"فکر ی سنگر سے شہادت تک: بلوچ تحریک میں فدا بلوچ کا نظریاتی مقام”

تحریر رامین بلوچ (آخری حصہ)

یہ اتحاد علم، زبان، تاریخ اور شناخت کو مسخ کرکے محکوم اقوام کے شعور کو مفلوج کرنے کی سازش رچاتا ہے؛ تاکہ وہ نہ صرف اپنے حال سے بیگانہ رہیں، بلکہ اپنے ماضی سے کٹ کر، مستقبل سے بھی مایوس ہو جائیں۔
یہ وہ غیر مرئی بندوق ہے جو گولی سے زیادہ خطرناک ہے، کیونکہ یہ سوال کرنے کی طاقت، سوچنے کی آزادی اور خودی کی چنگاری کو بجھا دینے کا منصوبہ رکھتی ہے۔

شہید فدا احمد بلوچ کی شہادت ہمیں اس بنیادی حقیقت سے روشناس کراتی ہے کہ قومی آزادی کی تحریک کو اُس کے منطقی ہدف تک پہنچانے کے لیے تاریخ کی جدلیاتی منطق کو رہنما بنانا ناگزیر ہے—وہی منطق، جو نوآبادیاتی قبضے کے خلاف شعوری مزاحمت کو جنم دیتی ہے، اور ہر فکری قتل کو ایک نئے انقلابی باب میں ڈھال دیتی ہے۔
یہ شہادت محض ایک سانحہ نہیں، بلکہ ایک فکری چراغ ہے—ایسا چراغ، جو غلامی کی تاریکی میں رہنمائی کی روشنی فراہم کرتا ہے، اور بتاتا ہے کہ ہر شہادت تاریخ کے جبر کے خلاف جدوجہد آزادی کی ایک اور دلیل بن جاتی ہے۔

شہید فدا احمد بلوچ کی فکر آج بھی بلوچ نوجوانوں کے اذہان میں ایک متحرک انقلابی توانائی کے طور پر زندہ ہے—ایسی توانائی جو نہ صرف مزاحمت کا عزم عطا کرتی ہے، بلکہ اُسے نظریاتی، فلسفیانہ اور سائنسی بنیاد بھی فراہم کرتی ہے۔ ان کا فکری ورثہ محض سیاسی نعرہ نہیں، بلکہ ایک ہمہ جہتی انسانی، فکری اور وجودی ارتقاء کا نام ہے—ایسا ارتقاء جو مقبوضہ اقوام کو اپنی تاریخ، سماج ،تہزیب اور جدوجہد کی ماہیت سے روشناس کراتا ہے۔
اس فکر کی سب سے بڑی قوت یہ ہے کہ وہ دشمن کو محض چہرے سے نہیں پہچانتی، بلکہ اسے اُس کے سیاہ تاریخی فطرت اور قبضہ گیریت تناظر میں رکھ کر اس کی ساخت اور حرکیات کو گہرائی سے سمجھتی ہے۔ یہی فہم اسے محض ردِعمل کے بجائے ایک بامعنی اور سائنسی مزاحمت میں ڈھال دیتی ہے، جو کالونائزر کے جبر کو تاریخ کی شعوری تخلیق میں بدل دیتی ہے۔

شہید فدا احمد بلوچ کی تعلیمات ہمیں یہ شعور عطا کرتی ہیں کہ مزاحمت محض وقتی ردِعمل نہیں، بلکہ ایک تخلیقی، باشعور اور نظریاتی فعل ہے—وہ لمحہِ بیداری، جب کوئی مقبوضہ قوم اپنی غلامی کو تقدیر کا نتیجہ سمجھنے کے بجائے، اسے ایک بیرونی، مسلط کردہ اور استعماری جبر کے طور پر شناخت کرتی ہے، اور پھر اسی شناخت سے انکار کی بنیاد پر اسے بدلنے کا انقلابی عزم پیدا کرتی ہے۔
یہی شناخت دراصل غلامی کی نفسیاتی زنجیروں کو توڑنے کا پہلا قدم ہے

