ادب اور مزاحمت

تحریر: ڈاکٹر جلال بلوچ
زرمبش مضمون

ادب محض تخیل کا اظہار نہیں بلکہ ایک زندہ، معاشرتی، تہذیبی اور سیاسی مظہر ہے جو قوموں کی تاریخ میں اہم کردار ادا کرتا ہے۔ اگر آزادی کی تحریکوں کا جائزہ لیا جائے تو ان میں ادب کا کردار صرف شاعری یا انقلابی نعروں تک محدود نہیں ہوتا، بلکہ یہ شعور کی بیداری، مزاحمت کے جواز، اجتماعی شناخت کی تعمیر اور نوآبادیاتی بیانیے کی تردید کا مؤثر ذریعہ بھی بنتا ہے۔ ادب کی اسی اہمیت کی وجہ سے جب بھی کسی قوم نے غلامی سے نجات کے لیے جدوجہد کی، وہاں ادب نے اس جدوجہد کو زبان، علامت، جذبہ اور فکر عطا کی۔ اسی عمل کے نتیجے میں قوموں کے دلوں میں آزادی کی تڑپ جاگ اٹھی اور انہوں نے ایک نیا بیانیہ تخلیق کیا، جس کی روشنی میں وہ جبر و استحصال کے خلاف اٹھ کھڑے ہوئے۔

زمانۂ طالب علمی میں ہم بائیں بازو کے نظریات سے متاثر تھے، اسی لیے اکثر دوست ہمیں ان تحریکوں کے ادب کے مطالعے کا مشورہ دیا کرتے تھے۔ ان کا یہ مؤقف بجا تھا کہ وہ تحریکیں ادبی حوالے سے نہایت زرخیز تھیں، بالخصوص سویت ادب؛ کیونکہ دیگر تحریکیں، ہماری طرح، سویت انقلاب سے خاصی متاثر تھیں۔ سویت ادب کی یہی زرخیزی دنیا بھر کے آزادی پسندوں کے لیے باعثِ کشش بنی۔ یہی وجہ ہے کہ ہم کہہ سکتے ہیں کہ سویت یونین کی مثال اس ضمن میں نہایت اہم ہے۔ زار شاہی کے خلاف انقلابی تحریک میں ادب نے کلیدی کردار ادا کیا۔ اس انقلاب نے دنیا کی مظلوم اقوام کو حوصلہ دیا۔ اس تحریک میں ادب کا کردار محض ترغیب یا تشہیر تک محدود نہ تھا بلکہ اس نے فکری، نظریاتی اور انقلابی شعور پیدا کیا۔

میکسم گورکی، مایاکووسکی، ٹالسٹائی، میخائل شولوخوف اور ولادیمیر لینن جیسے ادیبوں اور شاعروں نے انقلاب کی زبان کو عوامی بنایا، جس کے نتیجے میں عام لوگ بھی اس تحریک کا حصہ بنتے چلے گئے۔
اسی طرح چین، ویتنام، کیوبا، افریقہ اور ہندوستان کی تحریکِ آزادی میں بھی ادیبوں نے گراں قدر خدمات سرانجام دیں۔ وہ اس بات سے بخوبی آگاہ تھے کہ نظریاتی جدوجہد صرف ہتھیاروں سے نہیں بلکہ الفاظ سے بھی کی جاتی ہے۔ انقلابی شاعری، کہانیاں اور ڈرامے عوام کے شعور میں انقلاب کی آگ بھڑکاتے رہے، جس کے باعث ان تحریکوں کی مقبولیت آسمان کو چھونے لگی۔

