غنی بلوچ: جب کتاب دوستی جرم بن جائے

تحریر: رامین بلوچ
زرمبش مضمون

بلوچ سرزمین پر ایک بار پھر مزاحمت کے سینے میں دفن ایک صدا گونجی ہے۔ یہ صدا ایک ایسے شخص کی ہے جس کا واحد جرم کتاب سے محبت، شعور سے وابستگی، اور دانش سے رفاقت تھی—غنی بلوچ۔ ایک ایسا نام جو صرف ایک فرد کا حوالہ نہیں بلکہ ایک زندہ شعور، ایک فکری روشنی، اور علم کی خاموش صدائیں اپنے وجود میں سموئے ہوئے تھا۔ مگر وہ جو کتابوں کے درمیان جیتا تھا، جو صفحوں پر سانس لیتا تھا، جو حرفوں میں سچائی تلاش کرتا تھا، آج وہی غنی بلوچ خضدار کی سنگلاخ وادیوں میں ریاستی جبر کے اندھیروں میں کہیں کھو گیا ہے۔

یہ محض ایک شخص کی جبری گمشدگی نہیں، بلکہ ایک پورے فکری سماج، ایک زندہ تہذیب، ایک علمی امکان کا اغوا ہے۔ جو قومیں اپنے فکری اثاثوں کی حفاظت نہیں کرتیں، جو قومیں دانشوروں کی صداؤں پر خاموش رہتی ہیں، وہ رفتہ رفتہ قبروں کی طرح خاموش اور تاریخ کے حاشیوں میں مدفون کر دی جاتی ہیں۔

غنی بلوچ ان بے شمار نوجوانوں میں سے ایک ہیں جو قلم اور کتاب کے ذریعے اپنی قومی شناخت، تاریخی شعور، اور مزاحمتی آگاہی کو پروان چڑھاتے ہیں۔ ان کی زندگی ایک عام طالب علم کی نہیں تھی، وہ شال کے ایک پوش علاقہ میں واقعہ”زوار کتابجاء“ میں کتابوں کی دکان پر اکثر پائے جاتے تھے جہاں وہ صرف کتابیں نہیں بیچتے بلکہ، شعور بانٹا کرتے تھے۔

لیکن سوال یہ ہے کہ کیا شعور بانٹنا جرم ہے؟ کیا کتاب سے محبت، علم سے انس، اور حق بات کہنے کی جرائت ایسی خطا بن چکی ہے جس کی سزا جبری گمشدگی ہے؟ اس میں کوئی شک نہیں کہ ہم بلوچ وادی ایک نوآبادیاتی جبر میں سانس لے رہے ہیں جہاں علم و شعور بانٹنا سقراط کی مانندزہر پینے کی مترادف ہیں جہاں علم اور اور شعور کو پل صراط کے استعارے سے گزرنا پڑتاہے۔

غنی بلوچ کی گمشدگی ہمیں یہ باور کراتی ہے کہ ریاست ان سے خوفزدہ ہے جو قلم اٹھاتے ہیں، جو سوال اٹھاتے ہیں، جو فکری محاذ پر لڑتے ہیں۔ جبری گمشدگی، کالونئل ریاستوں کا پرانا ہتھکنڈہ ہے۔ مگر تاریخ گواہ ہے کہ یہ ہتھکنڈے دیرپا نہیں ہوتے۔ علم کی قندیل خواہ کتنی بھی مدھم ہو، اندھیروں کو شکست دے ہی دیتی ہے۔
غنی بلوچ کوئی عام فرد نہ تھا۔ وہ کتابوں سے عشق کرنے والا، شعور سے ناتا رکھنے والا، اور علمی و فکری گفتگو کا شیدائی تھا۔ جسے ہم نے ہمیشہ شال کی گلیوں میں کتاب ہاتھ میں تھامے، کسی چائے خانہ کے گوشے میں بیٹھا، نظریات، تاریخ، سیاست پر کتاب پڑھتے ہوئے ٹٹولتے ہوئے پایا۔ کوئی بھی دن ایسا نہیں تھا کہ اس کے ہاتھ میں کتاب میں نہ ہو ہاں وہ "علمی مجرم” تھا، اور شاید یہی اس کا واحد جرم تھا۔