فدا بلوچ اپنی فکری میراث اور تعلیمات میں ہمیں یہ درس دیتا ہے کہ ہمیں نہ صرف دشمن کے جبر کا مقابلہ کرنا ہوگا، بلکہ اپنے اندر کے مفاد پرست، موقع پرست اور نظریاتی خیانت کاروں کو بھی پہچاننا ہوگا—کیونکہ استحصال صرف باہر سے نہیں ہوتا، اس کے بیج اکثر اندر ہی بو دیے جاتے ہیں۔ ان کی فکر ایک مسلسل نظریاتی تطہیر کا عمل ہے، جو تحریک کو انحراف، الجھن اور خودفریبی سے بچا کر ایک واضح، شعوری اور انقلابی راستہ دکھاتی ہے۔

شہید فدا احمد بلوچ کی برسی محض ایک روایتی یادداشت نہیں، ایک زندہ شعوری لمحہ ہے۔ایسا لمحہ جو بلوچ قوم کی تاریخ میں ایک خاص معنویت رکھتا ہے۔ یہ وہ لمحہ ہے جہاں یاد صرف ماضی کا نوحہ نہیں بلکہ مستقبل کی انقلابی سمت کا تعین کرتی ہے؛ جہاں ان کی برسی صرف رسوماتی تعزیت نہیں، بلکہ سیاسی بصیرت، فکری تطہیر، اور اجتماعی ارادے کی تجدید کا عہد بن جاتی ہے

ریاست اور اس کے کاسہ لیس بخوبی جان چکے تھے کہ فدا احمد بلوچ کا اصل ہتھیار ان کا نظریہ، ان کی زبان ان کا قلم اور ان کا شعور تھا—وہ شعور جو غلامی کی جڑوں پر ضرب لگاتا تھا، اور وہ نظریہ جو مقبوضہ قوم ا کو اپنی زنجیروں کی پہچان عطا کرتا تھا۔
ان کا قتل محض ایک جسم کا خاتمہ نہیں، بلکہ اُس استعماری خواہش کا مظہر تھا جو ہر اُس آواز کو خاموش کرنے کے لیے گولی کا سہارا لیتی ہے، جو ان کی استعماری بنیادوں کو للکارتی ہو۔

جس طرح ریاست نے شہید غلام محمد، شہید ڈاکٹر منان، آغا محمود جان، شہید صباء دشتیاری، شہید ساجد حسین، شہید علی شیر اور بے شمار دیگر بلوچ زانت کاروں کو نشانہ بنایا، یہ سب اس تاریخی حقیقت کا ناقابلِ تردید ثبوت ہیں کہ کالونائزر ہمیشہ کتاب، شعور، اور نظریے سے خوف کھاتا ہے—کیونکہ وہ جانتا ہے کہ بندوق کے پیچھے بھی اگر کوئی چیز سب سے زیادہ کارگر ہے تو وہ انقلابی شعور ہے۔

مگر تاریخ یہ بھی ثابت کرتی آئی ہے کہ گولی اگرچہ جسم کو خاموش کر سکتی ہے، شعور کو نہیں۔ استعماری قوتوں کی شکست اسی وقت مقدر بنتی ہے جب مقبوضہ اقوام شعور کے اسلحے سے لیس ہوکر تاریخ کا دھارا موڑنے کا عزم کر لیتی ہیں۔
اور فدا احمد بلوچ جیسے انقلابیوں کی فکری قربانیاں اس شعور کو جلا بخشتی ہیں جو بالآخر آزادی کو ممکن بناتا ہے—بطور ایک ناقابلِ تنسیخ حق، اور بطور ایک ناگزیر تاریخی انجام۔

فدا بلوچ کے قتل کے بعد دشمن اس خوش فہمی میں مبتلا ہو گیا تھا کہ شاید اب تحریکِ آزادی کا باب ہمیشہ کے لیے بند ہو چکا ہے۔ مگر یہ وہی استعماری خوش خیالی تھی، جو نہ تاریخ کی جدلیاتی منطق کو سمجھ سکی، نہ اس کے دھارے کو روک سکی۔
وہ اس بنیادی حقیقت کو فراموش کر بیٹھے تھے کہ انقلابی کبھی مرتے نہیں—وہ تحریک کی اجتماعی روح میں تحلیل ہو جاتے ہیں۔ ان کا خون، صفحۂ قرطاس پر روشنائی بن کر بہتا ہے؛ ان کی آواز کتابوں کی سطروں میں گونجتی ہے؛ اور ان کے خواب ہر باشعور نوجوان کے دل میں زندہ شعلے کی صورت دہکنے لگتے ہیں۔

