ایک تاریخ ساز تحفہ

(نصیراحمد بلوچ کی تصنیف ان کی بیٹی حفصہ بلوچ کے نام)

تحریر: ڈاکٹر جلال بلوچ
زرمبش مضمون

تحفہ دینے کی روایت جتنی قدیم ہے، اس کی معنویت اور گہرائی بھی اتنی ہی وسیع ہے۔ تحفے بعض اوقات صرف جذبات کے اظہار کا وسیلہ ہوتے ہیں، مگر کچھ تحفے ایسے بھی ہوتے ہیں جو ایک نظریے، ایک عہد، اور فکری تسلسل کی علامت بن جاتے ہیں۔ ایسا ہی ایک بے مثال، تاریخ ساز تحفہ میرے محترم دوست نصیراحمد بلوچ نے اپنی بیٹی حفصہ کو ان کی شادی کے موقع پر پیش کیا۔ یہ نہ کوئی قیمتی زیور تھا، نہ زمین جائیداد، بلکہ یہ ایک علمی، فکری اور نظریاتی ورثہ تھا۔۔۔ ایک ’’کتاب‘‘، جو اب اس بیٹی کے ہاتھ میں امانت کے طور پر ہمیشہ کے لیے محفوظ ہو گئی ہے۔

یہ کتاب نصیراحمد بلوچ کی پہلی اور غالباً واحد تصنیف ہے، جو انہوں نے نہ صرف اپنی بیٹی کے نام منسوب کی بلکہ شادی جیسے جذباتی اور روایتی موقع پر بطور تحفہ اسے پیش کر کے ایک انوکھی روایت کی بنیاد رکھی۔ یہ عمل محض ایک تحفہ دینے کا نہیں بلکہ ایک فکری تحریک، شعور کی بیداری، اور مزاحمت کی علامت ہے۔ یہ اقدام اپنی نوعیت کا پہلا اور انوکھا عمل ہے، جس کی مثال تاریخ میں نہیں ملتی۔

چاہے کوئی بھی معاشرہ ہو، ان میں شادیوں کو عمومی طور پر رسومات اور جذباتی تعلقات کا امتزاج سمجھا جاتا ہے۔ والدین اپنی بیٹیوں کو سونے چاندی، جائیداد یا دیگر اثاثوں سے نوازتے ہیں تاکہ وہ نئے گھر میں باوقار اور آسودہ زندگی گزار سکیں۔ مگر نصیراحمد بلوچ نے اس مروجہ روایت کو ایک انقلابی رخ دیا۔ انہوں نے یہ باور کرایا کہ اگر ایک بیٹی کو فکری اور نظریاتی سرمایہ دیا جائے، تو وہ نہ صرف ایک کامیاب زندگی گزار سکتی ہے بلکہ اپنے خاندان، سماج اور قوم کی تقدیر بھی بدل سکتی ہے۔

یہ فیصلہ اس وقت کیا گیا جب نصیراحمد اور ان کی بیٹی، دونوں قوم کی آزادی کی جدوجہد میں عملی طور پر شریک ہیں۔ یہ کتاب محض ایک تحریری مجموعہ نہیں بلکہ ایک نظریاتی ورثہ ہے، جو نسل در نسل منتقل ہوگا، اور نئی راہیں دکھائے گا، یہ رسم ایک نئی مثال ہے جو مظلوم قوموں، محکوم طبقات اور بیدار ذہنوں کے لیے مشعل راہ بنے گی۔

باپ اور بیٹی کا رشتہ ہمیشہ شفقت، محبت اور تحفظ کی علامت رہا ہے، مگر یہاں اس رشتے نے ایک نئی جہت اختیار کی ہے۔ نصیراحمد بلوچ نے اپنی فکری کمائی، علمی اثاثہ، اور جدوجہد کی روح کو اپنی بیٹی کے سپرد کر کے ثابت کیا کہ وہ صرف ایک بیٹی نہیں بلکہ ایک نظریاتی امانت دار بھی ہے۔ یہ عمل اس بات کی گواہی ہے کہ فکری اور شعوری ورثہ بھی ایک نسل سے دوسری نسل کو منتقل کیا جا سکتا ہے، اور یہی اصل دولت ہے۔

نئی زندگی میں قدم رکھتے ہوئے اب حفصہ بلوچ محض ایک بیوی یا گھر کی منتظمہ نہیں ہوگی، بلکہ وہ ایک فکری قافلے کی رہنما ہو گی۔ اس کی تربیت، بصیرت اور فکری اساس اس قابل ہے کہ وہ نئی نسلوں کو شعور، مزاحمت اور آزادی کا پیغام دے۔ نصیراحمد کا یہ عمل عورت کے مقام کو بھی ایک نئی پہچان دیتا ہے، اور اس سوچ کی تردید کرتا ہے جو عورت کو صرف گھر کی چار دیواری میں محدود رکھنا چاہتی ہے۔