ادب کا ایک بڑا کارنامہ یہ بھی رہا کہ اس نے آزادی کی تحریکوں کو جذباتی اور فکری توانائی فراہم کی۔ ادیبوں نے قومی شناخت کو ابھارا، غلامی کے خلاف مزاحمت کو زبان دی اور ایک ایسا بیانیہ تشکیل دیا جو نوآبادیاتی طاقتوں اور استعماری قوتوں کے بیانیے کو شکست دے سکے۔ یوں ادب مظلوموں کا ہتھیار بن گیا۔ اس نے شعور کو بیدار کیا، مایوسی کو امید میں بدلا اور بغاوت کو جواز عطا کیا۔ ادب کی سب سے بڑی خوبی یہ ہے کہ یہ دلوں میں اترتا ہے اور انسان کو اندر سے بدل دیتا ہے۔ جب کوئی نظم، افسانہ یا ناول عوامی سطح پر مقبول ہو جاتا ہے، تو وہ فرد کو ایک بڑے اجتماعی شعور سے جوڑ دیتا ہے۔ یہی شعور آزادی کی تحریکوں کا ایندھن بن جاتا ہے۔

آزادی کی تحریکوں میں ادب محض وقتی جوش دلانے کا ذریعہ نہیں بلکہ ایک طویل المیعاد فکری انقلاب کی بنیاد رکھنے کا کام کرتا ہے۔ ادب نہ صرف جابر حکمرانوں اور سامراجی قوتوں کو للکارنے کا عملی اظہار ہے، بلکہ آزادی کے بعد کی تعمیرِ نو کے لیے بھی ایک وژن مہیا کرتا ہے۔ جن قوموں نے اپنے ادیبوں کی بات سنی اور ان کے ادب کو قومی شعور کا حصہ بنایا، وہ اپنی شناخت کو کبھی مٹنے نہیں دیں اور ترقی کی راہ پر گامزن ہوئیں۔ یہی ادب ہے جس نے بتدریج ایک ایسے عالمی مزاحمتی اور انقلابی ادب کو جنم دیا جو آج بھی دنیا بھر میں استحصال، غلامی، سامراج اور جبر کے خلاف آواز بلند کرتا ہے، جیسے میکسم گورکی کا شہرۂ آفاق ناول "ماں” اور فرانز فینن کی تصنیف "افتادگانِ خاک”۔

یوں کہا جا سکتا ہے کہ ادب آزادی کی تحریکوں کا خاموش مگر سب سے گہرا ہتھیار رہا ہے۔ یہ ایک ایسا فکری اور جذباتی محاذ ہے جسے آتشی ہتھیار بھی شکست نہیں دے سکتے۔ یہی وجہ ہے کہ سامراجی قوتوں نے ہمیشہ ادیبوں کو قید کیا، ان کا لہو بہایا، ان کی کتابیں جلائیں اور ان پر پابندیاں لگائیں، کیونکہ وہ جانتے تھے کہ لفظوں کی طاقت سب سے زیادہ خطرناک ہوتی ہے۔ جب الفاظ عوام کے دلوں میں اتر جائیں، تو کوئی طاقت انہیں آزادی کی راہ پر گامزن ہونے سے روک نہیں سکتی۔
برطانوی دور میں جب بلوچستان میں سیاسی تحریکیں ابھرنا شروع ہوئیں، تو ان کے قائدین نے ادب کی جانب بھی توجہ دینا شروع کی۔ سب سے پہلے غالباً ’’البلوچ‘‘ کے نام سے ایک اخبار کا اجراء ہوا، جس میں میر عبدالعزیز کرد اور یوسف عزیز مگسی جیسے بلند پایہ قائدین کے مضامین شائع ہوتے تھے۔ اس کے بعد ینگ بلوچ، ترجمانِ بلوچ، اتحادِ بلوچاں، کلمۃ الحق، آفتاب، نجات، جدید بلوچستان، بولان، عزیزیہ، اور ہفت روزہ استقلال کے نام سے رسائل، اخبارات اور صحیفے شائع ہونے لگے۔

جب انقلابی لکھنا شروع کرتے ہیں تو ان کی یہ ادبی جدوجہد سماج میں ایک نئی سوچ کو جنم دیتی ہے، ایک ایسی سوچ جو سدِ سکندری کو بھی خاطر میں نہیں لاتی۔ یہی وجہ ہے کہ قابض قوتیں ہمیشہ محکوم قوموں کو ادب سے دور رکھنے کی کوشش کرتی ہیں۔ انقلابی ادیبوں کو قید و بند سے لے کر موت تک کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ ڈاکٹر شاہ محمد مری اپنی کتاب آل انڈیا بلوچ کانفرنس میں لکھتے ہیں کہ "حکومتِ بلوچستان تشدد پر اتر آئی تھی، جو کوئی اخبار خریدتا تھا، اس پر قیامت برپا کر دی جاتی تھی۔”

