
تحریر: رامین بلوچ
زرمبش مضمون
بلوچ سماج اپنی قدیم قومی روایات، اجتماعی اقدار اور خاندانی وحدت کے حوالے سے ایک منفرد اور تاریخی شناخت رکھتا ہے۔ ان روایات میں شادی نہ صرف ایک خوشی کا موقع ہوتی ہے بلکہ یہ تہذیبی اظہار، سماجی تعلقات کی تجدید اور خاندانوں کے مابین ربط و پیوستگی کا ذریعہ بھی بنتی ہے۔ انہی رسومات میں ایک نمایاں اور قابلِ توجہ روایت بیٹی کو شادی کے موقع پر تحائف دینا ہے، جن میں بالخصوص سونا، زیور، زمین، نقدی یا دیگر مالی اثاثے شامل ہوتے ہیں۔
یہ روایت محض ایک تحفہ نہیں، بلکہ اس کے پس منظر میں ایک واضح معاشی و سماجی پہلو پوشیدہ ہوتا ہے۔ سونا اور زیور دراصل ایک طرح کا "تحفظ” ہوتے ہیں جو ایک باپ اپنی بیٹی کو اس کی آئندہ زندگی میں کسی بھی ممکنہ معاشی بحران یا ناگہانی صورتحال سے نبردآزما ہونے کے لیے فراہم کرتا ہے۔ یہ بلوچ سماج کی خوبصورتی ہے کہ یہاں بیٹی کو "جہیز” کی غیر انسانی روایت کے تابع نہیں کیا جاتا، بلکہ جو کچھ دیا جاتا ہے وہ والد کی محبت، استطاعت اور خلوصِ دل سے دیا گیا تحفہ ہوتا ہے۔ یہ کوئی جبر نہیں بلکہ ایک بے غرض اور رضاکارانہ پیشکش ہوتی ہے، جو خلوص اور مہر و محبت کی علامت ہوتی ہے۔
تاہم، اس روایت کا ایک دوسرا رخ بھی ہے۔ وہ رخ جو نوآبادیاتی ریاستی جبر، جنگ زدہ حالات اور مسابقتی سماجی فضا میں ابھر کر سامنے آتا ہے۔ وہ پہلو جو تحفے کو ایک ضرورت، ایک معیارِ حیثیت، اور ایک معاشرتی دباؤ میں ڈھال دیتا ہے۔ جب معاشرہ زخموں سے چور ہو، جب ریاستی جبر زندگی کے ہر پہلو کو متاثر کر رہا ہو، اور جب قوم اجتماعی غلامی کی زنجیروں میں جکڑی ہو، تب یہ سوال ازحد اہم ہو جاتا ہے:
کیا بیٹی کو رخصت کرتے وقت سونا دینا ہی اصل تحفہ ہے؟ یا وہ کتابیں، فکری ذخیرے، نظریاتی سرمایہ اور آزادی کا شعور زیادہ قیمتی نہیں جو ایک باپ اپنی بیٹی کو دے کر اُسے سر بلند، باشعور اور انقلابی بنا سکتا ہے؟
یہی وہ مقام ہے جہاں روایت اور انقلاب کا تصادم ایک نئی فکری روایت کو جنم دیتا ہے۔ نصیر بلوچ نے اسی فکری لمحے کو گرفت میں لے کر ایک نئی راہ متعین کی ہے۔ جب اُس نے اپنی بیٹی کو شادی کے موقع پر سونے یا زیور کے بجائے "جبری غلامی سے فکری آزادی تک” نامی کتاب تحفتاً دی، تو درحقیقت اُس نے بلوچ سماج کی اس روایت کو نہ صرف چیلنج کیا، بلکہ اس میں فکری تجدید اور نظریاتی ارتقاء کی روح پھونک دی۔
