تحریر: ماہل بلوچ
زرمبش مضمون

ہمیشہ کی طرح آج بھی میں نے صبح کی تنہائی میں دی بلوچستان پوسٹ کھولی، دل میں ایک اضطراب اور آنکھوں میں امید لیے۔ یہ معمول میرے لیے عبادت کی طرح ہے۔ جیسے ہی دن کا آغاز ہوتا ہے، میں چاہتی ہوں کہ سب سے پہلے بلوچ مزاحمت کی کوئی نئی آہٹ سنوں، کوئی نیا بیان، کوئی نیا عزم، کوئی نئی قربانی، جو دل کو حوصلہ دے، ذہن کو سمت دے، اور روح کو قرار دے۔
آج بھی دل کی یہی تڑپ مجھے اس طرف لے گئی۔ میں چاہتی تھی کہ شاید میجر گہرام یا میجر جیئند کی جانب سے کوئی نیا پیغام آیا ہو، کوئی ایسا جملہ جو دل کی دھڑکن سے ہم آہنگ ہو جائے، جو میرے جیسے بےشمار بلوچوں کو یہ احساس دلائے کہ ہم تنہا نہیں، کہ ہماری دھرتی کے بیٹے جاگ رہے ہیں، لڑ رہے ہیں، اور اپنا سب کچھ قربان کر کے ہمیں جگا رہے ہیں۔
ان کی ہر تحریر، ہر ویڈیو، ہر بیان میرے لیے محض خبر نہیں ہوتی، بلکہ وہ مزاحمت کی وہ صدا ہوتی ہے جو پہاڑوں سے ٹکرا کر وادیوں میں گونجتی ہے، جو خون کے چھینٹوں سے لکھی گئی تاریخ کا تسلسل ہے۔ اور جب میں یہ آوازیں سنتی ہوں، تو میری روح سے صرف ایک ہی لفظ نکلتا ہے: "قربان سنگت!”
یہ لفظ صرف ایک نعرہ نہیں، بلکہ ایک پورا احساس ہے، ایک جذباتی کیفیت، جو میری روح کی گہرائیوں سے نکل کر ہر اس شخص کے لیے نکلتی ہے جو بلوچ قومی جدوجہد کا علم اٹھائے ہوئے ہے۔ میں جانتی ہوں کہ ان بیانات کے پیچھے سرمچاروں کی برسوں کی محنت، ان کی دانش، ان کی قربانی، اور ان کی حکمت عملی کی جھلک ہوتی ہے۔ وہ الفاظ جو ہمیں تحریروں یا آڈیوز کی شکل میں ملتے ہیں، وہ صرف الفاظ نہیں ہوتے، وہ مزاحمت کی کوکھ سے جنم لینے والے سچ ہوتے ہیں۔ ان میں گولیوں کی گونج ہوتی ہے، سرزمین کی مہک ہوتی ہے، اور شہداء کے لہو کی قسمیں ہوتی ہیں۔
آج بھی ایسا ہی لمحہ آیا، جب میری نظریں ایک نام پر جا ٹھہریں: شہید فیض بزدار عرف دل جان۔ یہ نام میرے دل میں بجلی بن کر گرا، اور میری روح میں طوفان بپا ہو گیا۔ شہید دل جان کا تعلق کوہِ سلیمان سے تھا—ایک ایسا خطہ، جسے تاریخ نے نظر انداز کیا، جسے سیاست نے بھلا دیا، اور جسے ریاست نے مکمل طور پر محرومی اور بیماری کے اندھیروں میں دھکیل دیا۔
کوہِ سلیمان کے پہاڑ خوبصورت ضرور ہیں، لیکن ان پہاڑوں کے دامن میں بسنے والے انسانوں کی زندگی کسی بدترین قید سے کم نہیں۔ یہاں زندگی کا ہر دن ایک جنگ ہے، ہر رات ایک ماتم، اور ہر صبح ایک سوال بن کر طلوع ہوتی ہے کہ کیا ہم بھی انسان ہیں؟ کیا ہمیں جینے کا حق ہے؟ یہاں کے بچے نہ تعلیم کے خواب دیکھ سکتے ہیں، نہ صحت کی امید رکھتے ہیں۔ یہاں کی عورتیں ایک بالٹی صاف پانی کے لیے کئی میل پیدل سفر کرتی ہیں، اور یہاں کے مرد غربت اور بے روزگاری سے تنگ آ کر یا تو مزدوری کے لیے شہروں کی خاک چھانتے ہیں، یا پھر ریاست کے لیے وردی پہن لیتے ہیں — وہ وردی جو ان کی شناخت چھین لیتی ہے۔
اس علاقے میں نہ بجلی ہے، نہ اسپتال، نہ بنیادی سہولیات۔ یہاں کینسر عام بیماری ہے، جیسے کہ غربت اور مایوسی کے ساتھ پیدا ہونے والا کوئی منحوس سایہ ہو۔ اکثر گھروں میں ایک نہیں بلکہ دو یا تین افراد کینسر سے لڑ رہے ہوتے ہیں، اور یہ لڑائی وہ صرف بیماری سے نہیں لڑتے، بلکہ ریاستی بے حسی، علاج کی کمی، اور انفراسٹرکچر کی غیر موجودگی سے بھی لڑتے ہیں۔
