تحریر: رامین بلوچ
زرمبش مضمون

کردستان مشرقِ وسطیٰ کا وہ خطہ ہے جو ہمیشہ جغرافیائی اہمیت، تہذیبی ورثے اور مزاحمتی تحریکوں کی سرزمین کے طور پر جانا جاتا رہا ہے۔ اس مٹی سے کرد قوم کی ہزاروں سالہ بقا، مزاحمت اور شناخت کی جدوجہد کی داستان پیوند ہے۔ کردستان، بلوچستان کی مانند، جغرافیائی طور پر مختلف ممالک میں سامراجی تقسیم کا شکار رہا ہے۔ تقریباً 200,000 مربع میل پر پھیلے اس خطے کو کردستان کہا جاتا ہے، جو آج بھی مقبوضہ ہے۔
کردستان کا محلِ وقوع یوریشیا کے اُس رابطہ زون میں آتا ہے، جہاں ایشیا اور مشرقِ وسطیٰ کی سرزمینیں ایک دوسرے سے جڑتی ہیں۔ یہ خطہ مشرق و مغرب اور شمال و جنوب کے درمیان ثقافتی، اقتصادی اور عسکری گزرگاہ رہا ہے۔ بدقسمتی سے، اس خطے پر چار نوآبادیاتی ریاستوں ترکی، ایران، عراق اور شام کا قبضہ ہے۔ کردستان ایک وقت میں ایشیائی و یورپی تجارت کو جوڑنے والا زمینی پل تھا، جو یورپ اور ایشیا کو ایک مشترکہ زمینی ماس کے طور پر جوڑتا تھا۔
کردستان کا جغرافیہ دنیا کی قدیم ترین انسانی تہذیبوں میسوپوٹیمیا، زاگروس اور ہلالِ زرخیز—کا مرکز رہا ہے۔ اس خطے نے نہ صرف ایلامی، ہوری، میڈی، ساسانی اور عثمانی تہذیبوں کو دیکھا بلکہ اسلام، زرتشتیت، یزیدیت اور عیسائیت جیسے مذاہب کا تصادم اور امتزاج بھی جھیلا۔
کردستان کی اس تزویراتی اور اسٹریٹیجک مرکزیت کو برطانوی و فرانسیسی نوآبادیاتی سامراج نے اپنے مفادات کی خاطر تقسیم کرکے چار ریاستوں میں بانٹ دیا۔ اس کے بعد یہ "رابطہ زون” ایک "جبری تقسیم کا زون” بن گیا۔ کرد قوم کو باہم جُڑے رہنے سے روکنے کے لیے سرحدیں کھینچی گئیں، انہیں ایک دوسرے سے جدا کیا گیا، ان کی ثقافت پر قدغنیں لگائی گئیں، اور زبانوں پر پابندیاں عائد کی گئیں۔
یہاں دریائے دجلہ اور فرات بہتے ہیں، جنہیں انسانی تہذیب کی ابتدائی نہروں میں شمار کیا جاتا ہے۔ کردستان کا محلِ وقوع، چونکہ یوریشیا کے رابطہ زون میں ہے، اس لیے یہ ہمیشہ عالمی طاقتوں کے مفادات کا مرکز رہا ہے۔ اس کے شمال میں ترکی کا دیاربکر، مشرق میں ایران کا کرمانشاہ، جنوب میں عراق کا کرکوک، اور مغرب میں شام کا الحسکہ واقع ہے،جو کرد سرزمین کی جغرافیائی جبری تقسیم کا عکاس ہیں۔
کرد معاشرہ ایک پیچیدہ مگر ارتقائی ساخت رکھتا ہے۔ یہاں مذہبی طور پر سنی، شیعہ، یزیدی، زرتشتی اور دیگر فرقے موجود ہیں، مگر کرد شناخت ان سب پر غالب ایک وحدانی قومی شعور کی شکل میں برقرار ہے۔ کرد قوم مشرقِ وسطیٰ میں ہزاروں سال سے آباد ہے۔ 9ویں اور 10ویں صدی عیسوی میں کردوں نے باقاعدہ طور پر اپنی ریاستیں قائم کیں۔ یہ ایک تسلیم شدہ تاریخی حقیقت ہے کہ کردوں کی مختلف سلطنتیں، جیسے کہ شدادی، ایوبی اور بادینانی، اپنے وقت کی خودمختار حکومتیں تھیں۔ تاہم، کرد سرزمین کبھی بھی بیرونی حملہ آوروں سے محفوظ نہ رہی۔ عرب، فارس، ترک، منگول، رومن اور دیگر اقوام نے اس خطے پر حملے کیے اور اسے کبھی مکمل خودمختاری حاصل نہ ہو سکی۔
