خون سے تاریخ لکھنے والے بلوچ شیرزال

تحریر: شمائلہ بلوچ
زرمبش مضمون

میرے یہ چند لکھے ہوئے جملے مجھے بہت کم محسوس ہوتے ہیں۔ جب بھی میں لکھنے کی کوشش کرتی ہوں، تو ان کرداروں، ان شیرزالوں کی ساری گزری زندگی مجھے ایک لمبی اور گہری سوچ میں مبتلا کر دیتی ہے۔
پھر میں خود سے سوال کرتی ہوں:
کیا سمعیہ، ماہل، شاری اور ماہکان کو اپنی ذاتی زندگی سے کوئی لگاؤ نہیں تھا؟
کیا وہ ان پڑھ تھیں؟
یا کیا وہ اس مسلسل جدوجہد اور جنگ سے ناواقف تھیں؟

جب میں ان کے بارے میں سوچتی ہوں تو ہر بار سمعیہ بلوچ، ماہل بلوچ، شاری بلوچ اور ماہکان بلوچ کو باہمت، لائق اور باشعور خواتین پاتی ہوں۔

جب کسی انسان کو اتنا شعور حاصل ہو کہ وہ اپنے مستقبل کے خواب یوں امر ہو کر پورا کرے، تو وہ کردار یقینی طور پر ایک ایسی تاریخ میں قلم بند ہوتا ہے، جسے آنے والی نسلیں بار بار دہرائیں گی۔ یہ جذبہ اُس انسان میں نظر آتا ہے جو اپنے آس پاس موجود لوگوں کے درد، دکھ اور بیچارگی کو محسوس کرتا ہے۔ جو اپنے قومی رشتے کو دل سے لگائے رکھتا ہے، اور اس امید سے، کہ شاید ایک دن سب کچھ بہتر ہوگا، اپنی ثابت قدمی اور قربانی کا جذبہ ہر وقت لیے تیار رہتا ہے چاہے اس کے گلے کا خون ہی کیوں نہ دینا پڑے۔

میری یہ چند سطریں سمعیہ بلوچ، ماہل بلوچ اور دیگر ساتھیوں کے جذبے اور نظریاتی فکر کا مکمل احاطہ نہیں کر سکتیں، لیکن پھر بھی میں سمجھتی ہوں کہ یہ معمولی الفاظ بھی ان عظیم قربانیوں کے سامنے بہت کم ہیں۔

سمعیہ قلندرانی بلوچ وہ بہادر، دلیر لڑکی تھی جس نے جب آنکھ کھولی تو اس کے گھر کے کئی افراد کو لاپتہ کیا جا چکا تھا۔ اس کے دادا کو اس کی آنکھوں کے سامنے اٹھایا گیا۔ اس دن سے لے کر 24 جون 2023 تک، سمعیہ بلوچ نے نہ صرف کئی مشکلات کا سامنا کیا بلکہ اپنے دشمن اور ہر اس ریاست کو خبردار کیا کہ جب تک بلوچ زندہ ہیں، انہیں زیر نہیں کیا جا سکتا۔

اس نے اپنے قوم کی داستان خون سے لکھ دی، اور آج وہ تاریخ کے اوراق میں ایک ناقابلِ فراموش کردار بن چکی ہے۔
جب سمعیہ کو معلوم تھا کہ اس کے جانے کے بعد اس کی ماں اور باپ پر کیا گزرے گی، تو بھی وہ اپنے مقصد سے پیچھے نہ ہٹی۔ وہ صرف ماں باپ کی نہیں بلکہ پوری قوم کی بیٹی تھی۔

استاد اسلم جیسے باشعور اور مخلص رہنما نے جس طرح اپنی زندگی قوم کے نام کی، ویسے ہی اپنی اولاد بیٹے، بیٹی، بہو، زوجہ کی تربیت بھی کی، اور کبھی بیٹے بیٹی میں فرق نہ کیا۔ اسی تربیت کا نتیجہ تھی کہ سمعیہ بلوچ نے کسی بھی قسم کی قربانی سے دریغ نہ کیا۔

سمعیہ بلوچ نے ریحان کی شہادت کے بعد خود اس جدوجہد کا حصہ بننا اپنے فرض سمجھا، اور اس کو بخوبی نبھایا۔ ماہل، شاری، سمعیہ اور ماہکان نے اپنی زندگیاں بلوچ قوم اور بلوچستان کی خدمت میں وقف کر دیں۔

ان بلوچ بہنوں اور بیٹیوں نے اپنے وطن سے مخلصی کا حق ادا کر کے ہمیں اور آنے والی نسلوں کو یہ سکھایا کہ وطن کے لیے مر کر ہی اصل میں زندہ رہا جاتا ہے۔

آج ان کی فدائی کارروائیاں اور شہادتیں صرف بلوچ قوم ہی نہیں بلکہ پوری دنیا کو یہ بتاتی ہیں کہ قربانی کیا ہوتی ہے۔

جیسے شاری بلوچ نے اپنے بچوں کو چھوڑ کر وطن پر جان نچھاور کی، ویسے ہی ماہل، سمعیہ اور ماہکان نے بھی اپنی زندگیاں قربان کر کے دشمن کو یہ بتا دیا کہ بلوچ قوم ابھی زندہ ہے چاہے وہ مرد ہوں یا عورتیں، وہ اپنے وطن کا دفاع کر سکتے ہیں۔

جب تک بلوچستان میں ظلم ہوتا رہے گا، بلوچ قوم کسی قربانی سے پیچھے نہیں ہٹے گی۔

ہمارے باہمت بھائیوں اور شہیدوں نے ہمیں ایک عظیم کردار کی طرف متوجہ کیا ہے۔ اگر بلوچ قوم متحد ہو کر اس جدوجہد کو آگے بڑھائے، تو نہ صرف پاکستان بلکہ دنیا کی کسی بھی طاقت کا سامنا کر سکتی ہے۔

اس جدوجہد میں ہم سے ہر قسم کی قربانی مانگی جائے، چاہے وہ گلے کا خون ہو یا پہاڑوں کی سختیاں، ہمیں تیار رہنا ہوگا۔ بلوچ ماؤں نے اپنے بچوں کو صرف عام تربیت نہیں دی بلکہ یہ بھی سکھایا کہ وطن کے لیے جینا اور مرنا ایک اعزاز ہے۔

مدیر

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Next Post

کوئٹہ: نوجوان غلام علی بلوچ پاکستانی فورسز کے ہاتھوں جبری لاپتہ

بدھ جون 25 , 2025
بلوچستان کے دارالحکومت کوئٹہ میں پاکستانی فورسز نے ایک اور نوجوان کو جبری طور پر لاپتہ کر دیا۔ اہل خانہ کے مطابق، 22 جون 2025 کو مستونگ کلی دتو سے تعلق رکھنے والے طالبعلم غلام علی بلوچ ولد شہید عبدالحکیم بلوچ کو پاکستانی خفیہ اداروں نے کوئٹہ جناح ٹاؤن میں […]

توجہ فرمائیں

زرمبش اردو

زرمبش آزادی کا راستہ

زرمبش اردو ، زرمبش براڈ کاسٹنگ کی طرف سے اردو زبان میں رپورٹس اور خبری شائع کرتا ہے۔ یہ خبریں تحریر، آڈیوز اور ویڈیوز کی شکل میں شائع کی جاتی ہیں۔

آسان مشاہدہ