
بلوچ نیشنل موومنٹ کے سیکرٹری جنرل دل مراد بلوچ نے کہا ہے کہ آج بلوچستان کے غیر معمولی فکری، ادبی اور آزادی و انقلاب کے پیمبر صبا دشتیاری کا برسی ہے، پروفیسر صبا دشتیاری وہ عظیم سیاسی و علمی استاد ہے جن کی عظمت اور قربانی پر بلوچ قوم کا بچہ بچہ ناز کرتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ پروفیسر دشتیاری کا اصلی نام غلام حسین تھا لیکن علمی، ادبی و سیاسی دنیا میں وہ صبا دشتیاری کے نام نامی سے مشہور ہوئے۔ صبا دشتیاری بلوچستان یونیورسٹی میں اسلامیات کے پروفیسر تھے لیکن وہ منصب یا سرکاری عہدے اور ذمہ داریوں سے بہت بلند فکری، علمی و عملی انسان تھے، صبا صاحب کی سوچ کسی مخصوص دینی یا روایتی خانے میں محدود نہ تھی۔
دل مراد بلوچ نے مزید کہا کہ ایک وقت تھا کہ وہ صرف ادبی میدان میں متحرک تھے لیکن وقت کے ساتھ ساتھ انہوں بلوچ قومی تحریک سے گہری وابستگی اختیار کی اور بلوچ قوم کی سیاسی و علمی میدان میں رہنمائی کا فریضہ انجام دینا شروع کیا۔
انہوں نے کہا کہ صبا دشتیاری نے بلوچ نوجوانوں میں تنقیدی شعور، مطالعے اور علمی استدلال اور قومی جڑت پیدا کرنے میں گراں قدر خدمات انجام دیئے، ان کے علمی و ادبی خدمات اور فکر و سیاست کا میرے خیال یہ نچوڑ تھا کہ "علم کے بغیر آزادی ممکن نہیں اور آزادی کے بغیر علم بے معنی ہے۔”
انہوں نے بلوچی ادب، زبان، تاریخ اور سیاست پر گراں قدر کام کیا۔ ان کی تحریریں، تراجم، لیکچرز اور تقاریر بلوچ قومی تاریخ کے انمول باب ہیں۔
دل مراد بلوچ نے کہا کہ آخر کار وہ بدقسمت دن بھی آں پہنچا کہ پاکستان نے بلوچ علمی مینار کر گرانے، بلوچ فکری مشعل کو بجھانے کا فیصلہ کیا اور آج ہی کے دن انہیں کوئٹہ کی سڑکوں پر پاکستان نے شہید کردیا لیکن صبا تو سورج کی کرنوں میں، چاند کی چاندنی میں، سرمچاروں کے ھکل میں، غزالی دلوں کے دھڑکن میں، اسٹیج کے نعروں میں جوش و خروش سے بول رہا ہے کیونکہ صبا کا اعلان تھا کہ ” میں بولوں گا”