نصیراحمد کا یہ کارنامہ انمول ہے کیوں کہ تاریخ ہمیں بہت سے مفکرین، انقلابیوں، اور مصنفین سے روشناس کراتی ہے جنہوں نے اپنے خیالات کو قلمبند کیا، مگر ہمیں ایسی کوئی مثال نہیں ملتی کہ کسی نے اپنی کوئی کتاب اپنی بیٹی کو اس کے نکاح کے موقع پر تحفتاً دی ہو۔ البتہ نصیراحمد بلوچ نے اس رسم کی بنیاد رکھ دیا۔ ان کا یہ عمل صرف ایک ذاتی اظہار نہیں بلکہ ایک اجتماعی نصب العین کا بیان ہے۔ یہ اس بات کا اظہار ہے کہ فکر، شعور، اور مزاحمت کی تربیت کسی بھی موقع پر دی جا سکتی ہے۔ انہوں نے یہ ثابت کیا کہ قلم اور کتاب صرف درسگاہوں، کتب خانوں یا دانشوروں کی محفلوں تک محدود نہیں، بلکہ انہیں زندگی کے ہر اہم موقع کا حصہ بنایا جا سکتا ہے۔ خاص طور پر ایسے مواقع پر جب زندگی ایک نئے موڑ پر آتی ہے۔۔۔ جیسا کہ شادی۔ اس لمحے کو انہوں نے صرف ذاتی خوشی کا لمحہ نہیں رہنے دیا، بلکہ اسے ایک نظریاتی علامت بنا دیا۔ ہاں! ایک نظریاتی علامت: کیوں کہ ہم جانتے ہیں کہ کچھ تحفے وقت کے ساتھ ماند پڑ جاتے ہیں یا ان کی افادیت ختم ہو جاتی ہے، مگر کچھ تحائف ایسے ہوتے ہیں جن کی قدر و قیمت وقت کے ساتھ بڑھتی چلی جاتی ہے۔ نصیراحمد بلوچ کی یہ تصنیف بھی ایسا ہی ایک بیش قیمت تحفہ ہے۔ جب جب حفصہ بلوچ اسے اپنے ہاتھ میں لے گی، تو وہ صرف والد کی محبت محسوس نہیں کرے گی بلکہ اپنے کندھوں پر ایک فکری ذمہ داری اور نظریاتی امانت کا احساس بھی محسوس کرے گی۔ یہی شعوری احساس اسے اپنے مقصد میں مزید متحرک کرنے کا باعث بنے گا۔

کیا اقدام اٹھایا نصیراحمد بلوچ نے، جس کی جتنی تعریف کی جائے کم ہے کہ یہ تحفہ اب محض ایک باپ اور بیٹی کے درمیان کا معاملہ نہیں رہا۔ یہ واقعہ ایک انقلابی روایت بن چکا ہے۔ آئندہ جب کوئی باپ اپنی اولاد کو فکر، علم، اور نظریے کا تحفہ دے گا، تو یقینی طور پر نصیراحمد بلوچ اور ان کی بیٹی حفصہ کا ذکر آئے گا۔ یہ ایک نئی رسم کی بنیاد ہے، جو ہر اُس معاشرے کے لیے مثال ہے جو فکری آزادی اور شعوری بیداری کا متمنی ہے۔ جہاں کہیں بھی اس جیسی روایت کو دہرایا جائے گا، وہاں یہ ضرور کہا جائے گا کہ ’’یہ رسم تو نصیراحمد اور حفصہ کی یاد دلاتی ہے‘‘۔ یہ انقلابی طرزِ عمل تاریخ میں وہی مقام حاصل کرے گا جو ان ہستیوں کو ملتا ہے جو روایتوں کو توڑتے، اقدار کو ازسرنو مرتب کرتے، اور سماجی معیارات کو نئے سانچے دیتے ہیں۔

آخر میں صرف اتنا کہنا چاہونگا کہ تاریخ انہی لوگوں کو یاد رکھتی ہے جو روایتوں کے دائرے توڑ کر نئی راہیں کھولتے ہیں۔ نصیراحمد بلوچ کا اپنی بیٹی کو اپنی پہلی تصنیف بطور تحفہ دینا، اور وہ بھی ایسے وقت میں جب وہ دونوں قومی آزادی کی جدوجہد میں مصروف ہیں، یقیناً ایک ناقابلِ فراموش اور انقلابی اقدام ہے۔ ایسے ہی کرداروں پر تاریخ فخر کرتی ہے، اور آنے والی نسلیں ان کے نقشِ قدم پر چل کر نئی دنیا تراشتی ہیں۔

مدیر

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Next Post

وی بی ایم پی کا احتجاجی کیمپ 16 سال اور 13 دن سے مسلسل جاری، ماما قدیر بلوچ کی کیمپ آمد

منگل جون 10 , 2025
شال (کوئٹہ) پریس کلب کے سامنے وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز (وی بی ایم پی) کا احتجاجی کیمپ 16 سال اور 13 دن سے لگاتار جاری ہے۔ منگل کے روز  وی بی ایم پی کے وائس چیئرمین ماما قدیر بلوچ نے صحت یابی کے بعد کیمپ میں شرکت کی اور […]

توجہ فرمائیں

زرمبش اردو

زرمبش آزادی کا راستہ

زرمبش اردو ، زرمبش براڈ کاسٹنگ کی طرف سے اردو زبان میں رپورٹس اور خبری شائع کرتا ہے۔ یہ خبریں تحریر، آڈیوز اور ویڈیوز کی شکل میں شائع کی جاتی ہیں۔

آسان مشاہدہ