
بلوچ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن کے مرکزی ترجمان نے اپنے جاری کردہ بیان میں کہا ہے کہ 11 جون بلوچ قوم کی تاریخ کا ایک عظیم اور ناقابلِ فراموش دن ہے، جب شہید حمید بلوچ نے سامراجی جبر اور استعماری قوتوں کے خلاف اپنی بے مثال جدوجہد میں جان کا نذرانہ پیش کیا. بی ایس او شہید حمید بلوچ کی 44ویں برسی پر انہیں زبردست خراجِ عقیدت پیش کرتے ہے اور ان کے افکار و فلسفے کو بلوچ نوجوانوں کے لیے مشعلِ راہ قرار دیتی ہے
ترجمان نے کہا کہ شہید حمید بلوچ ایک عام طالب علم نہیں تھے، بلکہ وہ شعور، فکری بیداری، اور قربانی کی لازوال علامت تھے. 1979 میں جب عمانی ریاست نے بلوچ عوام پر ظلم و ستم کی انتہا کی اور بلوچ علاقوں میں عمانی فوجیوں کی جبری بھرتی کا سلسلہ شروع کیا، تو حمید بلوچ نے بی ایس او کے پلیٹ فارم سے اس سامراجی سازش کے خلاف بھرپور آواز اٹھائی۔ ان کی اس جراتِ رندانہ نے ظالم قوتوں کو للکارا، اور یہی وجہ بنی کہ 1981 میں جھوٹے مقدمے کے تحت انہیں پھانسی کی سزا دے دی گئی۔ مگر شہید حمید بلوچ کبھی بھی استعماری طاقتوں کے لیے مجرم نہیں تھے، وہ بلوچ قوم کے لیے ایک نظریاتی مجاہد، قومی ہیرو، اور آزادی کی جدوجہد کا روشن ستارہ بن کر ابھرے۔ ان کی شہادت نے قربانی، اصول پسندی، اور مزاحمت کی ایسی داستان رقم کی جو آج بھی بلوچ قوم کے لیے مشعلِ راہ ہے
ترجمان نے مزید کہا کہ شہید حمید بلوچ نے اپنی جان کا نذرانہ پیش کر کے نہ صرف بلوچ نوجوانوں کے ضمیروں کو جگایا، بلکہ ایک واضح پیغام دیا کہ بلوچ قوم کو نہ خریدا جا سکتا ہے، نہ جھکایا جا سکتا ہے، اور نہ ہی دبایا جا سکتا ہے۔ ان کا واحد جرم یہ تھا کہ وہ بلوچ قوم کو نوآبادیاتی تسلط اور بیرونی سازشوں کے خلاف بیدار کر رہے تھے۔ ان کی شہادت نے بلوچ جدوجہد کو ایک نئی روح عطا کی اور ہر بلوچ کے دل میں مزاحمت کا شعلہ روشن کیا۔
آخر میں انہوں نے کہا کہ بی ایس او اپنے اس عظیم شہید کی قربانی کو خراجِ تحسین پیش کرتے ہوئے یہ عہد کرتی ہے کہ شہید حمید بلوچ سمیت تمام بلوچ شہدا کے خون کو رائیگاں نہیں جانے دیا جائے گا۔ ہم شعور، تنظیم، اور مسلسل مزاحمت کے ذریعے اپنی جدوجہد کو اس وقت تک جاری رکھیں گے جب تک شہدا کے خوابوں کو حقیقت کا روپ نہ دے دیں۔ شہید حمید بلوچ کے افکار ہمارے لیے رہنما ہیں، اور ہم ان کے مشن کو پایہ تکمیل تک پہنچانے کے لیے پرعزم ہیں۔