دنیا میں نوآبادیاتی نظام کے خلاف تحریکوں کے ساتھ ساتھ کردستان کی جغرافیائی تقسیم اور نیشنلزم کی تحریکیں بھی مزید شدت اختیار کرتی گئیں۔ 1916ء کا سائکس-پیکو معاہدہ اور بعد ازاں 1923ء کا لوزان معاہدہ، کرد قوم کے لیے سب سے بڑا اعصابی و عضویاتی زخم تھا۔ ان معاہدات کے ذریعے کردوں کو باقاعدہ طور پر ترکی، ایران، عراق اور شام کے درمیان تقسیم کر دیا گیا۔ ایک وحدانی قوم کو چار ریاستوں
میں بانٹ کر ان کی آزادی کی جدوجہد کو ریاستی جنگی جارحیت، تشدد، جبری نقل مکانی اور نسل کشی کے ذریعے دبایا گیا۔
کرد قوم کی مجموعی آبادی 30 سے 35 ملین کے درمیان ہے، جو انہیں مشرقِ وسطیٰ کی چوتھی بڑی نسلی اکثریت بناتی ہے۔ ترکی میں تقریباً 15 ملین، ایران میں 6 ملین، عراق میں 9 ملین، شام میں 2 ملین، اور باقی دنیا میں لاکھوں کرد آباد ہیں۔ کرد قوم کی قومی زبان "کردی” ہے، لیکن ماہرینِ لسانیات کے مطابق کرد قوم مجموعی طور پر دس مختلف زبانیں بولتی ہے، جن میں کردی، کورمانجی، سورانی، زازاکی، پہلوانی سمیت کئی دیگر زبانیں شامل ہیں۔ تاہم، یہ لسانی تنوع کبھی بھی ان کی کرد شناخت پر غالب نہیں آیا۔
کردوں کی مزاحمت ایک آئیڈیل عسکری مزاحمت تھی، جس میں کرد خواتین بھی کرد آزادی کی فوج کا حصہ تھیں۔ کرد خواتین کا عسکری محاذ پر کردار ہو، یا ان کا فدائیانہ عمل، یا "پیش مرگہ” جو کہ(کردی زبان میں ”سرمچار“ کو کہا جاتا ہے) کی مسلح تحریک ہو، یا پھر عبد اللہ اوجلان جیسے انقلابی کی قیادت میں ابھرنے والی "پی کے کے ” (PKK) تحریک،یہ سب ایک ہمہ جہت جدوجہد کا حصہ تھے۔ عبد اللہ اوجلان، جو پی کے، کے بانی رہنما تھے، نے 1970 کی دہائی میں کرد نیشنلزم کی سائنٹیفک جدوجہد کو ایک جدلیاتی مظہر کی صورت میں منظم کیا۔ 28 نومبر 1978 کو انہوں نے پی کے کے کی بنیاد رکھی اور کرد قومی ریاست کے قیام کی جدوجہد کا آغاز کیا۔
اسی کے ابتدائی برسوں میں ترکی نے ان کے خلاف نوآبادیاتی جبر اور جارحانہ کارروائیاں شروع کیں۔ عراق میں کردوں کی آزادی کی تحریک "کردستان ڈیموکریٹک تحریک” کی صورت میں ایک امبریلا جنگ کے تحت جاری رہی، جو متحدہ کردستان کی آزادی کو اپنے منشور کا حصہ بناتی ہے۔ بعد ازاں، 1999 میں عبد اللہ اوجلان کو امریکی مدد سے کینیا کے ایک سفارت خانے سے گرفتار کر کے ترکی منتقل کیا گیا، جہاں انہیں عمر قید کی سزا دی گئی۔ تاہم، ان کی گرفتاری کے باوجود تحریکِ آزادی نے مزید شدت اختیار کی، اور خواتین یونٹس اس تحریک میں نہایت فعال اور منظم کردار ادا کرتی رہیں۔ مختلف کرد آزادی پسند تنظیموں نے کردستان کی آزادی کے لیے مسلسل گوریلا جنگیں لڑیں اور فدائیانہ کارروائیاں کیں۔