برطانوی دور میں جب یوسف عزیز مگسی کو جبراً ملک بدر کیا گیا، تو ان کی سرپرستی میں شائع ہونے والا ہفت روزہ البلوچ بھی بند کر دیا گیا۔ لیکن قومی رہنما ثابت قدم اور حوصلہ مند نکلے۔ چنانچہ البلوچ پر استعماری پابندیوں کے بعد، یوسف عزیز مگسی کے کہنے پر کراچی سے جدید بلوچستان کے نام سے ایک نیا ہفت روزہ اخبار شائع ہونا شروع ہوا۔ ڈاکٹر شاہ محمد مری لکھتے ہیں کہ "یوسف عزیز اخبارات کے کردار کو اتنی اہمیت دیتا تھا کہ اس نے حتیٰ کہ ایک محبِ وطن ساتھی اور اسکول ٹیچر، پیربخش عرف نسیم تلوی، کو کراچی بھجوا دیا تاکہ وہ وہاں سے ایک اخبار نکال سکے۔”

استعمار ہمیشہ ادب سے خوف زدہ رہتا ہے۔ جب برطانوی اہلکار بھگت سنگھ کے بارے میں معلومات جمع کر رہے تھے، اور انہیں معلوم ہوا کہ وہ ہندوستانیوں کو خوابِ غفلت سے جگانے کے لیے لکھتا ہے، تو اس کی گرفتاری کا فرمان جاری کرتے ہوئے کہا گیا: "یہ انتہائی خطرناک انسان ہے!” اس سے ہم اندازہ لگا سکتے ہیں کہ ادب کس قدر طاقتور ہتھیار ہے۔ یہی وجہ ہے کہ انگریزوں نے بلوچستان میں بھی ادب کو کبھی پنپنے نہیں دیا۔ جو بھی میگزین یا اخبار شائع ہوتا، اسے مختصر عرصے میں پابندیوں کا سامنا کرنا پڑتا۔
ماضی میں ہمارا ادب زیادہ تر شاعری کے گرد گھومتا نظر آتا ہے۔ ان شاعروں میں سے بعض مزاحمتی شاعری کو ترجیح دیتے تھے، جیسے ملا مزار، ملا فاضل اور جمل فقیر۔ وقت کے ساتھ ساتھ نثرنگاری نے بھی اپنی جگہ بنالی۔ اس زمانے میں بلوچستان سے جتنے بھی اخبارات نکلتے تھے، ان میں قوم کے سرفروشوں کی شاعری کے ساتھ ساتھ نثری مضامین بھی شائع ہوتے تھے۔ لہٰذا ہم کہہ سکتے ہیں کہ ان اخبارات اور رسائل کی بدولت کسی حد تک انقلابی ادب تخلیق ہوتا رہا۔

تاہم مزاحمتی ادب کی کتب بینی کے حوالے سے کافی کمزوریاں موجود تھیں اور آج بھی ہم اسی صورتحال کا سامنا کر رہے ہیں۔ اگرچہ سیاسی تحاریک سے پہلے، 1880 میں ڈھاڈر میں ’’مکتبہ درخانی‘‘ کا قیام عمل میں آیا، جو عیسائی مشنری کے خلاف سرگرمِ عمل تھا۔ اس ادارے نے بلوچ سماج میں گراں قدر خدمات انجام دیں۔ چونکہ ہمارا موضوع سیاسی تحاریک میں ادب کا کردار ہے، اس لیے ہم گفتگو کو اسی رخ پر آگے بڑھاتے ہیں۔