یہ کتاب کوئی عام تحفہ نہیں، بلکہ ایک باپ کی وہ تمنا ہے جو الفاظ کے قالب میں ڈھل کر ایک انقلابی منشور کی صورت اختیار کر چکی ہے۔ یہ غلامی کے خلاف فکری بیداری کا چراغ ہے۔ یہ اُس باپ کی محبت ہے جو چاہتا ہے کہ اُس کی بیٹی محض ایک خاندان کی فرد نہ ہو، بلکہ ایک باشعور انسان، ایک انقلابی عورت، ایک فکری رہنما، اور ایک آزاد قوم کی نمائندہ بنے۔
یہ روایت بلوچ قوم کی داخلی جدوجہد کی آئینہ دار ہے، جس میں قومی آزادی، نظریاتی خودمختاری، اور شعوری بیداری کو محض سیاسی نعرہ نہیں، بلکہ روزمرہ زندگی کا بنیادی اصول بنایا جا رہا ہے۔ نصیر بلوچ کا یہ عمل ہمیں باور کراتا ہے کہ تحفے کا مطلب صرف مادی اشیاء نہیں، بلکہ فکر، علم، شعور، اور نظریاتی بصیرت بھی ہو سکتے ہیں—اور درحقیقت، یہی وہ حقیقی سرمایہ ہے جو نہ صرف فرد کو، بلکہ پوری قوم کو بدلنے کی طاقت رکھتا ہے۔
یہی وہ لمحہ ہے جب ایک سماجی رسم فکری مزاحمت میں ڈھلتی ہے۔ جہاں ایک باپ اپنی بیٹی کو زیور کے بجائے نظریاتی اسلحہ فراہم کرتا ہے—تاکہ وہ آنے والی نسلوں کی رہنما بنے، جبر کے خلاف مزاحمت کی علمبردار بنے، اور غلامی کی ہر شکل کو رد کرتے ہوئے آزادی کی شاہراہ پر رواں دواں ہو۔
نصیر بلوچ کا یہ تحفہ محض ایک باپ کی محبت کا اظہار نہیں، بلکہ ایک محکوم قوم کی صدیوں پر محیط غلامی، اس غلامی کے خلاف ابھرتے ہوئے شعور، اور آزادی کی لازوال جدوجہد کا علامتی اظہار ہے۔ یہ کتاب سونے کے ہار کی جگہ ایک فکری ہتھیار ہے—ایک ایسی قندیل، جو نسل در نسل منتقل ہو کر نہ صرف ذہنوں کو منور کرتی ہے بلکہ ان میں انقلابی جوہر پیدا کرتی ہے؛ ایسا جوہر جو سوال اٹھاتا ہے، سرکشی کو جنم دیتا ہے، اور سامراجی زنجیروں کو توڑ پھینکنے کی جرأت بخشتا ہے۔
یہ تحفہ درحقیقت اس فکری کلید کی مانند ہے، جو دہائیوں پر محیط غلامی کے طوق کو کھولنے کے لیے دی گئی ہے—وہ طوق جو بلوچ قوم کی گردن پر سامراجی ریاست نے مسلط کر رکھا ہے۔ نصیر بلوچ نے اپنی بیٹی کو سونے کا ہار نہیں دیا، بلکہ ایک فکری منشور عطا کیا ہے۔ ایک انقلابی پیغام دیا ہے کہ: تم محض ایک بیٹی نہیں، ایک قوم کی بیٹی ہو؛ اور تمہارا شعور، تمہاری آزادی کی پہلی جنگ ہے۔
یہ کتاب "جبری غلامی سے فکری آزادی تک” محض الفاظ کا مجموعہ نہیں، بلکہ ایک سیاسی وصیت ہے۔ ایک فکری اعلانِ جدوجہد ہے، جو ہر اُس شخص کو مخاطب کرتی ہے جو غلامی کو تقدیر نہیں مانتا، جو ظلم کو سوال بناتا ہے، اور جو آزادی کو اپنی سانسوں میں جذب کرتا ہے۔
