
شال: کوئٹہ پریس کلب کے سامنے وائس فار بلوچ مسنگ (وی بی ایم پی) کے وائس چیئرمین ماما قدیر بلوچ کی سربراہی میں وی بی ایم پی کا احتجاجی کیمپ جاری ہے۔
پیر کے روز احتجاج کو 5853 دن پورے ہوئے، احتجاجی کیمپ میں مختلف طبقہ ہائے فکر کے لوگ اور لواحقین نے آکر جبری لاپتہ افراد کی بازیابی کا مطالبہ کیا۔
اس موقع پر وفود سے گفتگو کرتے ہوئے ماما قدیر بلوچ نے کہا بلوچستان سے ہر دن انسانی حقوق کی سنگین پامالیوں کے واقعات رپورٹ ہو رہے ہیں ہر واقعہ اپنے آپ میں تکلیف دہ ہے۔ جبری گمشدگیاں اور ماورائے عدالت قتل کے واقعات ریاستی اداروں نے معمول بنا دیئے ہیں۔
15 جون 2025 کو گٹی ڈور، گوادر کے رہائشی سلام حیدر کو حراست میں قتل کرکے ان کی لاش اہل خانہ کی تحویل میں دے کر انھیں اس قتل پر خاموش رہنے کو کہا گیا۔ جبکہ حراستی قتل کے بعد لاشیں بے نامی تدفین کے لیے ایدھی فاؤنڈیشن کے حوالے کی جا رہی ہیں جو لواحقین پر دہرے ظلم کے مترادف ہے۔ ریاستی ادارے ایک طرف لوگوں کو جبری گمشدہ کرنے کے جرم کرتے ہیں پھر حراستی قتل کے بعد بے نامی تدفین کے ذریعے لوگوں کو مزید تکلیف پہنچاتے ہیں۔‘‘
انھوں نے کہا حکام نے حالیہ دنوں کے کچھ واقعات میں عدالت کو بتایا کہ زیرحراست قتل کیے گئے افراد کو تدفین کے لیے ایدھی فاؤنڈیشن کے حوالے کیا گیا ہے۔ ایدھی فاؤنڈیشن انسانیت کی خدمت کی دعویدار ہے اسے ریاستی جرائم کے ثبوت مٹانے کے لیے استعمال نہیں ہونا چاہیے۔ بلوچستان کے حالات سے بخوبی واقف ہونے کے باوجود ایدھی فاؤںڈیشن مسلسل بے نامی تدفین کا حصہ بن رہی ہے جبکہ جبری افراد کے لواحقین 16 سال سے اپنے پیاروں کی بازیابی کے لیے احتجاج کر رہے ہیں۔ہمارے پاس ہر جبری گمشدہ شخص کا رکارڈ موجود ہے۔ایدھی فاؤنڈیشن تدفین سے پہلے معلومات حاصل کرسکتی ہے۔ اگر تدفین ضروری ہوئی تو بھی ہمیں پتا ہونا چاہیے کہ کس قبر میں کس کو ، کس حالت میں دفن کیا گیا ہے۔لاش کہاں سے ملی۔
ماما قدیر نے کہا جدید دور میں بے نامی تدفین صرف ریاستی منشا ہے، ڈی این اے ٹسٹ اور کئی ذرائع سے لاشوں کی شناخت ہوسکتی ہے لیکن یہاں وارثوں کے مطالبے کے باوجود جان بوجھ کر لاشیں بے نام قبروں میں دفنائی جا رہی ہیں ، اس سے بلوچ سماج پر لگے جبری گمشدگی کے زخم اور بھی گہرے ہوں گے۔