مجھے یاد ہے، جب ایک بار ایک خاتون نے اپنے بھائی کے کینسر کا ذکر کیا، تو اس کی آواز میں ایسا درد تھا جیسے وہ زندہ دفن ہو چکی ہو۔ اس نے کہا، “ہم نے دو دن پیدل سفر کیا، پھر اونٹ پر بٹھا کر بھائی کو تونسہ لائے، مگر وہاں اسپتال میں دوائیں نہیں تھیں۔” اس کے بھائی کی موت صرف کینسر سے نہیں ہوئی تھی، وہ ریاستی غفلت سے، غربت سے، اور بے آواز مرنے والوں کی فہرست میں شامل ہو گیا تھا۔
ایسے علاقے سے جب کوئی نوجوان شعور کی آنکھ کھولتا ہے، تو یہ محض بیداری نہیں، یہ انقلاب کی پہلی کرن ہوتی ہے۔ شہید دل جان اسی انقلاب کی صدا تھے۔ انہوں نے وہ راستہ چُنا جس میں نہ سکون ہے، نہ آرام، بلکہ صرف قربانی، صرف شعور، صرف جدوجہد۔ انہوں نے وردی پہننے کی جگہ بندوق اٹھائی، لیکن وہ بندوق ظلم کے خلاف تھی، وہ بندوق شناخت کی حفاظت کے لیے تھی، وہ بندوق اس خواب کی تعبیر کے لیے تھی جو بلوچ قوم صدیوں سے دیکھتی آ رہی ہے۔
دل جان کی قربانی ایک معمولی خبر نہیں، بلکہ وہ تاریخی لمحہ ہے جس نے کوہِ سلیمان سے مکران تک ایک للکار بھیجی ہے: کہ بلوچ ایک ہے، چاہے وہ کسی بھی وادی میں بستا ہو، چاہے وہ کسی قبیلے سے تعلق رکھتا ہو، اس کا درد ایک ہے، اس کی پہچان ایک ہے، اور اس کا دشمن بھی ایک ہے۔
شہید دل جان نے ہمیں یہ سکھایا کہ قربانی وہی دیتا ہے جو جاگ چکا ہو، جو سمجھ چکا ہو کہ ریاست کبھی بھی انصاف دینے والی قوت نہیں، بلکہ وہ ادارہ ہے جو بلوچ کی شناخت کو مٹانا چاہتی ہے، اسے مذہب کے نام پر تقسیم کرنا چاہتی ہے، اور اسے اپنے ہی گلزمین سے بےدخل کرنا چاہتی ہے۔
شہید دل جان نے صرف جان کی قربانی نہیں دی، انہوں نے ہماری قوم کے اندر وہ چنگاری پیدا کر دی ہے جو اب شعلہ بن چکی ہے۔ وہ شعلہ جو اب کسی ایک علاقے تک محدود نہیں رہا، بلکہ وہ ہر اس بلوچ کے دل میں جل رہا ہے جو خود کو زندہ محسوس کرتا ہے۔ وہ نوجوان جو کبھی مذہب کے نام پر شدت پسندی کی طرف جھکتے تھے، وہ آج اپنی قوم، اپنی شناخت، اور اپنی دھرتی کے لیے بیدار ہو رہے ہیں۔ وہ مائیں جو کبھی لاشوں پر بین کرتی تھیں، آج اپنے بیٹوں کو شعور کے راستے پر رخصت کر رہی ہیں۔
دل جان نے ہمیں یہ باور کروایا کہ آزادی کا مطلب صرف جغرافیائی حدود کی تبدیلی نہیں، بلکہ ذہنی، فکری اور روحانی آزادی ہے۔ وہ آزادی جو ہمیں اپنے آپ کو پہچاننے کا ہنر دیتی ہے، جو ہمیں یہ سکھاتی ہے کہ دشمن کی پہچان کیا ہے، اور دوستی کا معیار کیا ہونا چاہیے۔
آج جب میں دل جان کی تصویر دیکھتی ہوں تو مجھے صرف ایک نوجوان نظر نہیں آتا، مجھے بلوچ قوم کا مستقبل نظر آتا ہے۔ مجھے کوہِ سلیمان کے اندھیروں میں جلتا ہوا چراغ نظر آتا ہے۔ وہ چراغ جو اب مکران، کیچ، پنجگور، آواران، مستونگ، اور نصیر آباد تک پھیل رہا ہے۔ وہ چراغ جو ان زنجیروں کو پگھلا رہا ہے جن میں ہمیں صدیوں سے جکڑا گیا تھا۔
قربان سنگت دل جان! تم نے ہمارے لیے وہ راہ بنائی ہے جو صرف خون سے لکھی جا سکتی ہے۔ تمہاری صدا اب ہمارے دل کی دھڑکن بن چکی ہے۔ تمہاری قربانی ہماری روشنی ہے، تمہارا شعور ہمارا راستہ ہے، اور تمہاری شہادت ہماری منزل کی نشانی ہے۔
ہم تم سے وعدہ کرتے ہیں کہ ہم کبھی نہیں رکیں گے، کبھی نہیں جھکیں گے، اور کبھی نہیں بھولیں گے۔ ہم دشمن کو دکھائیں گے کہ بلوچ اپنے خون سے اپنی تاریخ لکھتا ہے۔ جو بھی اس سرزمین کی طرف میلی آنکھ سے دیکھے گا، اسے یہ جان لینا چاہیے کہ کوہِ سلیمان سے مکران تک ہر پتھر، ہر پہاڑ، ہر سرمچار اس زمین کا سپاہی ہے۔
کوہ سلیمان تا مکران
بلوچستان ، بلوچستان
بلوچستان زندہ باد