تحریر :چاکر بلوچ
زرمبش مضمون

آج ہمارے علاقے آواران میں لوگوں کو اس بےدردی سے قتل کر کے ان کی لاشیں جنگلوں اور ویرانوں میں پھینکا جا رہا ہے کہ ایسا سلوک تو کوئی درندہ بھی کسی جانور کے ساتھ نہیں کرتا۔
آپ سب جانتے ہیں، مشکے میں ایک ہی مہینے کے دوران 17 یا 18 افراد کو بےدردی سے قتل کر کے ان کی لاشیں سنسان علاقوں میں پھینک دی گئیں۔ ایک ہی خاندان کے نو افراد کو شہید کر دیا گیا۔
اب جھاؤ میں بھی یہی پالیسی شروع ہو چکی ہے۔ وہاں بھی کئی افراد کو شہید کیا گیا ہے۔ ان میں ایک استاد، درمان، بھی شامل تھا۔
استاد درمان کو پہلے اس کے گاؤں کے تمام لوگوں سمیت اٹھایا گیا، مگر بعد میں باقیوں کو رہا کر کے صرف استاد درمان کو حراست میں رکھا گیا۔
چند دن بعد اُسے رہا کرتے ہوئے کہا گیا کہ "کل دوبارہ پیشی کے لیے آنا ہے”۔
اگلے دن جب وہ پیشی کے لیے گیا تو اسے بتایا گیا: "ابھی گھر چلے جاؤ”۔
لیکن جب وہ واپس اپنے گھر جا رہا تھا، تو راستے میں اسے شہید کر دیا گیا۔
آج بھی بہت سے لوگ لاپتہ ہیں۔
ان میں استاد عبد الواحد اور اس کے گاڑی کے کلینڈر بھی شامل ہیں جنہیں چند دن قبل ان کی گاڑی سے اتار کر غائب کر دیا گیا۔
کسی کو ان کے بارے میں کچھ معلوم نہیں۔ ہمارے لوگوں کی کیا حالت ہے، ہمیں خود بھی نہیں معلوم۔
فوج کے ایک کرنل نے برملا کہا:
"میں ابھی کسی کو نہیں چھوڑوں گا، سب کو مار کر پھینک دوں گا”۔
یہ محض ایک فرد کا بیان نہیں، بلکہ ریاستی سوچ اور پالیسی کی نمائندگی کرتا ہے۔
یہ اُس نظام کی زبان ہے جو ہمیں صفحۂ ہستی سے مٹانا چاہتا ہے —
ہماری شناخت، ہماری زبان، ہمارے بزرگ، ہمارے نوجوان — سب کچھ ختم کر دینا چاہتا ہے۔
یہ بلوچ نسل کشی کا کھلے عام اعلان ہے!
آواران کے باشعور لوگو!
اب خدارا اُٹھو!
کب تک اپنی باری کا انتظار کرتے رہو گے؟
کب تک اپنے پیاروں کی لاشوں کو کندھا دیتے رہو گے؟
کب تک فارم 47 والوں کے جھوٹ اور دلاسوں کے دھوکے میں بیٹھے رہو گے؟
کیا یہی لوگ ہمیں انصاف دلائیں گے؟
کہاں ہیں وہ نام نہاد قوم پرست؟
جو کل تک ووٹ کے لیے بڑی بڑی تقریریں کرتے تھے،
دعویٰ کرتے تھے کہ "میں قوم پرست لیڈر ہوں، ہر غم و خوشی میں اپنی قوم کے ساتھ ہوں”۔
جناب! آج آپ کہاں ہیں؟
پورے ضلع کو جہنم میں تبدیل کر دیا گیا ہے!
کہاں گیا وہ کسان دوست اور غریب پرور؟
یہ سب آج اپنے اپنے حصے لے رہے ہیں —
کسی نے سینیٹ کی کرسی کے لیے،
تو کسی نے ایم پی اے شپ کے عوض اپنی قوم کو بیچ دیا۔
کہاں ہیں وہ نام نہاد صحافی اور لکھاری؟
جو کل تک شمسی پلیٹ، چھوٹے موٹے ٹھیکے اور نوکریوں کے لیے بڑی بڑی تحریریں لکھتے تھے؟
آج ان کے قلم کی سیاہی خشک ہو چکی ہے،
ان کی زبانوں پر تالے لگ چکے ہیں۔
اگر ان کی صحافت صرف مفاد، نوکری اور سولر پلیٹوں کے لیے تھی —
تو لعنت ہو ایسی صحافت پر!
کہاں ہیں وہ مولوی، وہ خطیب؟
جنہیں ساتھ سمندر پار فلسطین کا ظلم تو نظر آتا ہے،
لیکن اپنے علاقے میں اپنی قوم کے ساتھ ہونے والا ظلم نظر نہیں آتا۔
یہ جناب ممبروں پر بیٹھ کر صرف زکوٰۃ، چندے اور فلسطین کی بات کرتے ہیں،
لیکن انہیں یہ جرات نہیں ہوتی کہ اپنے ہی علاقے میں ہونے والے ظلم کے خلاف ایک لفظ بول سکیں۔
اسلام کے سچے مجاہدین تو حق کے لیے اپنے خون کا نذرانہ پیش کرتے تھے،
مگر آج کے علما نے حق کہنا چھوڑ دیا ہے۔
اگر آپ ہمیں پاکستانی ریاست کے نظریے کے مطابق "کافر” بھی سمجھتے ہیں —
تو بھی دینِ اسلام یہی کہتا ہے کہ
اگر آپ کے علاقے میں کسی غیر مسلم پر بھی ظلم ہو رہا ہو،
تو آپ کو اس کے ساتھ کھڑا ہونا ہے، اور اس کے حق میں آواز بلند کرنی ہے۔
تو پھر آج کہاں ہے وہ دینِ اسلام؟
آج کہاں ہیں وہ مجاہدین؟
آج کے علما تو صرف مظلوموں پر فتوے لگانے کے قابل رہ گئے ہیں!
آواران کے باشعور لوگو!
اب خاموشی ترک کرو!
اُٹھو!
اپنی آواز خود بنو!
اپنی حفاظت کے لیے خود کھڑے ہو جاؤ!
کوئی ہمارے لیے نہیں آئے گا!
اگر ہم نے آج اپنے اندر چھپے ہوئے خوف کو نکالا نہیں،
اور خاموشی سے اپنی باری کا انتظار کرتے رہے،
تو کل ہمارے بچے ہماری قبروں کو بھی لعنت دیں گے!