ضمیر فروش صحافت: آواران کا المیہ

تحریر :آذاد بلوچ
زرمبش مضمون

وہ خطہ جہاں ہر دن مظلومیت کی ایک نئی داستان رقم ہوتی ہے، جہاں ہر رات ماں کی آہوں اور بینوں سے لبریز ہوتی ہے۔ مگر افسوس، یہاں ظلم سے بڑا سانحہ خاموشی ہے— وہ خاموشی جو ان زبانوں پر طاری ہے، جو خود کو "صحافت” کا دعویدار کہتی ہیں۔

اواران کے خودساختہ صحافی جو صبح و شام سوشل میڈیا پر خود کو عوام کا نمائندہ، مظلوموں کا وکیل، اور سچ کا سپاہی ظاہر کرتے ہیں، دراصل مفاد پرستی کے غلام بن چکے ہیں۔ ان کے لیے نہ حق کی کوئی اہمیت باقی ہے، نہ ظلم کی کوئی پہچان۔ ان کے کیمرے صرف اس وقت آن ہوتے ہیں جب فنڈ کی درخواست دی جا رہی ہو، کسی این جی او کا پروجیکٹ تقسیم کیا جا رہا ہو، یا کسی افسر کے سامنے سولر پلیٹس اور مالی امداد کی قطاریں لگی ہوں۔

یہ وہ چہرے ہیں جو ہر تصویر میں نمایاں نظر آتے ہیں — کبھی امدادی سامان کے کاغذات کے ساتھ، کبھی کسی تقریب میں جعلی تعریفی اسناد لیتے ہوئے، اور کبھی کسی مشہور شخصیت کے ساتھ سیلفی بناتے ہوئے۔ مگر جب کسی گاؤں کے کچے گھر پر ریاستی جبر ٹوٹتا ہے، جب رات کی تاریکی میں کسی نوجوان کو ماں کی گود سے اٹھا کر لاپتا کر دیا جاتا ہے، یا جب کسی بے گناہ کے سینے کو گولی چیرتی ہے — تب یہی صحافی غائب ہو جاتے ہیں۔

ان کی زبانیں گنگ، ان کے قلم خشک، ان کے سوشل میڈیا اکاؤنٹ خاموش، اور ان کا ضمیر دفن ہو جاتا ہے۔ کیونکہ وہ جانتے ہیں کہ اگر وہ سچ بولیں گے، تو ان کی سولر پلیٹس بند ہو جائیں گی، فنڈ منجمد ہو جائے گا، اور وہ طاقتور طبقے کے عتاب کا شکار ہوں گے۔ لہٰذا وہ سچ نہیں بولتے، مظلوم کی آواز نہیں بنتے، بلکہ ظلم کے پردہ دار بن جاتے ہیں۔

یہ وہی صحافی ہیں جنہوں نے صحافت کو عبادت نہیں، تجارت سمجھا۔ جنہوں نے قلم کو چاپلوسی کا آلہ بنا دیا۔ جو اپنے ضمیر کا سودا فیس بک پوسٹس، جعلی رپورٹس، اور امدادی تھیلوں کے عوض کر چکے ہیں۔ ان کے نزدیک صحافت کا مطلب ہے: تصاویر، اسناد، "شکریہ فلاں ادارہ”، اور اپنی جیبیں بھرنا۔

اور جب ان سے سوال کیا جائے کہ:
"اواران کے مظلوموں کے حق میں تم نے کیا لکھا؟”
تو جواب ملتا ہے:
"ہمیں احتیاط برتنی چاہیے”یا پھر”ہم غیر جانبدار ہیں”۔

یہ غیر جانبداری  نہیں، یہ بزدلی ہے۔یہ خاموشی نہیں،  شراکتِ جرم ہے۔جو ظلم کے سامنے خاموش ہو، وہ ظالم کے ساتھ کھڑا ہوتا ہےاور جو صحافت ظلم پر خاموشی اختیار کرے، وہ صحافت نہیں، درباری چاپلوسی ہے۔

اواران میں جب کسی عام شہری کی لاش گر جائے تو کوئی خبر نہیں بنتی، لیکن جب کسی صحافی کے کاغذی دفتر پر مٹی جم جائے تو سوشل میڈیا پر واویلا مچ جاتا ہے۔
یہ دہرا معیار ہے، یہ کھلی منافقت ہے۔
صحافت کا دعویٰ کرنے والے اگر سچ کے سامنے خاموش ہیں، تو وہ عوام کے مجرم ہیں۔

تاریخ گواہ ہے کہ جب بھی قومیں تباہ ہوئیں، وہاں کے صحافیوں نے یا تو خاموشی اختیار کی، یا ظالموں کا ساتھ دیا۔ اور آج اواران میں یہی منظر نامہ ہے۔
جب ہر گاؤں کا نوجوان کسی نہ کسی المیے کا شکار ہو چکا ہے، جب ہر گھر میں خوف نے بسیرا کر لیا ہے — ایسے وقت میں یہی چہرے صرف سرکاری دعوتوں، بینرز، اور تعریفی اسناد میں مصروف دکھائی دیتے ہیں۔

لیکن یاد رکھو — وقت ہمیشہ ایک سا نہیں رہتا۔
جب عوام جاگے گی، جب مظلوم بولے گا، تو سب سے پہلے وہ ضمیر فروشوں سے حساب لے گا —
جنہوں نے سچ چھپایا، جنہوں نے اپنا قلم بیچ کر قوم کو اندھیرے میں رکھا،جنہوں نے دشمن کا ساتھ دے کر اپنوں کی پیٹھ میں چھرا گھونپا۔

ایسے صحافیوں کو نہ قوم معاف کرے گی، نہ تاریخ بھولے گی۔ان کے نام ضمیر فروشوں کی فہرست میں درج کیے جائیں گے،اور مظلوموں کی دعاؤں میں ان کے لیے کوئی جگہ نہ ہو گی۔

مدیر

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Next Post

زامران: پاکستانی فورسز کی چوکی پر مسلح افراد کا حملہ

پیر جون 9 , 2025
بلوچستان کے ضلع کیچ کے علاقے زامران میں مسلح افراد نے پاکستانی فورسز کی ایک چوکی کو نشانہ بنایا ہے۔ ذرائع کے مطابق، آج صبح تقریباً گیارہ بجے زامران کے علاقے نرمک میں مسلح افراد نے پاکستانی فورسز کی چوکی پر بھاری ہتھیاروں سے حملہ کیا۔ حملے کے نتیجے میں […]

توجہ فرمائیں

زرمبش اردو

زرمبش آزادی کا راستہ

زرمبش اردو ، زرمبش براڈ کاسٹنگ کی طرف سے اردو زبان میں رپورٹس اور خبری شائع کرتا ہے۔ یہ خبریں تحریر، آڈیوز اور ویڈیوز کی شکل میں شائع کی جاتی ہیں۔

آسان مشاہدہ