انقلابی فکر نہ تو قتل سے دبتی ہے، نہ جلاوطنی سے ماند پڑتی ہے۔ وہ ہر دور میں نئے قالب، نئے لہجے، اور نئے شعور کے ساتھ جنم لیتی ہے۔

شہید فدا بلوچ کی جسمانی غیر موجودگی، درحقیقت ان کی فکری موجودگی کی شدت میں ڈھل گئی۔ وہ محض ایک فرد نہ رہے، بلکہ ایک نظریہ بن گئے—ایسا نظریہ جو ہر اُس دل و دماغ میں روشنی بن کر بھڑک اٹھا، جو جبر کو پہچاننے، سوال اٹھانے اور مزاحمت کرنے کا حوصلہ رکھتا ہے۔

ان کی شہادت نے بلوچ تحریکِ آزادی کے نظریاتی محور کو از سرِ نو ترتیب دیا۔ یہ ایک المناک لمحہ تھا، لیکن ایک فکری موڑ بھی تھا جہاں جذبات شعور میں بدلنے لگے اور ردِ عمل تنظیمی عمل میں ڈھلنے لگا۔ اس موڑ نے تحریک کو ایک نئی نظریاتی بنیاد فراہم کی، جو صرف فرد کے غم و غصے تک محدود نہ تھی، بلکہ ایک باقاعدہ، منظم اور شعوری جدوجہد میں تبدیل ہوگئی۔

ان کی آخری یادگار، کسی پیر کی مزار کی پرستش کی علامت نہیں، بلکہ ایک زندہ انقلابی روح ہے جو مسلسل حرکت میں ہے۔ یہ روح محض یادوں تک محدود نہیں، بلکہ ہر اُس دل میں زندہ ہے جو جبر کے خلاف اٹھتا ہے، ہر اُس دماغ میں جو آزادی کی جدوجہد میں حصہ لیتا ہے۔ ان کی موجودگی اب صرف مادی شکل میں نہیں، بلکہ نظریاتی اور فکری طور پر ہر انقلابی عمل میں محسوس ہوتی ہے۔

ان کی تینتیسویں برسی صرف ایک تعزیتی اجتماع نہیں ہونا چاہیے، بلکہ ایک فکری تربیت گاہ کا آغاز بننا چاہیے—ایک ایسا مقام جہاں ہر مزاحمت کار سیکھ سکے کہ آزادی کی راہ بندوق سے لیس نظریے، علم، تنظیم اور تاریخ کی سچائی سے گزر کر ہی ممکن ہے۔

فدا بلوچ کا نوآبادیاتی پارلیمانی سیاست سے انکار استعمار کے بنائے گئے سیاسی دھوکے کے خلاف ایک واضح فکری اور انقلابی اعلان تھا۔ وہ بخوبی سمجھتے تھے کہ نوآبادیاتی ریاست ایسے نمائشی جمہوری ڈھانچے تخلیق کرتی ہے، جن کا مقصد آزادی نہیں بلکہ غلامی کو ادارہ جاتی جواز فراہم کرنا ہوتا ہے۔ ان کا فکر اس زمینی حقیقت پر مبنی تھا کہ بلوچ قوم کے لیے ریاستی پارلیمنٹ جمہوریت نہیں لاتی، بلکہ وہ ایسی فضا پیدا کرتی ہے جہاں غلامی کو ووٹ کے پردے میں قانونی جواز دیا جاتا ہے۔