کرد خواتین کی مسلح جدوجہد نہ صرف مزاحمتی تحریک کی روح رواں رہی بلکہ ایک نظریاتی و سماجی انقلاب کی صورت بھی اختیار کر گئی۔ خواتین نے نہ صرف عسکری محاذ پر "پیش مرگہ” اور "وائی پی جے ” جیسی تنظیموں کے ذریعے فرنٹ لائن پر دشمن کا سامنا کیا بلکہ انہوں نے قومی آزادی کی جدوجہد کو صنفی آزادی سے بھی ہم آہنگ کیا۔ کرد خواتین نے دکھایا کہ قومی نجات کی کوئی تحریک صنفی برابری کے بغیر مکمل نہیں ہو سکتی۔ ان کی قربانیاں، فدائیانہ کارروائیاں، اور نظریاتی قیادت، خاص طور پر عبد اللہ اوجلان کے اس تصور کے تحت کہ عورت کی آزادی کے بغیر معاشرہ آزاد نہیں ہو سکتا، ایک نئے انقلابی باب کی نمائندگی کرتی ہیں۔ ان کی جدوجہد نہ صرف کرد قوم کے لیے بلکہ دنیا بھر کی مقبوضہ اقوام کی خواتین عورتوں کے لیے ایک مثال ہے۔
لیکن پھر یہاں آ کر قلم رک جاتا ہے۔ادراک، قلم کی روشنائی میں غوطہ زن ہو جاتا ہے۔مزاحمتی تاریخ کے ہزاروں برس کے دوران انسانی یادداشت،یا شاید بحیثیت لکھنے والے، ہمارا ضمیر،ہل جاتا ہے۔روح کانپ اٹھتی ہے۔خیالات میں ارتعاش پیدا ہو کر سوال بن جاتا ہے کہ فدائیوں کے خون سے سانس لیتی کرد تحریک کے ستون کیوں شکستہ ہوئے؟ یہ تحریک آخر کیسے سرنڈر ہوئی؟
یہ سوال محض ایک اختراعی سوال نہیں بلکہ ایک ذہنی زلزلہ ہے، جو شعور کی دیواروں میں دراڑیں پیدا کر دیتا ہے۔ کرد تحریک، جس نے دہائیوں تک استبداد، نسل کشی، کالونئیل جبراور سامراجی منصوبوں کے خلاف سینہ سپر ہو کر تاریخ کا دھارا موڑنے کی کوشش کی، اچانک ایک ایسے موڑ پر آ کر رک گئی جہاں نہ صرف بندوقیں خاموش ہو گئیں بلکہ نظریات بھی پژمردہ ہونے لگے،آخر کیوں؟
فدائیت، جو کسی بھی قومی یا انقلابی تحریک کی روحِ رواں ہوتی ہے، محض جسمانی قربانی نہیں بلکہ ایک نظریاتی وجود کی تکمیل کا نام ہے۔ کرد فدائین نے پہاڑوں کو اپنا مسکن بنایا، کیمیکل بمباری کا سامنا کیا، جیلوں میں گھسیٹے گئے، مگر اپنے نظریات کا سودا نہ کیا۔ ان کا خون تاریخ کی مٹی میں جذب ہو کر ایک ایسی فصل اگانے لگا جس کا نام تھا: آزادی۔ لیکن جب یہی تحریک، اپنی سیاسی قیادت کے ہاتھوں سازشی میزوں پر بچھا دی گئی، تو یہ سوال ناگزیر ہو گیا: زوال کہاں سے آیا؟
یہ زوال محض بیرونی قوتوں کی سازشوں کا نتیجہ نہیں تھا، اگرچہ بین الاقوامی طاقتوں نے اسے اپنا مہرہ بنانے کی ہر ممکن کوشش کی۔ مگر اس زوال کی جڑیں تحریک کے اندر ہی تھیں —وہ نظریاتی ابہام، جو قوم دوستی اور سوشلسٹ انقلابی فکر کے درمیان جھولتا رہا؛ وہ سیاسی موقع پرستی، جس نے مزاحمت کو سفارتی کمپرومائز میں بدل دیا؛ وہ تنظیمی خَلاء، جس نے اجتماعی قیادت کو فرد واحد کے فیصلوں کا غلام بنا دیا؛ اور وہ اخلاقی زوال، جس میں دشمن کو مات دینے کی خواہش نے خود اپنے نظریے کو مصلحتوں کی صلیب پر چڑھا دیا۔
