
تحریر: نمر بلوچ
زرمبش مضامین
وہ گلیاں جہاں کبھی چراغ جلتے تھے، طبلے کی تھاپ پر پائل چھنکتی تھی، اور ہر زاویے سے رقص و رنگ کی خوشبو اٹھتی تھی—اب سنسان ہو چکی ہیں۔مگر افسوس، صرف کوٹھے ویران ہوئے ہیں، فطرت نہیں بدلی۔ کہتے ہیں ہیرا منڈی ماضی کا قصہ بن چکی ہے۔
آج بھی طبلہ بجتا ہے، مگر سُر سچائی کے نہیں، طاقت اور مفاد کے ہیں۔ آج بھی چراغ جلتے ہیں، مگر ان کی روشنی انصاف نہیں، اندھیرے بڑھاتی ہے۔ وہی سوداگری ہے، بس عنوان بدل گئے ہیں۔ پہلے جسم بِکتے تھے، اب ضمیر، نظریے، تاریخ، اور پوری نسلیں نیلام ہو رہی ہیں—ایوانوں میں، عدالتوں میں، اور ٹی وی اسکرینوں پر۔
اب سوال اٹھانا فتنہ ہے، اختلافِ رائے غداری، حق مانگنا بغاوت۔ اور اگر آپ بلوچستان سے ہیں، تو یہ سب کچھ "دہشت گردی” میں شمار ہوتا ہے۔
عجب تماشہ ہے: وہ مائیں، جنہوں نے اپنے بیٹوں کو لختِ جگر کہا، آج انہی کی گمشدگی پر سوال کریں تو انہیں ریاست دشمن قرار دے دیا جاتا ہے۔ ان پر لاٹھیاں برستی ہیں، آنسو گیس پھینکی جاتی ہے، اور ان کی چیخ کو قومی سلامتی کے خلاف سازش بنا کر پیش کیا جاتا ہے۔
فتنہ؟ جی ہاں، اب “فتنہ فلاں” اور “فتنہ فلاں” کے نئے عنوانات ہیں۔ جو بھی سچ بولے، وہ فتنہ۔ جو سوال کرے، وہ فتنہ۔ جو اپنے حق کے لیے کھڑا ہو، وہ فتنہ۔
مگر سوال یہ ہے کہ اگر یہ سب فتنہ ہیں، تو اصل فتنہ کون ہے؟
اصل فتنہ وہ ہیں جو نسل در نسل ہیرا منڈی کی باقیات میں پل کر، اب ایوانوں میں جلوہ افروز ہیں۔ وہ جو کبھی کوٹھوں پر نرخ طے کرتے تھے، آج قوموں کی تقدیر کا سودا کرتے ہیں۔ انہوں نے صرف لباس بدلا ہے، نیت نہیں۔
طوائفیں اب پائل نہیں پہنتیں، وہ اب پارلیمانی خطبے دیتی ہیں۔ ان کی آواز میں سچ نہیں، مفاد کا جھوٹ چھپا ہوتا ہے۔ ان کی نشست اب کوٹھے کا تخت نہیں، سینیٹ کی کرسی ہے۔ اور وہی سوداگر اب میڈیا کے اینکر بنے بیٹھے ہیں، جو ہر جھوٹ کو "خبر” اور ہر مظلوم کو "خطرہ” بنا کر پیش کرتے ہیں۔
تعلیم؟ وہ شعور بانٹنے کے بجائے نوجوانوں کو شرمندگی سکھاتی ہے۔
میڈیا؟ وہ خبر دینے کے بجائے بیانیہ بیچتا ہے۔
عدالت؟ وہ انصاف کی جگہ طاقت کی وکالت کرتی ہے۔
یہ وہی فکری زوال ہے، جو شعور کو فالج زدہ اور ضمیر کو پالتو بنانے کی منظم کوشش ہے۔ یہ کسی خارجی سازش کا نتیجہ نہیں، بلکہ ہماری اپنی نسل در نسل پرورش کی پیداوار ہے—وہی پرانی ہیرا مندی کا نیا ایڈیشن، جہاں سب کچھ نیا ہے سوائے نیت کے۔
اور ہم؟ ہم آج بھی طوائفوں کو پرانی گلیوں میں تلاش کرتے پھرتے ہیں، جب کہ وہ اب جدید ترین لباس اور چمکتے ایوانوں میں پوری ملت کا سودا کر رہی ہیں۔
فرق صرف اتنا ہے کہ پہلے کوٹھوں کے باہر سرخ بتی جلتی تھی، اب اندر سبز ہلالی پرچم لہرا رہا ہے۔
وقت آ چکا ہے کہ ہم طبلے کے سُروں سے دھوکہ کھانا بند کریں۔ ہمیں چراغوں کی روشنی سے نہیں، ان کی نیت سے ڈرنا چاہیے۔
ہمیں فیصلہ کرنا ہو گا: کیا ہم سچ کے فتنہ بننے کا حوصلہ رکھتے ہیں یا جھوٹ کے خاموش غلام رہنے کا؟
کیونکہ تاریخ اُن قوموں کو یاد رکھتی ہے جو ظلم پر بولتی ہیں، اور بھلا دیتی ہے اُنہیں جو صرف تماشائی بنے رہتے ہیں۔