یہ تحفہ ایک انقلابی تسلسل کا حصہ ہے، جو صدیوں کی خاموشی کے بعد بیدار ہونے والی ایک قوم کے شعور کی گونج ہے۔ یہ وہ آواز ہے جو گولیوں سے دبائی جا سکتی ہے، مگر نظریے سے شکست نہیں کھاتی۔ یہ وہ تحفہ ہے جو نسلوں کو بدل دیتا ہے—سونے سے نہیں، شعور سے؛ زیور سے نہیں، فکر سے؛ اور خاموشی سے نہیں، مزاحمت سے۔
یہ نظریہ اس تعلیم پر مبنی ہے جو فرد کو محض معلومات فراہم نہیں کرتا، بلکہ اس کی شعوری ساخت کو بدل دیتا ہے۔ یہ کتاب آزادی کے مفہوم کو صرف جغرافیائی حدبندیوں میں نہیں دیکھتی، بلکہ آزادی کو ذہنی، فکری، وجودی، اور نفسیاتی سطح پر سمجھنے اور حاصل کرنے کا ذریعہ بناتی ہے۔
یہ تحفہ بیٹی کو محض ایک باپ کی طرف سے نہیں، بلکہ ایک انقلابی نسل کی طرف سے دیا گیا ہے، جس نے اپنے خواب، اپنی نیند، اور اپنے سکون کی قربانی دے کر شعور کے اس دائرے کو وسعت دی ہے۔
نصیر بلوچ نے ایک تنگ دائرے کو توڑتے ہوئے ہمیں یہ سبق دیا کہ سب سے قیمتی تحفہ وہ ہوتا ہے جو نسلوں کی فکری زنجیروں کو توڑتا ہے؛ جو بیٹی کو صرف ایک بیوی یا ماں کے روایتی کردار سے نکال کر ایک باوقار، باشعور اور بافکر انسان بننے کا راستہ دکھاتا ہے۔ اس تحفے کی معنویت انفرادی نہیں بلکہ اجتماعی ہے۔ یہ ایک پیغام ہے ان تمام ماؤں، بہنوں اور بیٹیوں کے لیے جو ریاستی جبر، مذہبی پدرشاہی، روایتی قبائلی جمود اور نوآبادیاتی ذہنیت کے خلاف اپنے وجود کی جنگ لڑ رہی ہیں؛ جو نئی نسل کو صرف تعلیم یافتہ نہیں بلکہ باشعور بنانے کی جدوجہد میں مصروف ہیں۔
نصیر بلوچ نے اپنی بیٹی کو آزادی کی وہ چابی دی ہے جس سے نہ صرف ذاتی قیدخانے کھل سکتے ہیں بلکہ قومی غلامی کی زنجیریں بھی ٹوٹ سکتی ہیں۔ جب کسی قوم کی فکری بنیادیں مضبوط ہوں، جب اس کے نوجوان سوال کرنا جانتے ہوں، اور جب اس کی بیٹیاں صرف چولہا جلانے والی نہ ہوں بلکہ چراغِ شعور جلانے والی ہوں، تو پھر اس قوم کی آزادی کوئی خواب نہیں رہتی—وہ ایک زندہ جدوجہد بن جاتی ہے۔ اور جدوجہد بالآخر فتح کو جنم دیتی ہے۔ نصیر بلوچ کا یہ تحفہ اسی جدوجہد کا نقطۂ آغاز ہے: ایک بیٹی سے پوری قوم کی بیٹیوں تک، ایک ذہن سے لاکھوں ذہنوں تک، ایک کتاب سے ایک تحریک تک۔
نصیر بلوچ کی بیٹی کے لیے یہ کتاب صرف ایک یادگار لمحے کا تحفہ نہیں بلکہ ایک فکری تسلسل کا آغاز ہے۔ یہ وہ چراغ ہے جو نسل در نسل ہاتھوں سے ہاتھوں تک منتقل ہوگا، اندھیروں میں رہنمائی کرے گا، اور غلامی کی ہر شکل کے خلاف جدوجہد کا جواز بنے گا۔ جب تک یہ کتاب زندہ ہے، جب تک اس کے الفاظ دلوں میں دھڑکتے ہیں، تب تک یہ تحفہ فقط ایک بیٹی کا نہیں بلکہ پوری بلوچ قوم کا شعوری سرمایہ ہے۔