انہوں نے تاریخ سے وہ اسباق سیکھے جو اکثر نظرانداز کر دیے جاتے ہیں۔ نہرو اور گاندھی کی نیم نوآبادیاتی مصالحت پسندی کی بجائے، انہوں نے سبھاش چندر بوس جیسے انقلابیوں کا راستہ چنا—جو جبر کے خلاف مفاہمت نہیں، بلکہ مزاحمت کو آزادی کی بنیاد سمجھتے تھے۔ یہی وہ بصیرت تھی جس سے فدا بلوچ نے بلوچ قومی سوال کو پرکھا،کہ پاکستانی ریاست اور بلوچ کے درمیان کوئی جمہوری مفاہمت نہیں، بلکہ ایک استعماری تضاد موجود ہے—جسے صرف آزادی کی اصولی جدوجہد کے ذریعے ہی حل کیا جا سکتا ہے۔

فدا کی شہادت نے ان نام نہاد "پارلیمان نواز بلوچوں” کو بھی بے نقاب کر دیا، جو اقتدار، مراعات اور نمائندگی کے نام پر تحریک سے منحرف ہو چکے تھے۔ مگر فدا کے نظریاتی وارث، وہ نوجوان جو ان کی فکر سے مزاحمت کا ہنر سیکھ رہے تھے، ان جعلسازیوں کو پہچان گئے۔ انہوں نے مفاہمت کے نقاب کو اتار کر یہ واضح کیا کہ بلوچ قومی تحریک آزادی کے ساتھ ساتھ ایک فکری، اخلاقی اور نظریاتی تطہیر کا عمل ہے—جسے ترقی، مفاد اور وطن فروشی کے زہر سے آلودہ نہیں کیا جا سکتا۔

اگرچہ فدا کی شہادت کے بعد تحریک میں وقتی خاموشی آئی، مگر یہ درحقیقت اندر ہی اندر ایک انقلابی لاوے کا آغاز تھا، جو نوے کی دہائی کے آخری حصے میں ابھرتے ہوئے سامنے آیا، اور آج بھی ہر بلوچ نوجوان کے شعور میں الاؤ بن کر جل رہا ہے۔ ان کے قاتل یہ سمجھ بیٹھے کہ انہوں نے ایک نظریہ دفن کر دیا، مگر وہ یہ نہ جان سکے کہ نظریات گولی سے نہیں مرتے—بلکہ شہداء کے لہو سے نئی روشنی اور نئی زندگی حاصل کرتے ہیں۔

فدا بلوچ جانتے تھے کہ آزادی محض ریاستی قراردادوں، پارلیمانی نمائندگی یا مذاکرات کے ذریعے حاصل نہیں ہوتی۔ ان کے نزدیک یہ جدوجہد صرف ایک سیاسی عمل نہیں تھی، بلکہ ایک فکری، جغرافیائی، تہذیبی، ثقافتی اور تاریخی ضرورت تھی—جو فرد کو تاریخ، خودی اور آزادی سے جوڑتی ہے

فدا بلوچ کا مارکسزم و لینن ازم اندھی تقلید پر نہیں بلکہ جدلیاتی منطق، سائنسی روش، اور مقامی حالات کی سچائی پر مبنی تھا۔ وہ کسی سوویت، چینی یا لاطینی ماڈل کے مقلد نہیں تھے، بلکہ انہوں نے مارکسی فکر کو بلوچ قومی و زمینی حقائق کے ساتھ ہم آہنگ کیا۔ ان کا مارکسزم ایک عملی فکر تھا—جس میں علم تفہیم نہیں بلکہ عمل اور تبدیلی کا ذریعہ تھا۔

فدا احمد بلوچ ہمیں یہ سکھاتے ہیں کہ مزاحمت صرف ایک سیاسی ترجیح نہیں بلکہ ایک سائنسی اور اخلاقی ضرورت بھی ہے—ایک ایسی ضرورت جو قوم کو اس کے تاریخی مقام، سماجی فریضے اور قومی شعور سے آگاہ کرتی ہے۔ ان کی جدوجہد یہ بتاتی ہے کہ کسی بھی تحریک کی پائیداری کا انحصار اس کی فکری بنیادوں پر ہے، اور یہ بنیادیں تبھی مضبوط ہو سکتی ہیں جب ان میں علمی گہرائی، فکری استقلال اور شعوری مرکزیت موجود ہو۔ فدا بلوچ کی فکر کے پیچھے ایک ایسا فلسفہ اور نظریہ ہے جو فرد کو اپنی ذمہ داریوں اور حقیقتوں سے ہم آہنگ کرتا ہے۔ ان کی جدوجہد نے ثابت کیا کہ حقیقی تبدیلی تب ممکن ہوتی ہے جب نظریات، عمل اور معاشرتی تبدیلی ایک دوسرے کے ساتھ ہم آہنگ ہوں، اور ان سب کا محور قومی آزادی کی تحریک ہو۔

