دس نسلوں کی دھمکی اور جرنیلی غرور!

تحریر: رامین بلوچ ـــ پانچواں حصہ
زرمبش مضمون

اقوامِ متحدہ کی قرارداد 1514 اس بات کی ضمانت دیتے ہیں کہ آزادی کی تحریک صرف ایک آپشن نہیں بلکہ ناگزیر تقاضا بن جاتی ہے۔ بلوچ قوم آج اسی نظریاتی اور قانونی بنیاد پر اپنی مزاحمتی جدوجہد جاری رکھے ہوئے ہے۔ یہ تحریک نہ صرف کالونائزر کی بلوچ وطن سے دستبرداری کا پیغام ہے، بلکہ انسان کے اس ازلی حق کی بازیافت ہے جسے نہ جبرختم کر سکتا ہے، نہ بندوق۔۔
جب کسی قوم پر ریاست محض بندوق کے دہانے سے مسلط کی جائے، جب اس کی زمین کو غنیمت اور اس کے وسائل کو مالِ غنیمت سمجھا جائے، جب اس کی زبان، شناخت، اور تاریخ کو مٹانے کے لیے تعلیمی نظام، میڈیا اور مذہبی بیانیہ استعمال کیا جائے — تو ایسی ریاست نہ صرف غیر قانونی ہے بلکہ فکری، اخلاقی اور انسانی اصولوں کے خلاف ایک کھلی بغاوت ہے۔ بلوچ قوم نے اسی بغاوت کو پہچان کر، اسے مسترد کر کے، اور اس کے خلاف مزاحمت کر کے دراصل انسانیت کے عظیم فلسفیانہ اصولوں کی پاسداری کی ہے۔
یہ ریاست محض سیاسی جبر نہیں، بلکہ ایک نوآبادیاتی استعمار ہے جس کا ڈھانچہ عسکریت، مذہبی فریب، اقتصادی لوٹ مار، اور ثقافتی نسل کشی پر
استوار ہے۔ بلوچ قوم اس ریاست کے ہر اس لغت، ہر اس آئین، ہر اس بیانیے کو رد کرتی ہے جو اس کے حقِ مزاحمت کو جرم، اور اس کی
جدوجہد کو دہشت گردی قرار دیتا ہے۔ کیونکہ جب غلامی کو قانون کہہ دیا جائے، تو مزاحمت فرض بن جاتی ہے۔اورغلامی اور آزادی کے درمیان کوئی مفاہمت ممکن نہیں۔ بلوچ مزاحمت ان تمام فکری اصولوں کی عملی شکل ہے۔
تاریخ شاہد ہے کہ کوئی بھی سامراجی قوت، چاہے وہ جتنی بھی طاقتور ہو، اقوام کی اجتماعی ارادے کے سامنے زیادہ دیر ٹھہر نہیں سکی۔ ایریٹیریا نے ایتھوپیا جیسے بڑے ریاستی ڈھانچے کو توڑا، اور تیمور نے انڈونیشیا کی طاقت کو جھٹلایا۔ بلوچ قوم بھی اسی عالمی تسلسل کا حصہ ہے — یہ جدوجہد تنہا نہیں، بلکہ تاریخ کی عظیم اور لازوال روایت کی ایک کڑی ہے۔
آزادی بلوچ قوم کا مطالبہ کوئی جذباتی دعویٰ، یا کسی ریاست کے خلاف بغاوت نہیں، بلکہ یہ اس کا پیدائشی، فطری اور ناقابلِ تنسیخ حق کی بازیافت ہے۔ یہ وہ حق ہے جو نہ بندوق سے مٹایا جا سکتا ہے، نہ آئینی موشگافیوں سے چھینا جا سکتا ہے، کیونکہ یہ حق انسانی وجود کے ساتھ پیوست ہے — اور جو بھی اس حق کو پامال کرے، وہ تاریخ کے کٹہرے میں مجرم ٹھہرتا ہے۔— ایسا حق جو نہ ریاستی عدالتوں کے فیصلوں سے مٹایا جا سکتا ہے، نہ عسکری چھاؤنیوں سے، نہ مذہبی فتووں سے۔ اس حق کا سرچشمہ بلوچ شعور ہے، جو وقت کے ساتھ پختہ ہو رہا ہے۔ ہر