یہ تحفہ ثابت کرتا ہے کہ حقیقی باپ وہی ہے جو اپنی بیٹی کو سونا نہیں بلکہ شعور دیتا ہے—کیونکہ سونا زنگ آلود ہو سکتا ہے، مگر شعور ہمیشہ بیدار رہتا ہے۔
جب کوئی باپ اپنی بیٹی کو رخصت کرتا ہے تو اُس کی نگاہیں صرف مستقبل کے خوابوں سے نہیں بھری ہوتیں بلکہ ماضی کی تاریخ، حال کی جدوجہد، اور آنے والے کل کی امید بھی اُس کے دل میں دھڑک رہی ہوتی ہے۔ بلوچ سرزمین کے ایک ایسے ہی انقلابی باپ، نصیر بلوچ، نے اپنی بیٹی کو شادی کے موقع پر سونے یا زیورات جیسا مروجہ تحفہ دینے کے بجائے ایک ایسی کتاب دی جو سونے سے بھی قیمتی ہے۔
یہ کتاب شعور کی ایک مشعل ہے—ایک فکری دستور، جو نہ صرف ایک بیٹی کے لیے، بلکہ پوری قوم کے لیے ایک بصیرت افروز عطیہ ہے۔ یہ تحفہ مادی دنیا کی چمک دمک سے کہیں بلند تر ایک حقیقت کا مظہر ہے۔ یہ وہ فکری انقلاب ہے جس کا خواب ہر وہ شخص دیکھتا ہے جو غلامی کی زنجیروں میں جکڑے ہوئے معاشرے کو آزاد دیکھنا چاہتا ہے۔
نصیر بلوچ نے یہ پیغام اپنی بیٹی کے ذریعے آنے والی نسلوں تک منتقل کیا کہ اصل خزانہ شعور ہے، اصل تحفظ خودشناسی ہے، اور اصل تحفہ وہ فکر ہے جو انسان کو خود پر، اپنی تاریخ پر، اور اپنی قوم پر یقین کرنا سکھاتی ہے۔ یہ کتاب فقط فرد کی ذہنی نجات نہیں بلکہ ایک پوری قوم کی آزادی کی تمنا ہے۔ یہ تحریر ذہنی استعماری نظام کے خلاف ایک مزاحمتی ہتھیار ہے۔ اس کتاب کا ہر باب ایک قیدی ذہن کے لیے قفل کشا کلید ہے اور ہر جملہ ایک انقلابی پیغام۔
یہ کتاب اُس غیر محسوس قید کو بے نقاب کرتی ہے جو صرف زنجیروں یا سلاخوں میں نہیں بلکہ نصاب، میڈیا، مذہبی بیانیے اور ثقافتی جبر میں چھپی ہوتی ہے۔ یہ شعور کی اس قید کو توڑتی ہے جس میں ذہنی استعماریت پنپتی ہے۔
نصیر بلوچ کی یہ پیشکش محض ایک والد کا جذباتی اظہار نہیں بلکہ ایک سیاسی، نظریاتی، تہذیبی اور شعوری وصیت ہے۔ یہ وہ پیغام ہے جو بیٹی کو فقط ایک فرد نہیں بلکہ ایک قوم کی نمائندہ، ایک مستقبل کی معمار، اور ایک باشعور نسل کی علمبردار مان کر دیا گیا ہے۔ اس تحفے میں محبت بھی ہے، مزاحمت بھی۔ اس میں تاریخ کی زنجیروں کو توڑنے کی دعوت بھی ہے، اور مستقبل کو فکری روشنی سے منور کرنے کی خواہش بھی۔
یہ تحفہ سکھاتا ہے کہ سونا وقتی تحفظ دیتا ہے، لیکن شعور دائمی آزادی عطا کرتا ہے۔ زیور فقط بدن سنوارتا ہے، مگر شعور پوری زندگی کو معنویت بخشتا ہے۔