افسوس کا لمحہ یہ نہیں کہ دشمن مکار، بے رحم اور ظالم ہے—بلکہ اصل دکھ یہ ہے کہ فدا احمد بلوچ کو شہید کرنے میں ان کے اپنے قافلے کے ریاستی گماشتے شامل تھے، جو کٹھ پتلی اقتدار کے عوض فکری میناروں کو مٹاتے ہیں اور آج ان کے نظریات کو ریاستی مفاہمت کے تلے مسخ کر رہے ہیں۔ فدا احمد بلوچ کی شہادت ایک ایسی حقیقت ہے جسے نظرانداز کرنا بلوچ قوم کے لیے ایک سنگین غفلت ہے، کیونکہ ان کی جدوجہد اور نظریات نے ہمیں بتا دیا کہ مزاحمت اور آزادی کا راستہ کبھی مفاہمت یا ریاستی سازشوں سے نہیں آتا۔

شہید فدا نے واضح طور پر کہا تھا کہ آزادی کسی مفاہمتی عمل، عمرانی معاہدے یا پارلیمانی نشست سے نہیں آتی—بلکہ یہ اس شعوری مقام سے جنم لیتی ہے جہاں ایک قوم اپنی نوآبادیاتی حیثیت کو سمجھ کر اس کا ادراک کرتی ہے، اور مزاحمت کو زندگی کا فطری تقاضا مان لیتی ہے۔ یہ وہ مقام ہے جہاں آزادی کی حقیقتیں قوم کے رگ و پے میں سرایت کر جاتی ہیں، اور ہر فرد اس میں شریک ہو کر قابض نظام کو چیلنج کرنے کا عزم کرتا ہے۔

آج جب بلوچ نوجوان اپنی جانوں کی قربانی دے کر جدوجہد کر رہے ہیں، جب جبری گمشدگیاں روز بروز بڑھ رہی ہیں، اور بلوچ خواتین مزاحمت کی صفِ اول میں استقامت سے کھڑی ہیں، ایسے میں اُن عناصر کی موجودگی—جو "جمہوری سیاسی عمل” کے نام پر قابض ریاست کی عمارت کو مضبوط کر رہے ہیں—محض ایک فکری انحراف نہیں، بلکہ کھلی قومی غداری ہے۔ یہ وہ لوگ ہیں جو آزادی کے نام پر غلامی کو فروغ دے رہے ہیں، اور جدوجہد کے نام پر سمجھوتے کی سیاست کر رہے ہیں۔ ان کے چہروں پر قومی ہمدردی کے نقاب ہیں، مگر ان کے اعمال نوآبادیاتی ایجنڈے کے محافظ ہیں۔

یہ مزاحمت اب صرف ایک فکری، سیاسی یا نظریاتی فریضہ نہیں رہی، بلکہ ایک احتسابی عمل بن چکی ہے—ایسا احتساب جو صرف دشمن ریاست کے جرائم تک محدود نہ ہو، بلکہ اُن داخلی قوتوں کو بھی بے نقاب کرے جو جدوجہد کے جسم میں غداری کے زہر کو سرایت دے رہی ہیں۔ اب ضرورت اس بات کی ہے کہ مزاحمت کا ہر مورچہ شعوری ہو، ہر صف خالص ہو، اور ہر نعرہ قومی مقصد سے ہم آہنگ ہو۔

فکری وضاحت، نظریاتی صفائی اور عملی یکجہتی وہ ستون ہیں جن پر مزاحمت کی نئی بنیاد رکھی جانی چاہیے۔ کیونکہ اگر قوم کے اندر سے ہی دشمن کے ہتھیار بولنے لگیں، تو پھر خاموشی بھی جرم بن جاتی ہے، اور سمجھوتا سب سے خطرناک سازش۔ اس لیے اب مزاحمت کو صرف آزادی کی جنگ نہیں، بلکہ سچ اور جھوٹ کے بیچ فیصلہ کن معرکہ سمجھ کر لڑنا ہوگا۔