یہ سوال اپنی تمام تر اذیت کے ساتھ ہمارے سامنے کھڑا ہے کہ کیا بلوچ سرزمین پر علم سے محبت بھی جرم بن چکی ہے؟ کیا کتاب سے دوستی اب ریاستی اداروں کی نظر میں ایک خطرہ بن چکی ہے؟ اگر ایک نوجوان محض سوچنے، پڑھنے، سمجھنے اور سوال اٹھانے کے جرم میں لاپتہ کیا جا سکتا ہے، تو یہ صرف غنی بلوچ کا معاملہ نہیں، یہ ہماری پوری نسل کا مقدمہ ہے۔
جبری گمشدگی صرف جسمانی اغوا نہیں ہوتی؛ یہ ایک فکر، ایک روشنی، ایک امید کو تاریکی میں دفن کرنے کی کوشش ہوتی ہے۔ غنی کی گمشدگی

دراصل شعور کی جبری گمشدگی ہے یہ اُس نسل کے خلاف اعلانِ جنگ ہے جو کتاب سے رشتہ جوڑنے کی کوشش کر رہی ہے، ، جو اپنی سرزمین پر اپنے وجود کا مقدمہ لڑتی ہے، ایک ایسی چنگاری جو کتابوں کے ذریعے، دلیل کے ذریعے، اور شعور کے ذریعے پنپ رہی ہیں۔ہم سمجھتے ہیں کہ ہم ایک ایسی سماج کے واحد مخلوق ہے جہاں کتاب پڑھنا، سچ بولنا، سوال اٹھانا، اور شعور بانٹنا قابلِ تعزیر جرم قرار دیاگیا ہے
غنی محض ایک قاری نہیں تھا۔ وہ ایک کتاب دوست، ایک سرگرم سیاسی کارکن اور، ایک نظریاتی باسک تھا۔خضدار سے دوران سفر جبری گمشدہ کیے جانے والا غنی بلوچ کوئی ہتھیار بند شخص نہیں تھا۔
بلوچ گل زمین پر کتاب دوستی، شعور، فکر، اور سیاسی آگاہی کو صدیوں سے ایک خطرہ تصور کیا جاتا ہے۔ یوسف عزیز مگسی اور عبد العزیز کرد سے لے بلوچ تحریک کے تمام ادوار میں کتابوں پر قدغن لگائی گئی، لٹریچر کو صلیب کا سامنا کرنا پڑا،اس لے کہ اس سماج میں علم وہ آئینہ ہے جو جبر کے چہرے کو بے نقاب کرتا ہے۔ اور یہاں کتابیں وہ شبیہ ہیں، جو پڑھنے والے کے ہاتھ میں وہ شفاف شیشہ تھما دیتے ہیں جس میں وہ ریاستی جبر، نوآبادیاتی ڈھانچوں، اور غیر انسانی رویوں کو پہچان سکے۔
غنی بلوچ—ایک باشعور، فکری کارکن، ایک محقق، ایک کتاب دوست—۔ وہ کوئی عسکری کمانڈر نہیں تھا، نہ ہی خفیہ نیٹ ورکس کا حصہ۔ وہ ایک ایسا شخص تھا جس کی شناخت یہ تھی کہ وہ سوال کرتا تھا، پڑھتا تھا، پڑھاتا تھا، اور مکالمے کو جنم دیتا تھا
اس ریاستی بندوبست میں جہاں جبر کو آئینی تحفظ حاصل ہو، جہاں نوآبادیاتی ادارے قوموں کی شناخت مسخ کرتے ہوں، وہاں علم اور شعور کی ترویج بغاوت شمار ہوتی ہے۔ کتاب دوستی ایک مجرمانہ سرگرمی اور سوال اٹھانا ریاست کے خلاف جرم قرار پاتا ہے۔
بلوچ قوم کو یہ سمجھنا ہوگا کہ اب خاموشی بزدلی نہیں بلکہ قومی خودکشی ہے۔ اگر ہم غنی بلوچ کی گمشدگی پر خاموش رہے، تو یہ خاموشی صرف ایک
فرد کی بازیابی کو روکے گی نہیں، بلکہ پورے اجتماعی شعور کو سلب کر دے گی۔ یہ وہ لمحہ ہے جہاں قوموں کا امتحان ہوتا ہے: آیا وہ وقت کو پہچان لیتی ہیں یا تاریخ کے کوڑے کے نیچے دفن ہو جاتی ہیں۔
تاریخ ان اقوام کے لیے کبھی مہربان نہیں رہی جو اپنے لمحوں کو پہچاننے سے قاصر رہیں۔ جو قومیں اپنے شعور، دانش، اور کتاب دوستوں کو تنہا چھوڑ دیتی ہیں، وہ آنے والے وقتوں میں صرف جغرافیائی اکائیوں کے نام پر زندہ رہ جاتی ہیں، مگر روحاً مردہ ہو جاتی ہیں۔
یہ ایک فکری نسل کشی (IntellectualGenocide) کا تسلسل ہے۔ یہ ریاستی تنبیہ کسی ایک فرد کے لے نہیں بلکہ ان تمام نودر بروں کے لیے جو کتابیں پڑھتے ہیں، سوال کرتے ہیں۔ انہیں خبردار کیا جا رہا ہے کہ اگر تم نے شعور کا راستہ چنا، تو تمہاری منزل یا جیل ہو گی، یا قبر، یا پھر جبری گمشدگی کا بے انت المیہ۔
یہ سوال ہم سب کے سامنے کھڑا ہے۔ اگر آج ہم نے غنی بلوچ کی بازیابی کے لیے آواز نہ اٹھائی تو کل کوئی اور غائب ہوگا۔ کل شاید کوئی اور کتاب دوست، کوئی اور معلم، کوئی اور شاعر، کوئی اور طالب علم، کوئی اوردانشور، ہماری خاموشی کی بھینٹ چڑھے گا۔ اگر ہم نے علم و شعور کی