یہ کتاب ایک متحرک ورثہ ہے—ایسا فکری ورثہ جو نسلوں کو غلامی کے اندھیروں سے نکال کر آزادی کے افق تک لے جاتا ہے۔ یہ وہ روشنی ہے جو نہ وقت کی گرد سے مدھم ہوتی ہے، نہ تاریخ کی دھول میں گم۔ ہر وہ بیٹی جو یہ کتاب پڑھے گی، وہ فقط ایک فرد نہیں بلکہ ایک انقلابی بیج ہوگی—جو کل کسی تحریک، کسی جدوجہد، کسی مزاحمت کا درخت بنے گی۔
نصیر بلوچ کا یہ انوکھا تحفہ ہر اس باپ کے لیے ایک مثال ہے جو اپنی اولاد کو صرف دنیا کے مروجہ اصولوں کے تحت نہیں بلکہ سامراجی دنیا کے خلاف ایک زندہ فکری مورچہ بنانا چاہتا ہے۔
نصیر بلوچ نے اپنی بیٹی کو زیور نہیں دیا، مگر اُسے زیست کے وہ اسرار بخشے جو دنیا کی کوئی دولت عطا نہیں کر سکتی۔ اُس نے اُسے وہ کتاب دی جو فکر کو غلامی سے نجات دلاتی ہے، جو انسان کو انسان بننے کا شعور عطا کرتی ہے۔ یہ تحفہ ایک باپ کی محبت ہے، ایک انقلابی کی آگہی ہے، اور ایک سیاسی شعور رکھنے والے فرد کی فکری وراثت ہے۔ یہی وہ خزانہ ہے جو نہ چوری ہو سکتا ہے، نہ زنگ آلود ہوتا ہے، نہ فنا ہوتا ہے۔ یہ کتاب ایک فکری تسلسل ہے — ایک مسلسل جاری رہنے والا انقلابی مکالمہ، جو آنے والی نسلوں میں اپنی بازگشت رکھے گا۔
تاریخ ہمیشہ اپنے دامن میں ایسے لمحات محفوظ رکھتی ہے جو بظاہر معمولی دکھائی دیتے ہیں، مگر وقت گزرنے کے ساتھ وہ اجتماعی شعور کے دریچوں میں روشنی کی کرن بن کر ابھرتے ہیں۔ یہ لمحات محض یادداشت نہیں ہوتے بلکہ علامات ہوتے ہیں — نشانِ راہ، جو کسی آنے والے قافلے کو سمت بخشتے ہیں۔
بلوچ ادیب، مفکر اور دانشور نصیر احمد بلوچ کا اپنی بیٹی کو نکاح کے موقع پر کتاب بطور تحفہ دینا بھی ایک ایسا ہی لمحہ ہے۔ یہ بظاہر ایک نجی عمل تھا، مگر اپنی روح میں ایک اجتماعی عہد اور انقلابی شعور کا پرتو لیے ہوئے تھا۔ یہ عمل نہ صرف انفرادی محبت اور شفقت کا اظہار تھا بلکہ اس سے بڑھ کر یہ اس بات کی عملی تصدیق تھی کہ علم، شعور اور فکر کا تسلسل زندگی کے ہر مرحلے میں جاری رہنا چاہیے۔
نصیر احمد بلوچ نے اپنی بیٹی کو کتاب دے کر گویا یہ پیغام دیا کہ بیٹی کو صرف زیور، کپڑے یا دیگر مادی اشیاء نہیں دی جاتیں، بلکہ اسے وہ فکری سرمایہ بھی دیا جا سکتا ہے جو اُسے ایک باشعور، باوقار اور فکری طور پر خودمختار انسان بناتا ہے۔