مارچ 1947 میں جب پاکستان نے بلوچستان پر جبری قبضہ کیا تو ماضی کے برعکس ادبی سرگرمیاں تقریباً ختم ہو گئیں۔ تاہم کچھ عرصے بعد کتب بینی کا رجحان دوبارہ شروع ہوا۔ میں سمجھتا ہوں کہ اس کا سہرا بھی مکتبہ درخانی کو جاتا ہے، کیونکہ اس ادارے کے اکابرین نے اس حوالے سے اہم کردار ادا کیا۔

بعدازاں بلوچ رہنماؤں نے اپنی تاریخ پر تحقیقی کام کا آغاز کیا۔ ان میں میر گل خان، آغا نصیر احمد زئی، ملک سعید دہوار، مولائی شیدائی اور محمد حسین عنقا کے نام نمایاں ہیں، جنہوں نے بلوچستان کی تاریخ پر گراں قدر کام کیا۔

ان اکابرین نے جو بنیاد رکھی، وہ بعد میں بھی قائم رہی، اور نامور ادیب منظرِ عام پر آتے رہے۔ یہ سلسلہ آج تک جاری ہے۔ تاہم یہاں ایک بڑی کمی یہ رہی کہ پاکستانی قبضے کے بعد ہمارے دانشوروں نے مزاحمتی ادب پر خاطر خواہ کام نہیں کیا۔ مثلاً 1948، 1958 اور 1960 کی دہائیوں میں ایسا کوئی نمایاں ادبی مواد منظرِ عام پر نہیں آیا جسے بنیاد بنا کر کوئی محقق اپنا تحقیقی کام آگے بڑھا سکے۔

البتہ 1970 کی دہائی میں "بلوچستان پیپلز لبریشن فرنٹ (BPLF)” کی جانب سے "جبل” کے نام سے ایک میگزین شائع ہونے لگا، جس میں تنظیم کی سرگرمیوں کے ساتھ ساتھ سیاسی اور مزاحمتی مضامین
کہا جاتا ہے کہ ’’جب انقلابی لکھنا شروع کریں گے تب ہی انقلابی ادب تخلیق ہوگا۔‘‘
انقلابی ہی دراصل انقلابی ادب کے اصل تخلیق کار ہوتے ہیں، لہٰذا ہم کہہ سکتے ہیں کہ پاکستانی قبضے کے بعد پہلی مرتبہ بلوچ مزاحمتی ادب کی جانب سنجیدہ پیش رفت ہوئی۔ اگرچہ یہ سلسلہ مختصر عرصے تک جاری رہا، لیکن بعد ازاں بلوچ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن (بی ایس او) نے اس ادبی تسلسل کو کبھی جمود کا شکار نہ ہونے دیا۔ اس تنظیم نے ’’سنگت‘‘، ’’پجار‘‘، ’’گروک‘‘، ’’سگار‘‘، ’’آزاد‘‘ اور دیگر چند میگزین شائع کیے، جن میں سے بعض آج بھی شائع ہو رہے ہیں۔

ماضی کے مقابلے میں موجودہ دور میں بلوچ آزادی کی تحریک میں ادب نے زیادہ متحرک اور مؤثر کردار ادا کیا ہے۔ قوم پرستی، وطن دوستی، شہدا کی قربانیاں، ریاستی جبر، جبری گمشدگیاں، لاپتہ افراد اور ماورائے عدالت قتل جیسے موضوعات پر شاعری، گیت، نثر اور مطالعہ نے نئی جہتیں اختیار کی ہیں۔ سوشل میڈیا کے مختلف پلیٹ فارمز کے ساتھ ساتھ چند ادارے بھی اپنا فعال کردار ادا کر رہے ہیں، جن میں ’’سنگر‘‘ نمایاں ہے، جو گزشتہ بارہ سال سے باقاعدگی سے ماہنامہ میگزین شائع کر رہا ہے۔ اس کے علاوہ اس ادارے نے اب تک انتیس کتب بھی شائع کی ہیں۔