فکری تاریخ بتاتی ہے کہ جب کوئی تحریک مضبوط، ثابت قدم اور مرد آہن جیسے قیادت اور تنظیمی وحدت سے محروم ہو جاتی ہے تو پھر وہ اپنے دشمن کی شکل اختیار کرنے لگتی ہے۔ کرد مزاحمت بھی اسی فلسفیانہ المیے کا شکار ہوئی۔ اس کی قیادت نے جب سامراجی قوتوں سے مصافحہ کیا، جب امریکی چھتری تلے“جمہوریت”کے نام پر اپنے اسلحے کی گونج کو بند کیا، اور جب مظلوموں کی تحریک بین الاقوامی میڈیا کے لیے محض ایک علامتی تصویر بن گئی، تو فدائیت کا خون سرد ہونے لگا۔ پہاڑوں پر چڑھنے والے نوجوان سفارتی دفاتر کے کارپٹوں پر نظریہ دفن کرنے لگے۔یہی لمحہ ہے جہاں لکھنے والا قلم رکھ دیتا ہے۔یہ وہ لمحہ ہے جہاں لفظوں میں بھونچال آتاہے، اور ضمیر چیخ اٹھتا ہے۔یہ وہ لمحہ ہے جہاں تاریخ، نظریہ اور شعور کا تصادم ہوتا ہے —جہاں ہم سمجھنے لگتے ہیں کہ محض جان نثاری کافی نہیں،جب تک نظریاتی و تنظیمی وحدت، اخلاقی وضاحت، فکری استقامت،اور ثابت قدمی موجود نہ ہو، تب تک کوئی بھی تحریک، چاہے کتنی ہی عظیم کیوں نہ ہو، زوال کا شکار ہو سکتی ہے۔
کرد تحریک کا زوال ایک المیہ ہے، مگر اس المیے کی گونج دنیا کی ہر مقبوضہ قوم کے لیے ایک انتباہ بھی ہے۔
”تحریکیں جان نثاری، فوجی وسائل کی کمی، اور جسمانی قربانیوں سے شکست نہیں کھاتیں؛ وہ دشمن کی چھلنی کرتی گولیوں سے نہیں، بلکہ نظریاتی کمزوریوں سے ہارتی ہیں۔ تحریکیں نوآبادیاتی جبر و قہر سے نہیں، بلکہ مصلحتوں، مفاہمتوں اور کمزور ارادوں سے شکست کھاتی ہیں۔ جب تحریک کسی نازک مقام پر آ کھڑی ہو، تو اس لمحے قوم کے راہبر، دانشور، تھنک ٹینک، تنظیمی قیادت، گوریلا سپاہی، اور قومی سپہ سالار کو وہی فیصلہ لینا ہوتا ہے جو محاذ پر جاتے ہوئے ایک فدائی لیتا ہے۔ جس طرح ایک فدائی، اپنے جسم کے سو ٹکڑے اور روح کی بے قراری کو جان کر، پھر بھی ثابت قدمی سے اپنے محاذ کو انجام دیتا ہے، اسی جذبے، اسی یقین، اور اسی یکسوئی سے قیادت کو بھی فیصلہ لینا چاہیے۔
ہر مزاحمتی تحریک کا ایک نازک موڑ ہوتا ہے، ایک ایسا لمحہ جب بندوق، گولہ بارود، اور عسکری حکمتِ عملی محض ثانوی عناصر بن جاتے ہیں، اور
اصل معرکہ نظریاتی استقامت، اخلاقی جرائت، اور قومی ارادے کے محاذ پر برپا ہوتا ہے۔ یہی وہ مرحلہ ہے جہاں قومی تحریکیں دشمن کی گولیوں سے نہیں، اپنی اندرونی فکری مصلحتوں، خوف، الجھنوں اور نظریاتی ابتری سے شکست کھاتی ہیں۔ اس سچائی کو نظر انداز کرنا، تاریخ سے بغاوت کرنے کے مترادف ہے۔
تاریخ گواہ ہے کہ الجزائر سے لے کر ویتنام، بنگال سے لے کر ایریٹریا اور کیوبا تک، ہر کامیاب قومی تحریک نے محض عسکری فتح سے نہیں بلکہ نظریاتی وحدت، فکری تطہیر اور قیادت کی استقامت سے دشمن کو شکست دی۔ جب فکری قیادت، دانشور، ادیب، سپاہی اور تنظیمی ستون ایک ہی منزل کے گرد جمع ہوں تو دشمن کا ہر گولی چلانا بے معنی ہو جاتا ہے۔ لیکن جب یہی قیادتیں مصلحت، سمجھوتے، یا وقتی چالاکیوں کی راہ اختیار کریں تو تحریک اندر سے کھوکھلی ہو جاتی ہے۔
محاذ پر لڑنے والا فدائی جانتا ہے کہ اس کے جسم کے ٹکڑے اس کے نظریے کی قیمت ادا کرتے ہیں۔ اس کی روح کے زخم قومی حیات کے تسلسل کے ضامن ہوتے ہیں۔ وہ کوئی وقتی فیصلہ نہیں کرتا، وہ زندگی کے مقصد کو مکمل شعور کے ساتھ اپنی آخری سانس تک نبھاتا ہے۔ یہی استقامت قیادت، تھنک ٹینک اور دانشوروں کی بھی ہونی چاہیے۔ جو فیصلہ فدائی بارود کے سامنے لیتا ہے، وہی فیصلہ قیادت کو فکری بارود، جھوٹے مفاہمتوں، اور ریاستی بیانیے کے دباؤ کے سامنے لینا ہوتا ہے۔