یہ عطیہ پدرسری اقدار کی لطیف مگر گہری نفی ہے بلکہ ایک اعلان بھی ہے کہ عورت کو صرف ملبوسات یا رشتوں کی قید میں نہیں، بلکہ شعور، سوال، اور علم سے جُڑے ایک زندہ وجود کے طور پر تسلیم کیا جائے۔ کتاب یہاں ایک علامت ہے: آزادی کی، خود اختیاری کی، اور فکری خودکفالت کی۔ یہ عمل ایک نئی روایت کی بنیاد ہے۔ یہی وہ مقام ہے جہاں ایک ذاتی لمحہ اجتماعی نصب العین میں تبدیل ہو جاتا ہے، اور یہی وہ زاویہ ہے جو نصیر احمد بلوچ کے عمل کو محض جذباتی وابستگی سے نکال کر ایک فکری اور انقلابی سطح پر لے آتا ہے۔
تحفہ ہمیشہ ایک علامت ہوتا ہے۔ یہ محبت، توقیر، یا قربانی کی علامت ہو سکتا ہے۔ لیکن جب تحفہ "کتاب” ہو، تو یہ صرف رشتہ داری کو مضبوط کرنے کا عمل نہیں رہتا بلکہ یہ شعور، فکر اور آزادی کا رشتہ قائم کرنے کا عمل بن جاتا ہے۔ یہ وہی عمل ہے جو ہمیں چی گویرا کی تصویر میں نظر آتا ہے جب وہ "کتاب” ہاتھ میں لیے دکھائی دیتا ہے، یا وہ منظر جب ہو چی منہ اپنی قید کے دنوں میں اپنے نظریات کو قید خانے کی دیواروں پر رقم کرتا ہے۔ نصیر بلوچ کا عمل بھی اسی زنجیر کی ایک کڑی ہے۔
یہاں یہ نکتہ بھی انتہائی اہم ہے کہ نصیر بلوچ کا یہ عمل خواتین کے فکری اور انقلابی کردار کو تسلیم کرنے اور اُسے پروان چڑھانے کی سنجیدہ کوشش ہے۔ بلوچ مزاحمتی تاریخ میں جہاں مردانِ حریت کا ذکر بکثرت ملتا ہے، وہاں خواتین کا کردار اکثر پسِ پردہ چلا جاتا ہے۔ اس کتاب کو بیٹی کے ہاتھ میں تھما کر گویا یہ اعلان کیا گیا کہ وہ صرف کسی کی بیوی یا بیٹی نہیں بلکہ ایک فکری ساتھی، ایک مزاحم ساتھی، ایک انقلابی کردار ہے۔
اب یہ رسم محض ایک شخصی عمل نہ رہے — یہ ایک تحریک کی صورت اختیار کرے، تاکہ کسی بھی اہم موقع پر کتاب کو بطور تحفہ دینا ایک فکری مزاحمت کا استعارہ بنے۔ جہاں ہر بیٹی، ہر بیٹا، ہر ساتھی اور ہر دوست کو فکر، شعور اور سوال کے زیور سے آراستہ کیا جائے۔ یہ عمل صرف ایک کتاب دینے کا نہیں بلکہ ایک دنیا دینے کا ہے۔ ایک ایسی دنیا، جو غلامی، جہالت اور خاموشی کی نفی کرتی ہے، اور شعور، حریت اور سوال کی حمایت میں کھڑی ہوتی ہے۔
اب تک دستیاب تاریخی و سوانحی مواد میں کسی معروف عالمی دانشور، فلاسفر یا مفکر کی زندگی میں اس مخصوص عمل — یعنی اپنی بیٹی کو شادی کے موقع پر بطور تحفہ کتاب دینے — کی کوئی واضح مثال عام نہیں ملتی۔ اس میں کوئی شبہ نہیں کہ کماش نصیر بلوچ کا یہ عمل ایک نایاب بلکہ غیر موجود اور منفرد طرزِ عمل ہے۔ یہ ایک واحد، نادر اور انقلابی مثال ہے۔