بلوچ نیشنل موومنٹ کے تحت قائم ادارہ ’’زرمبش‘‘ سہ ماہی بنیاد پر میگزین شائع کرتا ہے، اور ’’زرمبش پبلیکیشنز‘‘ نے گزشتہ تین برسوں میں ایک درجن سے زائد کتابیں اور کتابچے شائع کیے ہیں۔ بلوچستان لبریشن فرنٹ (بی ایل ایف) کا ترجمان ’’آشوب‘‘ بھی اس ادبی مزاحمت کے سلسلے کو آگے بڑھا رہا ہے، اور اس ضمن میں گزشتہ ایک سال سے ’’اسپر‘‘ کے نام سے ماہنامہ میگزین شائع کیا جا رہا ہے۔

بلوچ لبریشن آرمی (بی ایل اے) بھی مزاحمتی ادب کو فروغ دینے میں خاصی متحرک ہے، جہاں ’’ہکل پبلیکیشنز‘‘ کے تحت پندرہ کتب شائع کی جا چکی ہیں۔ اس کے علاوہ ’’بلوچستان پوسٹ‘‘، ’’ڈیلی سنگر‘‘، اور ’’زرمبش‘‘ جیسے پلیٹ فارمز پر شائع ہونے والے مضامین بھی اسی سلسلے کی ایک کڑی ہیں۔ ان تنظیموں سے وابستہ ادیب، بلوچ مزاحمت کو ادبی رنگ میں سامنے لانے کی مسلسل جدوجہد میں مصروف ہیں۔

’’شہید صبا انسٹیٹیوٹ آف ریسرچ اینڈ پبلیکیشنز‘‘ بھی مزاحمتی ادبی میدان میں ایک فعال ادارہ ہے، جس نے اب تک بارہ کتابیں شائع کی ہیں۔

خان احمد یار خان کا یہ قول کہ ’’بلوچ گزشتہ ساڑھے تین ہزار سال سے حالتِ جنگ میں ہے‘‘، محض ایک نعرہ نہیں بلکہ ایک تاریخی حقیقت ہے۔ بلوچ تاریخ کا بڑا حصہ مزاحمتی جدوجہد سے عبارت ہے۔ کبھی وہ آریائی حملہ آوروں کے خلاف صف آرا ہوتے ہیں، تو کبھی ساسانیوں، یونانیوں، عربوں، ترکوں، پرتگیزیوں اور برطانوی سامراج کے خلاف میدانِ عمل میں دادِ شجاعت دیتے ہیں۔ اس تاریخی حقیقت کی تصدیق یونانی، فارسی اور عرب مورخین و سیاحوں کی تحریروں سے بھی ہوتی ہے، جنہوں نے بلوچ قوم کی مزاحمتی تاریخ کو محفوظ کیا۔

اس پیراگراف کا مقصد یہی ہے کہ بلوچ کی مزاحمت اس کی تاریخ کا بنیادی جزو ہے۔ لہٰذا مزاحمتی ادب کو سمجھنے، پرکھنے اور فروغ دینے کے لیے اپنی تاریخ کا مطالعہ ازحد ضروری ہے۔ اس حوالے سے بلوچستان یونیورسٹی کے پروفیسر ڈاکٹر فاروق بلوچ نے کلیدی کردار ادا کیا ہے۔ ان سے قبل بیشتر مصنفین نے تاریخ نویسی کو محض تقلیدی انداز میں پیش کیا، اور انگریز آبادکاروں کے نظریات کو دہرا کر تاریخ لکھنے کی کوشش کی۔ لیکن ڈاکٹر فاروق بلوچ نے قدیم متون کی روشنی میں بلوچوں کے تاریخی وجود کو مستند انداز میں ثابت کیا۔ ان کی کتب کے مطالعے سے واضح ہوتا ہے کہ بلوچ قوم نے اپنی تاریخ کا بڑا حصہ حالتِ جنگ میں بسر کیا۔

