
صحافیوں کے تحفظ کے لیے کام کرنے والی بین الاقوامی تنظیم “کمیٹی ٹو پروٹیکٹ جرنلسٹس” (CPJ) نے پاکستانی حکام سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ بلوچستان میں 24 مئی کو صحافی لطیف بلوچ کے بہیمانہ قتل کی فوری، غیرجانبدار اور شفاف تحقیقات کو یقینی بنائیں۔ سی پی جے کا کہنا ہے کہ اس اندوہناک واقعے میں ملوث عناصر کو قانون کے کٹہرے میں لایا جائے تاکہ صحافیوں کے خلاف بڑھتے ہوئے تشدد کا سدباب کیا جا سکے اور آزادی صحافت کا تحفظ یقینی بنایا جا سکے۔
کمیٹی ٹو پروٹیکٹ جرنلسٹس (سی پی جے) کے مطابق، 24 مئی کی صبح نامعلوم مسلح افراد نے ضلع آواران کی تحصیل مشکے میں واقع صحافی لطیف بلوچ کے گھر پر دھاوا بول دیا اور اُن پر فائرنگ کر دی۔ بی بی سی کی رپورٹ کے مطابق، لطیف بلوچ کو چار گولیاں لگیں۔ مقامی پولیس کا کہنا ہے کہ واقعے کی تفتیش جاری ہے، تاہم اب تک قتل کی وجوہات سامنے نہیں آ سکی ہیں۔
دوسری جانب، بلوچ سیاسی اور سماجی حلقوں کا دعویٰ ہے کہ لطیف بلوچ کو سیکیورٹی فورسز نے فائرنگ کا نشانہ بناکر قتل کردیا ہے۔
روزنامہ انتخاب سے وابستہ صحافی عبداللطیف بلوچ کو تحصیل مشکے میں 24 مئی کی صبح تقریباً 3 بجے ان کے گھر میں قتل کر دیا گیا۔ عینی شاہدین کے مطابق، فائرنگ کا یہ واقعہ اُن کے اہل خانہ کے سامنے پیش آیا۔ عبداللطیف بلوچ بلوچستان میں جاری تنازعات اور حساس نوعیت کے معاملات پر رپورٹنگ کے حوالے سے جانے جاتے تھے، جس کی بنا پر وہ ایک جری اور بے باک صحافی سمجھے جاتے تھے۔
سی پی جے کی ایشیا ریجن کی ڈائریکٹر بیہ لی یی نے بیان میں کہا پاکستانی حکام کو چاہیے کہ وہ فوری طور پر لطیف بلوچ کے قتل کی وجوہات کا پتہ لگائیں اور یہ معلوم کریں کہ آیا ان کا قتل صحافتی کام سے جڑا ہوا تھا۔
پاکستان میں صحافیوں کو ریاستی اور غیر ریاستی عناصر کی جانب سے بڑھتی ہوئی تشدد اور دھمکیوں کا سامنا ہے، حکومت کو بلوچستان سمیت پورے ملک میں صحافیوں کی حفاظت اور آزادی کو یقینی بنانا ہوگا۔
سی پی جے نے اپنے بیان میں کہا ہے کہ لطیف بلوچ کا تعلق روزنامہ انتخاب، آج نیوز اور اے آر وائی نیوز جیسے معروف اداروں سے رہا ہے اور وہ بلوچستان جیسے حساس خطے کی رپورٹنگ کرتے تھے۔
سی پی جے نے بتایا کہ بلوچستان پولیس کے انسپکٹر جنرل معظم جاہ انصاری نے صحافی کے قتل کے تحقیقات حوالے ان کے پیغام کا جواب نہیں دیا۔
صحافیوں کے تحفظ کی تنظیم نے کہا ہے کہ پاکستان صحافیوں کے لیے ایک خطرناک ملک تصور کیا جاتا ہے خاص طور پر ان صحافیوں کے لیے جو شدت پسندی طاقتور اداروں فوجی اسٹیبلشمنٹ بدعنوانی اور جرائم پر تنقیدی رپورٹنگ کرتے ہیں۔
سی پی جے نے اپنے بیان میان مزید کہا ہے کہ 1992 سے اب تک پاکستان میں 75 صحافی اور میڈیا ورکرز اپنے کام کے دوران قتل ہو چکے ہیں، پاکستان سی پی جے کے 2024 کے گلوبل امپیونٹی انڈیکس میں بارہویں نمبر پر ہے، جو اُن ممالک کی فہرست ہے جہاں صحافیوں کے قاتلوں کو سزا نہیں دی جاتی۔