تحریر: مظہر بلوچ
زرمبش مضمون

(ایک مختصر تحریر، جو صرف میرا نقطۂ نظر ہے)
جب کوئی "علم” کہتا ہے، تو میرا خیال اِس وسیع کائنات کے ہر ذرے کو جاننے، پرکھنے، اور اسے دنیا کے سامنے لانے کی جستجو پر جاتا ہے۔ مگر یہ مختصر سی زندگی، جو حقیقتاً اس عمل کے لیے ناکافی ہے، ہمیں مکمل علم حاصل کرنے کی اجازت ہی نہیں دیتی۔
علم، جاننے کا نام ہے، اور کائنات میں موجود اشیاء، خیالات اور حقیقتوں کے بارے میں جاننا ہی دراصل علم ہے۔
دنیا میں موجود اربوں کتابوں کو پڑھنا ممکن نہیں، اور نہ ہی دنیا میں کوئی ایسا شخص گزرا ہے جو علم کے حوالے سے مکمل ہو، یا جو سب کچھ جانتا ہو۔
بدقسمتی سے میرے سامنے چند مخصوص کتابوں کا ایک نامکمل خاکہ رکھ کر مجھ سے کہا گیا کہ:
"یہ کتابیں پڑھ لو، پھر تم ایک تعلیم یافتہ، قابلِ احترام اور غیر معمولی شخص بن جاؤ گے۔ اور معاشرے میں تمہارا ہونا ناگزیر ہوگا۔”
لیکن جب میں اپنے معاشرے پر نظر دوڑاتا ہوں، تو مجھے ہر روز ہزاروں ایسے نوجوان نظر آتے ہیں جو نہ صرف خود کو، بلکہ معاشرے کو بھی تعلیم یافتہ نظر آتے ہیں۔
میری تعلیم بھی اسی نظام سے ہوئی، جسے پاؤلو فرائرے نے "بینکنگ ماڈل آف ایجوکیشن” کہا ہے، جس میں طالب علم کو خالی برتن سمجھا جاتا ہے، جسے استاد اپنے مشاہدات، تجربات، اور رٹی ہوئی معلومات سے بھر دیتا ہے۔
جہاں طالب علم کا کام جاننا نہیں، بلکہ صرف معلومات جمع کرنا ہے۔
جب میں بلوچی بولنے کے قابل ہوا، تو اردو کا طمانچہ میرے منہ پر مارا گیا۔ مجھے بلوچی سیکھنے کی بجائے اردو سیکھنے پر مجبور کیا گیا، جس نے نہ صرف میرے جذبات کو مجروح کیا، بلکہ میرے خیالات کو دنیا کے سامنے رکھنے سے بھی روکا۔
جب میں سوچنے اور تجسس کرنے کے قابل ہوا، تو مجھے انگلیوں پر گن کر "خدا کی تخلیقات” بتا دی گئیں، اور سوال کرنے کی میری فطری صلاحیت کو ہمیشہ کے لیے بند کر دیا گیا۔
یہ وہ عمل تھا جس نے مجھے خاموش رہنے پر مجبور کیا، اور اپنے جائز حقوق سے بھی دستبردار ہونے پر آمادہ کیا۔
حالانکہ چیخنا، سوال کرنا، اور اپنے حقوق کے لیے آواز بلند کرنا ایک فطری عمل ہے، لیکن یہاں خاموشی کو "ادب” کے غلاف میں لپیٹ کر خوبصورت بنا دیا گیا۔
جب میں تخلیق کرنے کے قابل ہوا، تو مجھے جاہل اور کم علم کہا گیا۔ میری تخلیقی صلاحیتوں کا مذاق اُڑایا گیا تاکہ میں شکست تسلیم کر کے ان کی لکھی ہوئی راہ پر چل پڑوں، کیونکہ ان کے مفادات میری خاموشی میں چھپے تھے۔
جب میں سیکھنے اور پڑھنے کے قابل ہوا، تو مجھے سیکھنے سے نفرت سکھائی گئی۔ ریاستی نصاب کی محدود کتابوں کو ہی علم کہا گیا، اور بتایا گیا کہ انہی کتابوں سے روایتی امتحان پاس کر کے تم روزگار حاصل کرو گے۔
پھر تمہارے پاس پیسہ، مکان، اور شادی ہوگی — یعنی یہی ہے زندگی۔
مگر حقیقتاً، یہ زندگی نہیں!
زندگی احساس کا نام ہے، زندگی محبت کا نام ہے۔
زندگی خود کو انسانیت کے لیے، انقلاب کے لیے وقف کرنے کا نام ہے۔
یہ علم کے ساتھ وہ دغا بازی ہے جس کی سزا ناقابلِ معافی ہے۔
میری کردار سازی کے لیے مجھے ہزاروں خیالی سبق پڑھائے گئے، لیکن ایسا کوئی کردار میرے معاشرے میں کہیں نظر نہیں آیا۔
مختصراً، جن چیزوں سے مجھے نفرت سکھائی گئی، اُن میں محبت، حقیقت پسندی، سچ بولنا، تحقیق کرنا، اور تخلیق کرنا شامل تھا۔
جبکہ مجھے محبت سکھائی گئی — موت سے!
محبت سکھائی گئی — تباہی سے!
اور سکھایا گیا کہ مکمل خاموشی سے اپنی ہی تباہی کو دیکھتے رہو۔
یہ سب صرف تعلیمی اداروں میں نہیں، بلکہ میرے معاشرتی اقدار، روایات، اور زندگی کے مخصوص دائرے نے مجھے سکھایا، جو کہ خود یرغمال ہو چکے ہیں۔
پھر میری شخصیت ایک ایسے روبوٹ میں بدل گئی، جس کا مقصد صرف ایک خاص طبقے کے مفادات کے لیے کام کرنا تھا۔
مگر میرے معاشرے نے مجھے کامیاب انسان کہا۔