دانشور کا کام صرف لکھنا، تبصرہ کرنا یا تجزیہ کرنا نہیں ہوتا۔ وہ قوم کی روح کا معمار ہوتا ہے۔ وہ اس فکری دیوار کا ہر پتھر رکھتا ہے جس پر مزاحمت کی عمارت کھڑی ہوتی ہے۔ جب دشمن گولی سے نہیں مار سکتا، تو وہ دانشوروں کے قلم کو خریدنے کی کوشش کرتا ہے، یا انہیں مصلحتوں میں الجھا
دیتا ہے۔ یہاں دانشور کو محض ذہنی نہیں بلکہ اخلاقی فدائیت کا ثبوت دینا ہوتا ہے۔ اسے سچائی کا وہ پرچم بلند رکھنا ہوتا ہے جو کمزور دلوں کے لیے مشعل راہ ہو۔
ایک تحریک صرف اس وقت تحریک ہوتی ہے جب وہ قومی سطح پر قربانی کی نئی لغت تشکیل دے۔ یہ قربانی صرف جسم کی نہیں بلکہ خواہشات، مفادات، آسائشوں، اور ذاتی وابستگیوں کی بھی ہوتی ہے۔ قومی سپہ سالار، فکری رہنما اور تنظیمی قیادت وہی قربانی دیں جو محاذ پر لڑنے والا سپاہی دیتا ہے: ذاتی انا کا انکار، اجتماعی شعور کی اطاعت، اور تاریخ کے سامنے جواب دہی کا ادراک۔
تحریکیں گولیوں سے نہیں ہارتی، کیونکہ گولی دشمن کی فطرت ہے؛ لیکن تحریکیں اس وقت شکست کھاتی ہیں جب وہ اپنی فطرت کھو دیتی ہیں۔ جب وہ مزاحمت کو مصلحت، قربانی کو سودا، اور قیادت کو خودنمائی میں بدل دیتی ہیں
دنیا کی مزاحمتی تاریخ جب کبھی رقم کی جاتی ہے تو اس کے اوراق میں کچھ ایسی قومیں خون اور خاکستر سے اپنے وجود کی مہر ثبت کرتی ہیں جنہوں نے صدیوں کے جبر، غلامی، اور نوآبادیاتی استحصال کو شکست دے کر زندہ رہنے کی محض آرزو نہیں رکھی، بلکہ آزادی کے خواب کو اپنی آخری سانس تک سینے سے لگائے رکھا۔ ایسی ہی ایک قوم کرد ہے —وہ قوم جو نہ صرف اپنی جغرافیائی تقسیم کی صلیب پر چڑھائی گئی، بلکہ جسے صدام حسین کی کیمیکل جنگ، ترک ریاست کی نسل کشی، ایرانی استبداد اور شامی بادشاہت کے آہنی پنجے نے کچلنے کی ہر ممکن کوشش کی، مگر وہ پھر بھی سرنگوں نہ ہوئی۔
یہ محض ایک تحریک نہیں تھی۔ یہ اپنے خون سے جلنے والی مشعل تھی، جو مشرق وسطیٰ کے ظلمت کدے میں روشن ہوئی اور جس کی روشنی نے نہ صرف اپنے ہمسایہ مقبوضوں کو راستہ دکھایا بلکہ دنیا بھر کی مظلوم اقوام کے لیے ایک علامت، ایک الہام بن گئی۔ دہائیوں پر محیط جدوجہد، جسموں پر گولیوں کے نشانات، جیلوں میں گونجتے نعرے، اور پہاڑوں پر اڑتے ہوئے پرچم—یہ سب ایک قومی شعور کی علامتیں تھیں جو صرف کردوں کی نہیں، بلکہ ہر اس انسان کی آواز تھی جس نے استبداد کے خلاف لب کشائی کی۔
دنیا کے ان گنت مظلوموں کی فہرست میں اگر بلوچ قوم کے بعد کسی نے پہاڑوں کی خاموشی چیر کر اپنی شناخت اور آزادی کی صدا دی، تو وہ کرد تھے۔ عراق، ایران، ترکی اور شام میں بٹی ہوئی اس قوم نے ایک قوم ہونے کے دعوے کو صرف زبانی نعروں تک محدود نہ رکھا، بلکہ اسے زمین پر، زبان میں، اور مسلح جدوجہد کی صورت میں مجسم کیا۔ ان کے پہاڑوں سے گونجتی گولیوں کی آوازیں انسانی آزادی کے راگ میں ڈھل گئیں۔ مگر پھر بھی سوال باقی ہے —ایک ایسا سوال جو نہ صرف تاریخ دانوں، بلکہ انقلابیوں، دانشوروں اور آزادی پسند اقوام کے شعور کو چیلنج کرتا ہے: ایسی عظیم مزاحمت آخر کیوں سرنگوں ہوئی؟