یاد رکھا جائے: شہداء کے آدرش صرف ان کے بہائے گئے لہو سے نہیں، بلکہ ہماری فکری دیانت، نظریاتی پختگی، قومی عزم، اور انقلابی یکسوئی سے مجسم ہوتے ہیں۔ شہداء کا خون تاریخ کا خاموش گواہ ہے، مگر ان کی فکر زندہ اقوام کے ضمیر میں گونجتی ہے۔ ان کے نظریات کی بقاء اس بات سے مشروط ہے کہ ہم اپنی شعوری وابستگی کو صرف جذباتی جوش تک محدود نہ رکھیں، بلکہ اسے ایک فکری، اخلاقی، اور تنظیمی ذمہ داری میں ڈھالیں۔

یہی وہ لمحہ ہے جب ہمیں شہید فدا احمد بلوچ کی فکر کو ایک "زندہ فلسفے” کے طور پر اختیار کرنا چاہیے—ایسا فلسفہ جو مزاحمت کو محض ردعمل کے بجائے ایک جامع تمدنی عمل بناتا ہے؛ جو شعور کو محض علم نہیں بلکہ ہتھیار بناتا ہے؛ اور آزادی کو فقط سیاسی مطالبہ نہیں بلکہ انسانی وقار، تاریخی خودی، اور وجودی معنویت کی صورت میں سمجھتا ہے۔

فدا بلوچ کی فکر میں وہی فکری بلندی، اخلاقی جرات، اور انقلابی گہرائی موجود ہے جو فرانز فینن کی تحریروں، اور اینٹونیو گرامشی کے فکری مزاحمتی نظریات میں پائی جاتی ہے۔ ان کا تصورِ آزادی ایک ایسے شعوری بیدار انسان کا تصور ہے جو نوآبادیاتی طاقت کے خلاف نہ صرف مزاحمت کرتا ہے بلکہ اپنے اندر ایک نیا انسان، ایک نئی قوم، اور ایک نیا سماج تخلیق کرتا ہے۔

اگر ہم واقعی شہداء کے وارث ہیں، تو لازم ہے کہ ہم ان کی فکر کو اپنا سیاسی نظریہ، انقلابی اصول، اور عملی لائحہ عمل بنائیں۔ کیونکہ زندہ اقوام وہی ہوتی ہیں جو اپنے شہداء کے نظریات کو زندہ رکھتی ہیں—اور انہیں روزمرہ کی سیاسی عمل جدوجہد، عوامی شعور، اور تنظیمی ڈھانچے کا مرکز بناتی ہیں۔ یہی شعوری تسلسل مزاحمت کو محض ردعمل سے نکال کر ایک تخلیقی اور تاریخ ساز قوت بنا دیتا ہے۔

مدیر

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Next Post

بھارت کا "آپریشن سندور" – پاکستان میں نو مقامات پر فضائی کاروائیاں، بہاولپور ،کھوٹلی، فیصل آباد اور مظفر آباد دھماکوں سے لرز اٹھے

بدھ مئی 7 , 2025
منگل اور بدھ  کی درمیانہ شب پاکستان کے مختلف شہروں میں زور دار دھماکوں کی گونج سنائی دی، جنہوں نے مقامی آبادی کو شدید خوف و ہراس میں مبتلا کر دیا۔ پنجاب کے ضلع بہاولپور میں یکے بعد دیگرے چار دھماکوں کی آوازیں سنی گئیں، جو اس قدر شدید تھیں […]

توجہ فرمائیں

زرمبش اردو

زرمبش آزادی کا راستہ

زرمبش اردو ، زرمبش براڈ کاسٹنگ کی طرف سے اردو زبان میں رپورٹس اور خبری شائع کرتا ہے۔ یہ خبریں تحریر، آڈیوز اور ویڈیوز کی شکل میں شائع کی جاتی ہیں۔

آسان مشاہدہ