
بلوچستان کے ضلع بارکھان کے علاقے رکنی میں 6 جون کو پاکستانی فوج اور ڈیتھ اسکواڈز کے ساتھ ہونے والی جھڑپ میں جاں بحق ہونے والے چار بلوچ سرمچاروں کی لاشوں کو انتظامیہ کی طرف سے لواحقین کے حوالے نہ کرنے کے معاملے نے لوحقین کو عدالتی راستہ اختیار کرنے پر مجبور کیا ہے۔ شہداء کے عزیزوں کا کہنا ہے کہ اگر بدھ 11 جون تک صبح 11 بجے تک لاشیں حوالے نہیں کی گئیں تو وہ ہائی کورٹ کا دروازہ کھٹکھٹائیں گے۔
ذرائع کے مطابق جاں بحق ہونے والوں میں مصطفیٰ نور (تسپ، پنجگور)، سمیع اللہ (ملائی بازار، تربت)، رسان قادر (لباچ ڈنسر، آواران) اور شاہ زیب (گونی گریشگ) شامل ہیں۔ ان کی لاشیں واقعے کے بعد رکنی سے سول ہسپتال شال منتقل کی گئی تھیں، لیکن انتظامیہ لاشوں کی حوالگی میں مسلسل ٹال مٹول سے کام لے رہی ہے۔
لواحقین نے بتایا کہ انھوں نے کئی دن تک سول ہسپتال شال میں انتظار کیا، لیکن منگل کو انھیں بتایا گیا کہ معاملہ پولیس کے ادارہ انسداد دہشت گردی (سی ٹی ڈی) کے پاس ہے۔ سی ٹی ڈی کے حکام کا کہنا ہے کہ لاشیں ڈپٹی کمشنر بارکھان اور مقامی تھانے کی اجازت کے بغیر حوالے نہیں کی جا سکتیں۔
انسان حقوق کے کارکنان اس عمل کو انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزی قرار دے رہے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ قوانین کے تحت شناخت اور ضروری کارروائی کے بعد شہداء کی لاشوں کو فوری طور پر رشتہ داروں کے حوالے کرنا انتظامیہ کی ذمہ داری ہے۔ لواحقین نے واضح کیا ہے کہ مقررہ وقت تک لاشیں نہ ملنے پر وہ عدالت کا رخ کریں گے۔
واضح رہے کہ بلوچستان میں شہداء کی لاشوں کو لواحقین کے حوالے نہ کرنے کی یہ کوئی پہلی واردات نہیں ہے۔ انسانی حقوق کی تنظیمیں مسلسل اس عمل کی مذمت کرتے ہوئے اسے بنیادی انسانی حقوق کی خلاف ورزی قرار دے رہی ہیں۔