کیا اس زوال کی تمام تر ذمہ داری سامراجی سازشوں، ریاستی جبر، اور بین الاقوامی خاموشی پر عائد کی جائے؟ یا اس تحریک کے داخلی تضادات، نظریاتی ابہام، اور قیادت کی سیاسی بصیرت کی محدودیت کو بھی برابر کا ذمہ دار ٹھہرایا جائے؟
یہ سوال محض کردوں سے متعلق نہیں، بلکہ ہر اُس قومی تحریک سے وابستہ ہے جو اپنے ابتدائی جوش میں سب کچھ قربان کر دیتی ہے، مگر منزل کے قریب پہنچ کر داخلی انتشار، ذاتی مفادات، اور نظریاتی دھند میں کھو جاتی ہے۔ کرد تحریک کے اندر بھی ایک واضح تقسیم ابھری—ایک طرف سوشلسٹ، سیکولر، اور فیمنسٹ فکر رکھنے والے گروہ تھے، تو دوسری طرف قوم دوست، قبائلی، اور بعض اوقات مذہبی بنیاد پر قائم دھڑے۔ ان کے مابین نظریاتی ہم آہنگی کا فقدان اس حد تک بڑھا کہ بعض اوقات دشمن کی گولیاں کم، اور اندرونی الزامات زیادہ مہلک ثابت ہوئے۔
کرد تحریک کی عظمت اس کی مزاحمت میں ہے، مگر اس کا زوال اس حقیقت کا آئینہ دار ہے کہ صرف ہتھیار اٹھانا کافی نہیں، نظریہ، تنظیم، اور مستقل فکری رہنمائی کے بغیر کوئی بھی تحریک تاریخ کے دھارے میں تحلیل ہو سکتی ہے۔ کرد نوجوانوں کی قربانیاں، خواتین کی قیادت میں تشکیل پانے والے مزاحمتی یونٹس، اور قومی تشخص کی بازیابی کے لیے دی جانے والی صدیوں پر محیط قربانی ایک ایسی داستان بن گئی ہے جو دنیا کی ہر مظلوم قوم کے لیے درس ہے،کہ جبر جتنا بھی گہرا ہو، آزادی کی پیاس بجھائی نہیں جا سکتی؛ مگر اگر اس پیاس کے پیچھے نظریاتی وحدت نہ ہو، تو منزل محض ایک سراب بن کر رہ جاتی ہے۔
بلوچ تحریک آج جس مرحلے پر ہے، وہاں کردوں کی داستان ایک رہنما اصول کے طور پر سامنے آتی ہے —بطور انتباہ بھی، اور بطور حوصلہ بھی۔ یہ ہمیں بتاتی ہے کہ آزادی کی راہ میں صرف دشمن ہی رکاوٹ نہیں بنتے، بلکہ اندر سے جنم لینے والے شکوک، ذاتی مفادات، اور نظریاتی انحراف بھی مزاحمت کو زوال کی طرف دھکیل سکتے ہیں۔
کرد تحریک کو سمجھنا، صرف ایک قوم کی تاریخ پڑھنا نہیں، بلکہ دنیا بھر کی محکوم اقوام کی اجتماعی شعور میں جھانکنے کا عمل ہے۔
تاریخ کے افق پر کچھ تحریکیں محض جغرافیائی آزادی کی جدوجہد نہیں ہوتیں، بلکہ وہ ایک قوم کی اجتماعی یادداشت، خوابوں اور شناخت کی علامت بن جاتی ہیں۔ کرد قوم کی داستان— جو صدیوں پر محیط استحصال، انکار، اور بغاوت سے جڑی ہے محض تاریخ کا ایک باب نہیں، بلکہ زندہ شعور کا تسلسل ہے۔ اسی تسلسل کی سب سے توانا آواز کردستان ورکرز پارٹی (PKK) تھی، جس نے ترک نوآبادیاتی ریاست کے خلاف چالیس برس تک بندوق اٹھائے رکھی۔ لیکن آج جب PKK نے مسلح جدوجہد ختم کر کے خود کو تحلیل کرنے کا اعلان کیا ہے، تو یہ محض ایک تنظیم کے خاتمے کا نہیں، بلکہ ایک انقلابی نظریے، ایک زندہ خواب، اور ایک مزاحمتی شعور کے انجماد کا اعلان ہے۔
