ ہے کہ ریاستی جبر کا مقابلہ صرف بیانیے سے نہیں، عمل سے بھی کرنا ہوگا۔ شہداءِ گریشہ نے یہ پیغام دیا ہے کہ آزادی کوئی خیالی تصور نہیں، بلکہ ایک ایسی حقیقت ہے جو قیمت مانگتی ہے — اور یہ قیمت خون، قربانی اور استقامت ہے۔
شہداء کی یہ قربانیاں آنے والے وقتوں میں بلوچ نوجوانوں کے لیے مشعلِ راہ بنیں گی۔ یہ محض تین افراد کی شہادت نہیں، بلکہ ایک پوری نسل کا اعلان ہے کہ ہم زندہ ہیں، بیدار ہیں، اور اپنے وطن پر قبضہ برداشت نہیں کریں گے۔
بلوچستان لبریشن فرنٹ کے یہ تین سرمچار اب صرف ایک تنظیم کا حصہ نہیں، بلکہ بلوچ قومی تاریخ کا ایک اٹوٹ باب بن چکے ہیں۔ ان کی قبریں ہمارے دلوں میں ہیں، اور ان کے خواب ہماری آنکھوں میں۔ ان کی گونج ان وادیوں میں سنائی دیتی رہے گی جہاں مزاحمت نے جنم لیا، اور جہاں سے آزادی کا سورج طلوع ہوگا۔