داعش خراسان کا بلوچ آزادی پسند مسلح تنظیموں کے خلاف جنگ کا اعلان

اسلامک اسٹیٹ خراسان پروِنس (ISKP) داعش نے بلوچ آزادی پسند مسلح تنظیموں کے خلاف جنگ کا اعلان کر دیا ہے، اور الزام عائد کیا ہے کہ ان تنظیموں نے بلوچستان کے ضلع مستونگ میں اس کے جنگجوؤں کے ایک بڑا کیمپ پر حملہ کیا جس کے نتیجے میں 30 کے قریب جنگجؤں ہلاک ہوئے۔

یہ اعلان ISKP کے میڈیا ونگ “الاعظیم فاؤنڈیشن” کی جانب سے اتوار کے روز پشتو زبان میں جاری کی گئی 36 منٹ طویل ویڈیو کے ذریعے کیا گیا۔

ویڈیو میں داعش نے دعویٰ کیا ہے کہ بلوچ لبریشن آرمی (بی ایل اے) اور بلوچستان لبریشن فرنٹ (بی ایل ایف) نے دو ماہ قبل مستونگ میں اس کے جنگجوؤں پر ایک بڑا حملہ کیا۔ ویڈیو میں کہا گیا ہے کہ داعش نے ماضی میں بلوچ مزاحمت کاروں کے ساتھ غیر جارحانہ رویہ اپنایا تھا، لیکن اب وہ انہیں اپنا دشمن سمجھتی ہے۔

ویڈیو میں کہا گیا گیا ہے کہ کٹھن اور خونریز دن قریب ہیںاور مزید کہا گیا کہ داعش، بلوچ مسلح گروہوں اور ان کے حامیوں کے خلاف ویسا ہی ردعمل دے گی جیسا کہ اس نے افغان طالبان کے خلاف دیا۔

ویڈیو میں یہ بھی دعویٰ کیا گیا کہ ISKP کے تربیتی کیمپ بلوچستان کے پہاڑی علاقوں میں قائم ہیں یہ وہ دعویٰ ہے جو پہلے افغان طالبان اور ان سے وابستہ میڈیا ذرائع بھی کر چکے ہیں۔

افغان طالبان کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد پہلے ہی کہہ چکے ہیں کہ افغانستان میں حملے کرنے والے ISKP کے جنگجو بلوچستان اور خیبر پختونخوا میں تربیت یافتہ تھے۔ انہوں نے داعش کی موجودگی کو پاکستان کی “چند خفیہ ایجنسیوں” کی حمایت سے جوڑا۔

ذبیح اللہ کا کہنا تھا کہ مئی 2024 کے بامیان حملے اور ستمبر 2024 کے کابل بم دھماکے کے حملہ آور مستونگ میں تربیت یافتہ تھے۔

عسکری تجزیہ کار عزیز ستانکزئی نے بامیان اور کابل حملوں کے بعد کہا کہ افغانستان میں ہونے والے 95 فیصد حملوں کی منصوبہ بندی پاکستان میں کی جاتی ہے، اور ان جرائم کو عملی جامہ افغانستان میں پہنایا جاتا ہے۔

داعش کی ویڈیو کے اختتام پر شہریوں کو دھمکی دی گئی ہے کہ وہ بلوچ تنظیموں کے زیر اہتمام کسی بھی جلسے یا ریلی میں شرکت نہ کریں، کیونکہ یہ اجتماعات “آنے والے حملوں کے اولین ہدف” ہوں گے۔

اگرچہ داعش نے بلوچ مسلح تنظیموں کے خلاف اعلان جنگ کر دیا ہے، لیکن تجزیہ کاروں کے مطابق اسے ان سے براہ راست ٹکر لینے میں کئی چیلنجز کا سامنا ہے۔

بلوچ مسلح تنظیمیں جیسے بی ایل اے اور بی ایل ایف مقامی سطح پر مضبوط بنیاد، وسیع نیٹ ورک، اور مؤثر آپریشنل صلاحیت رکھتی ہیں جبکہ ISKP کو بلوچستان میں نہ عوامی حمایت حاصل ہے اور نہ ہی خاطر خواہ افرادی قوت۔

تاہم، تجزیہ کار خبردار کرتے ہیں کہ یہ صورتحال بلوچ حقوق کی تنظیموں، خصوصاً بلوچ یکجہتی کمیٹی (BYC)، کے لیے خطرناک ثابت ہو سکتی ہے۔

‏BYC بلوچستان میں جبری گمشدگیوں، ماورائے عدالت قتل اور ریاستی جبر کے خلاف سرگرم ہے۔ حالیہ مہینوں میں اس پر سخت ریاستی کریک ڈاؤن ہوا ہے، اور اس کے کئی سینئر رہنماؤں کو دہشتگردی، بغاوت اور قتل کے الزامات میں گرفتار کیا گیا ہے۔

اس کے باوجود، BYC نے بلوچستان اور کراچی میں بڑے پیمانے پر احتجاجی مظاہرے جاری رکھے ہیں۔

تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ BYC کی نمایاں حیثیت اور پرامن جدوجہد اسے ISKP کے لیے ممکنہ ہدف بنا سکتی ہے، کیونکہ داعش ماضی میں بھی شہری اجتماعات کو نشانہ بنا چکی ہے۔

مدیر

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Next Post

جبری گمشدگیوں کے خلاف وی بی ایم پی کا احتجاجی کیمپ کوئٹہ پریس کلب کے سامنے 5839ویں روز بھی جاری ‏

اتوار مئی 25 , 2025
کوئٹہ پریس کلب کے سامنے جبری گمشدگیوں کے خلاف وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز (وی بی ایم پی) کا احتجاجی کیمپ مسلسل جاری ہے۔ اتوار کے روز کیمپ کو 5839 دن (یعنی 15 سال، 11 مہینے، اور 24 دن) مکمل ہو چکے ہیں۔ کیمپ کی قیادت وی بی ایم پی […]

توجہ فرمائیں

زرمبش اردو

زرمبش آزادی کا راستہ

زرمبش اردو ، زرمبش براڈ کاسٹنگ کی طرف سے اردو زبان میں رپورٹس اور خبری شائع کرتا ہے۔ یہ خبریں تحریر، آڈیوز اور ویڈیوز کی شکل میں شائع کی جاتی ہیں۔

آسان مشاہدہ