نوآبادیاتی ترک ریاست، کمال اتاترک کے تصورِ "ترک قوم” کے سائے میں، اپنے قیام کے آغاز ہی سے کردوں کے وجود سے انکاری رہی۔ "ایک قوم، ایک زبان، ایک ریاست” کا نعرہ دراصل کرد قوم کی شناخت، بقاء اور آزادی کے انکار پر مبنی تھا جو عثمانی خلافت کے جارحیت کے بعد نئی ریاست میں سمونا نہیں چاہتی تھیں۔
ابتدائی دہائیوں میں PKK کی بنیاد مارکسی-لیننی نظریات پر استوار تھی، جس میں قومی آزادی کو طبقاتی آزادی سے جوڑا گیا۔ یہ فکر، جہاں ایک طرف کرد قوم کو قومی ریاست کے حق پر آمادہ کرتی تھی، وہیں دوسری طرف ترکی، ایران، عراق اور شام کے کردوں کو بین الاقوامی یکجہتی کے رشتے میں باندھتی تھی۔ مگر بعد ازاں، خصوصاً اوجلان کی گرفتاری کے بعد، PKK کی فکر میں "جمہوری وفاق” اور "ثقافتی خودمختاری” جیسے خیالات نے جگہ لی، جن کا مقصد بظاہر قوم دوستی کے بجائے جمہوری شرکت داری کو فروغ دینا تھا۔ لیکن یہ تبدیلی درحقیقت ترک ریاست کی سامراجی چالوں کا فکری جواز بن گئی، جس نے آزادی کی اصل تعریف کو حاشیے پر دھکیل دیا۔
جب تحریک کے مقاصد واضح نہ ہوں، یا جب وہ بار بار اپنے نظریاتی قبلے بدلتی رہے، تو وہ خود کو کھو دیتی ہے۔ کرد تحریک بھی اس فکری بھنور میں الجھ گئی۔ وہ یہ طے نہ کر سکی کہ آیا وہ ایک "قومی ریاست” کی متلاشی ہے یا "ریڈیکل جمہوریت” کا تجربہ، ایک "مارکسی لیننسٹ تنظیم” ہے یا ایک "بین الاقوامی انسانی حقوق” کی پارٹنر۔ عبد اللہ اوجلان کی تحریریں — جن میں مارکسزم، فیمنزم، ایتھنک نیشنلزم اور انارکزم کا امتزاج نظر آتا ہے — خود ایک جدلیاتی کشمکش کا عکس ہیں، جو تحریک کو ایک واضح نظریاتی دھارے میں ڈھالنے کے بجائے پیچیدہ بحثوں میں الجھا دیتی ہیں۔
کرد تحریک کے زوال کا سب سے بڑا لمحہ وہ تھا جب "فدائیت” کو "سیاسی افہام و تفہیم” سے بدل دیا گیا۔ جب عالمی اداروں کی زبان بولنے لگے وہ لوگ جنہوں نے کبھی اوجلان کے منشور کی قسم کھائی تھی۔ جب مزاحمت کو این جی اوز اور ادارہ جاتی فنڈنگ کی نذر کیا گیا۔ جب امریکی مفادات کے تحفظ کی خاطر کرد خطے کو "اسٹریٹیجک پارٹنر شپ” کا لالی پاپ دیا گیا، اور سوشلسٹ آزادی کا خواب "علاقائی خودمختاری” کے نام پر کچل دیا گیا۔
پی کے ،کے، کے حالیہ فیصلے کو محض اسٹریٹجک پسپائی سمجھنا حقیقت کو سادہ بنانے کے مترادف ہے۔ یہ اقدام دراصل مزاحمتی بیانیے کی شکست کا اعلان ہے۔ جب مسلح جدوجہد، جو ایک قوم کے اجتماعی شعور کا ترجمان ہو، "امن” اور "جمہوری وفاق” جیسے ابہام زدہ تصورات کے حوالے کر دی جائے، تو اس کا مطلب ہے کہ قوم کے خوابوں کو شعوری طور پر تحلیل کیا جا رہا ہے۔ یہ "بندوق پھینکنا” نہیں بلکہ وہ ہتھیار رکھ دینا ہے جو کرد نوجوانوں نے اپنی ماؤں کی حوصلہ، اپنے بزرگوں کی قربانیوں، اور شہیدوں کے خون کے ساتھ سنوارا تھا۔