بنیاد پر چنے گئے ان کرداروں کی بازیابی کا مطالبہ نہ کیا تو ہم سب بتدریج صرف ایک جرم—علم سے محبت—کے سبب اٹھا لیے جائیں گے
غنی بلوچ کا غائب کیا جانا اس بات کا اعتراف ہے کہ کالونائزر علم سے خوفزدہ ہے۔ وہ شعور سے کانپتا ہے۔ وہ سوال سے ڈرتا ہے۔ وہ کتاب سے لرزتا ہے۔ اور یہی ہماری طاقت ہے۔
اگر کتاب دوستی جرم ہے، اگر شعور گناہ ہے، اگر سوال اٹھانا مزاحمت ہے، تو ہاں، ہم مجرم ہیں۔ہم غنی بلوچ کی طرح سقراط کا زہر بھی پینے کو تیار ہیں، بشرطِ کہ آنے والی نسلوں کو وہ فکری ورثہ منتقل کر سکیں جس میں ظلم کے خلاف ایک دلیل ہو، جبر کے خلاف ایک آواز ہو، اور غلامی کے خلاف ایک شعور ہو۔
ہمیں اپنی خاموشی توڑنی ہوگی۔ ہمیں احتجاج کرنا ہوگا۔ ہمیں پنی بقا کے لیے، اپنی شناخت، اپنی علمی روایت اور اپنی نسلوں کے مستقبل کے لیے بولنا ہوگا۔
کیونکہ اگر ہم نے اب بھی خاموشی کو اوڑھ لیا، تو تاریخ ہمیں ان بزدلوں کے طور پر یاد کرے گی جنہوں نے کتاب کے دوستوں کو تنہا چھوڑ دیا۔ اور اس دن، صرف غنی بلوچ نہیں، ہم سب جبری غائب ہوں گے —کسی کے ذہن سے، کسی کی یاد سے، اور سب سے بڑھ کر، تاریخ سے۔
غنی بلوچ صرف ایک نام نہیں، فکر و شعور و مکالمہ کا استعارہ ہے۔اس استعارے کو غائب کیا جا سکتا ہے، مگر مٹایا نہیں جا سکتا۔ہمیں احتجاج کرنا ہے،ہمیں بولنا ہے،اور سب سے بڑھ کر ہمیں یاد رکھنا ہے —کہ خاموشی صرف قبرستانوں کو زیب دیتی ہے،زندہ قومیں خاموش نہیں رہتیں۔ یہ ہماری قومی غیرت، دانشورانہ شناخت اور نسلوں کے مستقبل کا سوال ہے۔
اگر علم، شعور، اور آگاہی گناہ ہیں تو ہمیں یہ گناہ قبول ہیں۔ اگر کتاب سے عشق جرم ہے تو ہم اس جرم کو جاری رکھیں گے۔
۔ ایسے معاشروں میں جہاں نوآبادیاتی ریاستیں فکری آزادی سے خائف ہوں، وہاں دانشور، استاد، شاعر، اور کتاب دوست سب سے بڑے خطرے کی شکل اختیار کر لیتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ غنی بلوچ کو ان کے "علمی جرائم” کی پاداش میں لاپتہ کیا گیا
اگر کتابوں سے محبت جرم ہے، تو ہر سقراط، ہر منصور، ہر چی گویرا، اور ہر فینن قابلِ گرفت ٹھہرتے ہیں۔ لیکن شاید یہی وہ اصل وجہ ہے —ان لوگوں نے اپنی اقوام کو شعور دیا، ان کے اذہان کو غلامی سے آزاد کیا، اور انہی کی راہ پر چلنے والے ہر شخص کو نوآبادیاتی نظام دشمنی کے زمرے میں رکھتا ہے۔
غنی بلوچ کی گمشدگی محض ایک واقعہ نہیں، ایک تسلسل ہے؛ جس میں بلوچ نوجوانوں کو چن چن کر اس لیے غائب کیا جاتا ہے کہ وہ سوال کرتے ہیں، وہ تاریخ پڑھتے ہیں، وہ جبر کو پہچاننے لگے ہیں۔ بلوچ قوم کو اب یہ فیصلہ کرنا ہوگا کہ کیا وہ ہر اس شخص کی گمشدگی پر خاموش رہے گی جو کتابوں کا دوست ہے؟ کیا ہم ہر اس زبان کو کاٹنے دیں گے جو علم کی بات کرے؟ کیا ہم ہر اس چراغ کو بجھنے دیں گے جو تاریکی میں روشنی دے رہا ہے؟ اگر ہم خاموش رہے، تو غنی بلوچ کی جگہ کل کوئی اور ہوگا، پھر کوئی اور۔