یہ عمل محض پدرانہ محبت کا اظہار نہیں بلکہ ایک فکری و نظریاتی بیانیہ ہے۔ ایک ایسی کتاب کا تحفہ، جو ذہنی استعماریت کے خلاف فکری آزادی کا راستہ دکھاتی ہے، محض تحفہ نہیں بلکہ ایک مزاحمتی عطیہ اور وصیت ہے۔ بلوچ سماج میں شادی کے موقع پر بیٹی کو زیور، زمین یا سونا دینا ایک قدیم اور محترم روایت ہے، جو محبت، تحفظ اور خاندانی وقار کا نشان سمجھی جاتی ہے۔ لیکن نصیر بلوچ نے ان تمام روایتی مظاہر کو ایک طرف رکھ کر ایک کتاب کو بطور تحفہ منتخب کر کے ایک انقلابی روایت کی بنیاد رکھی۔
یہ اس روایت کی تطہیر ہے جو بیٹی کو صرف جسمانی یا مادی تحفظ دیتی ہے، مگر اُسے قومی غلامی اور آزادی کے شعور سے بے بہرہ رکھتی ہے۔ یہ کوئی عام کتاب نہیں، یہ "جبری غلامی سے فکری آزادی تک” کا وہ متن ہے جو انسان کے باطن میں جمی غلامی کی تہوں کو چیر کر آزادی کا شعور پیدا کرتا ہے۔ اس کتاب میں صرف الفاظ نہیں، ایک قوم کی تاریخ، اس کے زخم، اس کی امید اور اس کا مقدر پوشیدہ ہے۔
اس عمل کو صرف پدرانہ محبت کہنا اس کی توہین ہوگی۔ یہ ایک باپ کا وہ عمل ہے جو اپنے فرد کی آزادی کو اجتماعی قومی نجات سے جوڑتا ہے۔ نصیر بلوچ اپنی بیٹی کو صرف ایک کتاب نہیں دے رہے، وہ ایک مشن دے رہے ہیں — ایک ذمہ داری، ایک عہد، ایک نظریاتی ہتھیار، جو آنے والی زندگی میں اس کی روشنی بھی بنے گا اور اس کی مزاحمت بھی۔
یہ تحفہ اس سوچ کے خلاف ایک علامتی جنگ ہے جو عورت کو صرف ازدواجی تعلقات کے تناظر میں دیکھتی ہے۔ نصیر بلوچ کی یہ کتاب بیٹی کو یہ پیغام دیتی ہے کہ وہ صرف کسی کی بیوی نہیں بلکہ ایک فاعل، باشعور، اور انقلابی انسان ہے جو اپنی آزادی، اپنی شناخت، اور اپنی قوم کی تقدیر میں ایک اہم کردار ادا کر سکتی ہے۔
تاریخ میں ہمیں بہت سے فلسفی، مفکر اور انقلابی ملتے ہیں جنہوں نے کتابیں لکھیں، تحریکیں چلائیں، اور نظریے تخلیق کیے، مگر اپنی بیٹی کو شادی کے موقع پر ایک کتاب تحفے میں دینا — ایسا عمل کسی معروف عالمی مفکر کی زندگی میں بھی نہیں ملتا۔ یہ عمل نہ صرف منفرد بلکہ نایاب ہے۔
نصیر بلوچ کا یہ عمل نہ صرف ایک ذاتی فعل ہے بلکہ ایک اجتماعی نصب العین کا استعارہ بھی ہے۔ یہ کتاب محض ماضی کی نہیں بلکہ حال کی تلخ حقیقتوں کو بیان کرتے ہوئے ایک باوقار اور آزاد مستقبل کا نقشہ کھینچتی ہے۔
یہ وہ لمحہ ہے جب شادی، جو عموماً سماجی رواجوں کا مجموعہ سمجھی جاتی ہے، ایک نظریاتی اعلان میں تبدیل ہو جاتی ہے کہ "ہماری بیٹیاں صرف دلہن نہیں، انقلابی بھی ہیں!”