"شعرا نے گوریلا لڑاکوں کی داستانوں کو نظموں میں سمویا، ماؤں نے آزادی کی امید پر لوریاں گائیں، اور نوجوانوں نے شعور کی روشنی میں بندوق تھامی۔ آج جب PKK تحلیل ہو رہی ہے، تو ان تخلیقات کی معنویت کو بھی خطرہ لاحق ہے۔ کیا اب وہ نظمیں صرف یادگار رہ جائیں گی؟ یا ان میں سے ایک نئی جدوجہد، ایک نیا فکری طوفان جنم لے گا؟
ہیگل نے کہا تھا کہ "تاریخ خود کو دہراتی ہے، ایک بار سانحے کی صورت میں، اور دوسری بار تماشے کی صورت میں "۔ PKK کا یہ فیصلہ اگرنوآبادیاتی فریب کاری کے نام پر کیا گیا ہے، تو یہ طریقہ کرد تاریخ کے ساتھ بھی دھوکہ ہے۔ کیونکہ قومیں جب اپنی شناخت، خودمختاری اور آزادی کے مانگ کو ” کالونیئل سیاسی میز” کی نذر کرتی ہیں، تو وہ صرف شکست نہیں کھاتیں بلکہ اپنی آئندہ نسلوں کے شعور کو غلامی کا عادی بنا دیتی
ہیں۔ یہ وہ لمحہ ہے ہمیں بیدار کرنے آتا ہے: کہ قربانیوں کے خون سے لکھا ہوا بیانیہ کسی امن معاہدے کی میز پر تحلیل نہیں ہو سکتا۔میرے خیال میں PKK کا تحلیل اگر چہ جز وقتی مرحلے کا اختتام ہے، مگر یہ تاریخ کی آخری لکیر نہیں۔ کرد مزاحمت صرف ایک تنظیم سے وابستہ نہیں، بلکہ وہ ایک قوم کی اجتماعی خودی سے جنم لیتی ہے۔ جب تک جبر قائم ہے، آزادی کا خواب زندہ رہے گا۔ یہ ممکن ہے کہ آئندہ جدوجہد بندوق اور تنظیم کے میدانوں میں ہو— مگر یہ تبھی ممکن ہے جب کرد قوم "جمہوری وفاق” جیسے مبہم تصورات کے پردے چاک کر کے آزادی کی اصل تعریف یعنی ریاستی خودمختاری کو اپنا مرکز بنائیں۔
پی کے کے کی خود تحلیل محض ایک تنظیمی عمل نہیں بلکہ ایک فکری بحران کی علامت ہے۔ یہ لمحہ کرد قوم، ، اور ان سب کے لیے لمحہ فکریہ ہے جو آزادی کو محض "جمہوری شرکت” تک محدود کر دینا چاہتے ہیں۔ آج، جب ہزاروں شہیدوں کے خواب بکھرتے نظر آتے ہیں، تب بھی ہمیں یہ سمجھنا ہو گا کہ مزاحمت کبھی ختم نہیں ہوتی— وہ محض صورت بدلتی ہے۔ وہ خواب، جو ماؤں کی گود سے گوریلا مورچوں تک پہنچا، وہ ایک دن دوبارہ جنم لے گا— نئی زبان، نئی صورت، اور شاید نئے نظریے کے ساتھ۔ مگر اس کا مرکز وہی ہوگا: آزادی۔کرد تحریک کا زوال ایک انفرادی حادثہ نہیں، یہ استعمار کے خلاف اٹھنے والی ہر تحریک کے لیے ایک آئینہ ہے، جس میں ہر قوم اپنی تصویر دیکھ سکتی ہے۔ یہ زوال ایک فلسفہ ہے، ایک تنبیہ، جو دہراتی ہے کہ اگر قوموں کی آزادی کی تحریکیں داخلی طور پر نظریاتی تطہیر، تنظیمی شفافیت اور عوامی شمولیت سے خالی ہوں، اگر قیادتیں فرد پرستی کا شکار ہو جائیں، اور اگر مزاحمت کو پراکسی جنگوں کی شطرنج پر چال بنا دیا جائے، تو پھر ان کا انجام بھی کرد تحریک جیسا ہو گا
پس، سوال یہ نہیں کہ کرد تحریک کیوں ٹوٹی؛ سوال یہ ہے کہ نئی تحریک کن بنیادوں پر اٹھے گی؟ کیا یہ تحریک ماضی کی کمزوریوں سے سیکھ کر، سامراجی نظام کے دھوکے سے آزاد ہو کر، اور عوامی طاقت و نظریاتی اصولوں پر قائم ہو کر ایک نئی صبح کا پیش خیمہ بن سکتی ہے؟
تاریخ گواہ ہے کہ ہر زوال، اگر اس کا تجزیہ ایمانداری سے کیا جائے، نئی انقلابی ولادت کا آغاز بن سکتا ہے۔