دیگر مورخین اور مصنفین نے بھی اہم موضوعات پر مفید کام کیا ہے، جیسے آغا نصیر احمد زئی نے اپنی سات جلدوں پر مشتمل کتب میں احمدزئی تاریخ کا مفصل جائزہ لیا، میر گل خان نصیر نے بلوچ سیاسی اور برطانوی عہد کی مزاحمتی تاریخ پر تحقیق کی، جبکہ ڈاکٹر شاہ محمد مری نے بلوچ مزاحمت پر متنوع تراجم اور برطانوی دور کی سیاسی تحریکوں و شخصیات پر تحقیق کی، جو مزاحمتی ادب کا قیمتی سرمایہ ہیں۔

آج ہم دیکھتے ہیں کہ نہ صرف بلوچی اور براہوی بلکہ اردو اور انگریزی زبانوں میں بھی مزاحمتی ادب لکھا جا رہا ہے، جس نے علاقائی و بین الاقوامی سطح پر بلوچ مزاحمت کے بیانیے کو فروغ دینے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔

تاہم پاکستانی قبضے کے بعد ابھرنے والے مزاحمتی ادب میں بعض کمزوریاں بھی نمایاں ہیں، جیسے تحقیق اور تخلیق کا فقدان۔ جب ہم دنیا کی دیگر انقلابی تحریکوں کے ادب کا مطالعہ کرتے ہیں تو اندازہ ہوتا ہے کہ ان کی تحریریں اپنے سماج کے مسائل اور ثقافتی تناظر سے جُڑی ہوتی ہیں، جبکہ ہمارے ہاں بعض اوقات ایسے موضوعات پر مباحثے ہوتے ہیں جو نہ صرف تحریک سے غیر متعلق ہوتے ہیں بلکہ بعض اوقات ہماری ضروریات سے بھی ہٹے ہوئے ہوتے ہیں۔ اس کے علاوہ تقابلی جائزوں کے نام پر ہم اکثر ایسے غیر مؤثر تجزیات کرتے ہیں جو یا تو "روایتی تقابلی جائزہ” کے زمرے میں آتے ہیں — جو 1959ء کے بعد اپنی افادیت کھو چکے ہیں — یا پھر ان میں "رویہ جاتی تقابلی تجزیے” کے عناصر موجود نہیں ہوتے۔ ان رویوں کے باعث ہم تخلیق کے میدان میں حقیقی پیش رفت نہیں کر پا رہے، اور ایسا کوئی مستند ادب سامنے نہیں آ سکا جو تحریک کی درست نمائندگی کر سکے۔

تحقیق اور تخلیق کو فروغ دینے کے لیے ادارہ جاتی ڈھانچے کی تشکیل نہایت ضروری ہے، اور ان اداروں کے لیے ایسے افراد کا انتخاب کیا جانا چاہیے جو متعلقہ شعبے کے ماہر ہوں۔ جب ہم تحقیقی اور تخلیقی سطح پر آگے بڑھیں گے تو اس کے ساتھ ہمارے ادبی منظرنامے میں تنقید، خود احتسابی، اختلاف رائے اور فکری اختلافات کو بھی صحت مند طریقے سے جگہ ملے گی۔ تاہم یہ تمام عناصر تب ہی مؤثر ہوں گے جب ان کے اپنے اصول و ضوابط کو ملحوظ رکھا جائے۔ بدقسمتی سے ہمارے ہاں نکتہ چینی اور کردار کشی کو تنقید سمجھا جاتا ہے، جو کہ ادبی اصولوں کے سراسر خلاف ہے۔ اسی طرح اختلافِ رائے اور ذاتی اختلافات کو بھی خلط ملط کیا جاتا ہے، جس سے تحریک میں ابہام پیدا ہوتا ہے اور دشمن کے لیے آسانی پیدا ہوتی ہے۔ اس نوع کے ادب کو مزاحمتی ادب نہیں کہا جا سکتا، کیوں کہ حقیقی ادب صرف تحسین یا جذباتی ردِعمل نہیں بلکہ ایک ایسا فکری عمل ہے جو سماج کی سمت متعین کرتا ہے۔