یہ وقت احتجاج کا ہے، خاموشی توڑنے کا ہے، اور شعور کی بغاوت کو زندہ رکھنے کا ہے۔ غنی بلوچ کی بازیابی صرف ایک فرد کی آزادی نہیں بلکہ علم، شعور اور کتابوں کی آزادی ہے۔ اگر آج ہم کتاب دوستی کے جرم میں چن چن کر مارے جا رہے ہیں، تو کل شاید فکری دیوالیہ پن ہمارا
مقدر بنے گا۔
قوموں کی حیات میں کچھ لمحات ایسے ہوتے ہیں جو صدیوں کی سمت متعین کرتے ہیں۔ یہ وہ لمحے ہوتے ہیں جہاں خاموشی غلامی کی سند بن جاتی ہے اور مزاحمت آزادی کی راہ ہموار کرتی ہے۔ بلوچ قومی تحریک آج ایسے ہی ایک نازک اور فیصلہ کن موڑ پر کھڑی ہے۔ یہ سوال صرف کسی فرد، کسی مخصوص گروہ، یا کسی وقتی واقعے کا نہیں، بلکہ پوری قوم کے وجود اور اس کے آنے والی نسلوں کے مقدر کا ہے قومی آزادی کی تحریک کوئی مافوق الفطرت مظہر نہیں۔ یہ انسانی فطرت کا مظہرِ کامل ہے ۔یہ انسان کی سانس کی مانند ہے —ہر لمحہ، ہر گھڑی ناگزیر، کیونکہ جیسے
سانس کا ٹوٹنا موت ہے، ویسے ہی تحریک کا رک جانا قومی وجود کی فنا ہ ہے جیسے پانی ہمیشہ ڈھلوان کی طرف بہتا ہے، ویسے ہی انسان بھی ظلم، جبر، اور ناانصافی سے فرار چاہتا ہے۔ انسانی شعور، جب ارتقا پاتا ہے، تو وہ صرف زندہ رہنے کی نہیں، باعزت جینے کی خواہش کرتا ہے۔ یہی خواہش قومی تحریکوں کا ایندھن بنتی ہے۔ یہی وہ "آکسیجن” ہے جو تحریکوں کو زندہ رکھتی ہے۔
بلوچ تحریک بھی اسی فطری محرک کی پیداوار ہے۔ یہ محض حقوق کی بازیابی نہیں، بلکہ ایک اجتماعی شعور کی پرورش، ایک تاریخی ناانصافی کا تدارک، اور ایک قومی وجود کی بازیافت ہے۔ جب نوآبادیاتی ریاستیں ایک قوم کے تشخص، ثقافت، زبان اور زمین پر قبضہ جما لیتی ہیں تو وہ محض زمینی استعمار نہیں کرتیں، بلکہ روحانی اور ذہنی استحصال بھی کرتی ہیں۔ بلوچ مزاحمت، دراصل اس نوآبادیاتی جبر کے خلاف ایک وجودی احتجاج ہے۔
ہمیں سمجھنا ہوگا کہ تحریکیں بھی سانس لیتی ہیں۔ انہیں آکسیجن چاہیے —عمل کی، مزاحمت کی، شعور کی، اور اتحاد کی۔ اگر ہم ان تحریکوں کے سامنے بے جان کٹھ پتلیوں کی طرح خاموش رہے، تو ہم نہ صرف اپنے حال بلکہ اپنے مستقبل کے بھی مجرم ہوں گے۔
