تحریر: دربیش بلوچ
زرمبش مضمون

یکم جون 2011 کو کوئٹہ میں نامعلوم افراد کی فائرنگ سے ممتاز دانشور، محقق، استاد، اور بلوچ قوم کے فکری رہنما، پروفیسر صباہ دشتیاری شہید کر دیے گئے۔ ان "نامعلوم افراد” کی حقیقت بلوچ عوام پر روزِ روشن کی طرح عیاں ہے۔ شہید استاد کو انسانی حقوق کے کارکنوں اور دانشوروں کے خلاف ریاستی جبر کی علامت کے طور پر یاد کیا جاتا ہے۔
استاد صباہ دشتیاری ہمیشہ حق، سچ، اور صاف گوئی کے قائل رہے۔ وہ کسی بھی مصلحت یا خوف کے بغیر سچ کہنے کا حوصلہ رکھتے تھے، یہی وجہ تھی کہ انہیں "بلوچستان کا سقراط” کہا جاتا ہے۔ انہوں نے اپنی پوری زندگی بلوچ زبان، ادب، اور ثقافت کی خدمت کے لیے وقف کر دی۔
ان کی قائم کردہ لائبریری اور علمی خدمات آج بھی بلوچ قوم کے لیے فکری رہنمائی کا ذریعہ ہیں۔ شہید استاد غلام حسین عرف صباہ دشتیاری ایک ممتاز بلوچ فلسفی، دانشور، محقق، شاعر اور استاد تھے جنہوں نے بلوچ زبان، ادب، اور تاریخ کے فروغ میں ناقابلِ فراموش کردار ادا کیا۔
صباہ دشتیاری 1953 میں کراچی کے علاقے لیاری میں پیدا ہوئے۔ ابتدائی تعلیم یہیں سے حاصل کی اور بعد ازاں کراچی یونیورسٹی سے فلسفہ اور اسلامیات میں ماسٹرز کی ڈگریاں حاصل کیں۔ وہ اردو، انگریزی، فارسی، اور عربی زبانوں پر عبور رکھتے تھے۔
انہوں نے بلوچستان یونیورسٹی، کوئٹہ میں اسلامیات کے استاد کے طور پر تدریسی خدمات انجام دیں۔ ابتدا میں وہ بلوچی زبان سے زیادہ مانوس نہ تھے، لیکن 1982 میں ریڈیو کوئٹہ پر بلوچی زبان میں پروگرام کرنے کے بعد ان کی فکر میں تبدیلی آئی، اور وہ بلوچی زبان و ادب کے ایک سرگرم مبلغ بن گئے۔
استاد صباہ دشتیاری نے بلوچی ادب، شاعری، تاریخ، اور تراجم پر 24 سے زائد کتب تحریر کیں۔ 2003 میں انہوں نے کراچی کے علاقے ملیر میں "سید ظہور شاہ ہاشمی ریفرنس لائبریری” قائم کی، جس میں بلوچ ثقافت و ادب پر 1,50,000 سے زائد کتابیں محفوظ ہیں۔ یہ لائبریری آج بھی بلوچ علمی و ادبی سرمائے کا خزانہ ہے۔
شہید صباہ دشتیاری بیماری کے باوجود بلوچ زبان کی ترویج کے لیے ہمہ وقت سرگرم رہے۔ سالانہ چھٹیوں میں وہ "بلوچی بنگیجی کورس” کے نام سے بنیادی تعلیمی پروگرام منعقد کرتے تاکہ بچوں، طالب علموں اور خواتین میں بلوچی زبان پڑھنے اور لکھنے کا شوق پیدا ہو۔ وہ لیاری سے روزانہ بس کے ذریعے ملیر کے مختلف بلوچ محلّوں میں جا کر تعلیم دیتے۔
جب ہم، اُن کے شاگردوں نے انہیں صحت کی خرابی کے باعث آرام کا مشورہ دیا تو وہ مسکرا کر بولے:
"میں اس بیماری سے نہیں مروں گا، میں دشمن کی گولی سے مروں گا۔ اور میری یہی خواہش ہے کہ مرتے وقت کم از کم دشمن کو ایک گولی کا تو نقصان دے کر مروں۔”
استاد صباہ دشتیاری ہر فرد سے محبت سے پیش آتے۔ اگر کسی سے ایک بار ملاقات ہو جاتی تو وہ سالوں بعد بھی اس کا نام یاد رکھتے اور پکار کر ملتے۔ اُن کی یادداشت اور محبت دیکھ کر ہر شخص حیران رہتا۔
بلوچی زبان کے زرّیں اقوال پر مشتمل اسٹیکرز خود تیار کرتے اور انہیں گھر گھر جا کر تقسیم کرتے۔ ہم نے کئی بار کہا:
"استاد، یہ اسٹیکرز کسی دوست کے ذریعے بھی بھجوائے جا سکتے ہیں۔ اتنی دور آنے کی کیا ضرورت ہے؟”
تو استاد مسکرا کر جواب دیتے:
"میں یہ اسٹیکرز مفت دے سکتا ہوں، لیکن مفت میں لینے سے ان کی اہمیت کم ہو جاتی ہے۔ دس روپے کی معمولی قیمت سے لوگ ان کی قدر کریں گے، اور اسی بہانے دوستوں اور شاگردوں سے ملاقات بھی ہو جائے گی۔”
ان کے ہر عمل کے پیچھے ایک فلسفہ، ایک پیغام چھپا ہوتا تھا۔
استاد صباہ دشتیاری نے بلوچی زبان میں انقلابی شاعری اور افسانے تحریر کیے جن میں بلوچ معاشرے کے مسائل، خاص طور پر خواتین سے روا رکھے جانے والے سلوک کو اجاگر کیا گیا۔ ان کی معروف تصانیف میں:
٫آس و آثیب”ہون و ہوشم”ترنگانی بنزہ”
شامل ہیں۔
جنرل پرویز مشرف کے آمرانہ دور میں استاد صباہ دشتیاری نے بلوچ قومی تحریک میں فعال کردار ادا کیا۔ وہ بلوچ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن (بی ایس او) کی ریلیوں میں شرکت کرتے، اور لاپتہ افراد کے لواحقین سے اظہارِ یکجہتی کے لیے بھوک ہڑتالی کیمپوں میں شریک ہوتے۔ اس وقت ریاست کی جانب سے بلوچ قومی پارٹیوں، بالخصوص بی این ایف، بی این ایم، اور بی ایس او آزاد کی قیادت کو لاپتہ یا شہید کیا جا رہا تھا۔ایسے میں استاد صباہ دشتیاری نے قیادت کا خلا پر کیا، اور شہادت تک ایک سرگرم قومی رہنما کے طور پر جدوجہد کرتے رہے۔
اگرچہ جسمانی طور پر استاد اب ہمارے درمیان نہیں رہے، لیکن فکری حوالے سے وہ آج بھی زندہ ہیں، اور ہمیشہ رہیں گے۔ ان کی تحریریں، ان کا فلسفہ، ان کا کردار آج بھی بلوچ نوجوانوں کے لیے مشعلِ راہ ہے۔میں خود کو شہید استاد صباہ دشتیاری کا شاگرد کہنے پر فخر محسوس کرتا ہوں۔
آج ان کی شہادت کے دن ہم دل کی گہرائیوں سے انہیں خراجِ عقیدت پیش کرتے ہیں، اور سرخ سلام پیش کرتے ہیں — اس سقراطِ بلوچستان کو، جس نے علم، محبت، سچائی، اور مزاحمت کا چراغ روشن کیا۔