ادب کسی بھی قومی آزادی یا انقلابی تحریک کا آئینہ اور روح ہوتا ہے۔ سویت یونین، چین، لاطینی امریکہ، افریقہ اور یورپ کی تحریکوں میں ادب نے عوام کو بیدار کیا، شعور دیا اور تحریکوں کو فکری استحکام بخشا۔ بلوچ قومی تحریک میں بھی ادب نے شعور، مزاحمت اور امید کو زندہ رکھا ہے۔ تاہم اگر بلوچ تحریک نے ادبی قوت سے مزید استفادہ کرنا ہے تو ضروری ہے کہ ادارہ جاتی سطح پر ادب کو مضبوط کیا جائے، تنقیدی مکالمے کو فروغ دیا جائے، خواتین و نوجوانوں کی نمائندگی میں وسعت لائی جائے، لکھاریوں کی حوصلہ افزائی کے ساتھ نئے قلم کاروں کی تربیت کا بندوبست بھی کیا جائے۔

بلوچ مزاحمتی ادب کو ایک عظیم فکری ورثہ تصور کرنا ہوگا۔ اگر اسے صحیح زبان، مربوط نظریے اور اظہار کی آزادی میسر ہو تو یہ نہ صرف بلوچ قوم بلکہ دنیا بھر کے محکوم اقوام کے لیے بھی مثال بن سکتا ہے۔ بلوچ ادب میں مقامی لوک روایت، رزمیہ شاعری، قبائلی داستانوں اور تاریخی حقائق کو فکری بنیادوں کے ساتھ مربوط کر کے عالمی ادبی منظرنامے پر ایک منفرد مقام حاصل کیا جا سکتا ہے۔

لہٰذا ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ ادب زبان کا وہ اظہار ہے جو کسی قوم کے اجتماعی شعور، خواب، جدوجہد، دکھ، مزاحمت اور مستقبل کی امیدوں کو فکری و جذباتی سطح پر تشکیل دیتا ہے۔ جب کوئی قوم غلامی، ظلم، جبر یا استحصالی نظام کے خلاف عَلَم بلند کرتی ہے، تو اس کی آواز محض سیاسی یا عسکری میدان میں نہیں گونجتی، بلکہ اس کی بازگشت شاعری، ناول، افسانہ، ڈرامہ، گیت اور مزاحمتی تحریروں میں بھی سنائی دیتی ہے۔ ادب انسان کے اندر جذبات کو بیدار کرتا ہے، شعور کو جِلا بخشتا ہے، اور مزاحمت کو جواز عطا کرتا ہے۔ تاریخ گواہ ہے کہ دنیا کی ہر انقلابی تحریک میں ادب نے نظریاتی اور فکری رہنمائی کی۔ یہی کردار آج بلوچ تحریکِ آزادی میں بھی ناگزیر ہے۔
اگر ہم اپنے مزاحمتی ادب کو مزید منظم، فکری اور تخلیقی بنیادوں پر استوار کریں، تو نہ صرف تحریک کو فکری پائیداری ملے گی بلکہ عالمی سطح پر ہماری جدوجہد کو بھی ایک نظریاتی و ادبی مقام حاصل ہوگا۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Next Post

زَبان، ذِہنی اِستِعمار : نَگوگی اور فینَن کی فِکر کا بَلوچ تَناظُر میں مُطالعہ

جمعرات جون 26 , 2025
تحریر:رامین بلوچ (پہلا حصہ ) نوآبادیاتی نظام کی پیچیدہ اور کثیرالجہتی قبضہ گیریت کو اگر کسی نے گہرائی اور فکری ایمانداری سے بیان کیا ہے تو وہ فرانز فینن اور نگوگی وا تھیونگو جیسے مفکرین ہیں۔ اگر فینن نے اپنی شہرۂ آفاق کتاب "افتادگانِ خاک” میں نوآبادیاتی تشدد اور نفسیاتی […]

توجہ فرمائیں

زرمبش اردو

زرمبش آزادی کا راستہ

زرمبش اردو ، زرمبش براڈ کاسٹنگ کی طرف سے اردو زبان میں رپورٹس اور خبری شائع کرتا ہے۔ یہ خبریں تحریر، آڈیوز اور ویڈیوز کی شکل میں شائع کی جاتی ہیں۔

آسان مشاہدہ