یہ سوال صرف غنی بلوچ جیسے باشعور فرد کی جبری گمشدگی کا نہیں، یہ ان "ان دیکھے ” جرائم کا بھی ہے جن کا ارتکاب ہم روز اپنی خاموشی سے کرتے ہیں۔ ہم ہر لمحہ ایک اجتماعی جرم کے شریک ہیں جب ہم ظالم کو ظالم کہنے سے قاصر رہتے ہیں۔اگر ہم نے ان لمحوں کو پہچاننے سے انکار کیا، تو تاریخ ہمارے لیے کوئی نرم گوشہ نہیں رکھے گی۔ وہ ہمیں اُن اقوام کی فہرست میں لکھ دے گی جو لمحوں کی ناقدری کے سبب صدیوں کے لیے غلام بن گئیں۔
غنی بلوچ ہم سب ہیں۔ اور جب تک ہم بولیں گے، پڑھیں گے، لکھیں گے، تب تک وہ زندہ ہیں۔آج جو فیصلے ہم کریں گے، جو رویّے ہم اپنائیں گے، وہ طے کریں گے کہ ہماری آئندہ نسلیں آزادی کی فضا میں سانس لیں گی یا غلامی کے سائے میں پلیں گی۔ وقت، اگر پہچانا نہ جائے، تو تاریخ سنگدل بن جاتی ہے۔ جو قومیں تاریخ سے سیکھنے سے انکار کرتی ہیں، تاریخ انہیں خاموشی سے دفنا دیتی ہے —کبھی
جغرافیہ کے مٹتے ہوئے نقشوں میں، کبھی اجتماعی یادداشت کے زنگ آلود صفحات پر۔
ہمیں یہ تسلیم کرنا ہوگا کہ استعماری ریاستوں کے سامنے بے جان پتلی بنے رہنا اب کوئی انتخاب نہیں رہا۔ یہ قومی موت کا نسخہ ہے۔ ہمیں شعور کے ہر قتل پر، علم کے ہر لاپتہ ہونے والے چراغ پر، آواز بلند کرنی ہوگی۔ کیونکہ اگر ہم خاموش رہے تو آنے والے کل میں ہماری نسلیں اُن جرائم کی سزا بھگتیں گی جو ہم نے کبھی کیے ہی نہیں۔

مدیر

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Next Post

کپٹن کا خواب

منگل مئی 27 , 2025
تحریر: گیابان بلوچزرمبش مضمون آج دوپہر کے وقت ہم سفر میں تھے۔ راستے میں ایک چھوٹے بچے سے ملاقات ہوئی۔ اُس نے مجھ سے کہا:"بھائی، مجھے کھانے کو کچھ دے دیں، بھوک بہت لگی ہے۔” میں نے فوراً اپنی تمام جیبیں ٹٹولیں، مگر میرے پاس کوئی ایسی چیز نہ تھی […]

توجہ فرمائیں

تازہ ترین

زرمبش اردو

زرمبش آزادی کا راستہ

زرمبش اردو ، زرمبش براڈ کاسٹنگ کی طرف سے اردو زبان میں رپورٹس اور خبری شائع کرتا ہے۔ یہ خبریں تحریر، آڈیوز اور ویڈیوز کی شکل میں شائع کی جاتی ہیں۔

آسان مشاہدہ