گمشدہ نوجوان، ہر شہید، ہر پہاڑ پر لہرایا ہوا جھنڈا اس حق کی گواہی ہے کہ بلوچ قوم نے غلامی کے بیانیے کو رد کر کے آزادی کی حتمی اور منطقی اور فیصلہ کن جنگ کا انتخاب کرچکاہے۔
اور یہ جنگ صرف بندوقوں سے نہیں لڑی جا رہی، بلکہ علم، شعور، فلسفہ، شاعری، تاریخ اور قربانی کے امتزاج سے لڑی جا رہی ہے۔ جب قومیں تاریخ سے، فکر سے اور قربانی سے جُڑ جائیں، تو کوئی قوت انہیں روک نہیں سکتی — نہ آئین، نہ افواج، نہ فتوے۔
آزادی محض ایک سیاسی نعرہ نہیں بلکہ انسانی شعور کا وہ اولین ادراک ہے جو غلامی، جبر اور محکومی کے ہر مظہر کے خلاف فطری اور لازمی ردعمل بن کر ابھرتا ہے۔ بلوچ قوم کی جانب سے پاکستان کی عسکری، نوآبادیاتی اور استحصالی ریاست کو غیر قانونی اور غیر اخلاقی قرار دینا کوئی جذباتی مؤقف نہیں بلکہ اس کی جڑیں فلسفہ آزادی، تاریخی تجربات اور سیاسی منطق میں پیوست ہیں۔
۔ بلوچ قوم کا واضح مؤقف ہے کہ ایک ایسی ریاست، جو طاقت کے بل پر قبضہ کرے، نہ تو جائز ہے، نہ اخلاقی اور نہ ہی آئینی۔ یہ وہی تحریک ہے جو استعماری لغت میں بغاوت اور دہشت گردی کہلاتی ہے، مگر درحقیقت یہ قومی بقا، شناخت اور آزادی کی جنگ ہے۔بلوچ مزاحمت اسی شعوری ارتقاء کا اظہار ہے، جو غلامی کو ایک غیر فطری کیفیت اور آزادی کو ایک وجودی ضرورت سمجھتی ہے۔
جب ریاست نوآبادیاتی ذہنیت کو عسکری طاقت سے جوڑ کر ایک محکوم قوم پر تسلط قائم رکھنا چاہتی ہے، تو وہ دراصل تاریخ، اخلاق، اور انسانی شعور کے خلاف جنگ چھیڑتی ہے۔ پاکستانی ریاست کا عسکری بیانیہ، جو بلوچ قومی مزاحمت کو "دہشت گردی” اور "ریاست دشمنی” کے
فریب میں ملفوف کرتا ہے، اسی سامراجی ذہنیت کا تسلسل ہے جو دنیا میں دیگر نوآبادیاتی مقبوضات میں واضح دکھائی دیتی ہے۔ خاص طور پر جب ایک ریاستی فوج کا سربراہ بلوچ قوم کو دھمکی دیتا ہے کہ "پندرہ سو لوگ بلوچستان کو آزاد نہیں کرا سکتے، تمہاری دس نسلیں بھی نہیں لڑ سکتیں ” تو یہ فقط عسکری تکبر نہیں بلکہ استعماری غرور کی بازگشت ہے۔
تاریخ اس بات کی گواہ ہے کہ جس لمحے سامراجی ذہن نوآبادیات کے خلاف ایسا غرور بھرا لہجہ اختیار کرتا ہے، اسی لمحے اس کے زوال کی ابتدا ہو چکی ہوتی ہے۔، آئرلینڈ، روانڈا، اور نامیبیا کی تحریکیں ایسے ہی غرور کے سامنے ابھریں اور کامیاب ہوئیں۔
ریاستی لغت میں جب "قوم دوستی” کو "بغاوت” کہا جائے، جب "آزادی کے مطالبہ” کو "غداری” کہا جائے، اور جب "مزاحمت” کو "دہشت گردی” کہا جائے، تو ہم صرف عسکری قوت کا نہیں بلکہ فکری استبداد کا سامنا کر رہے ہوتے ہیں۔ ایڈورڈسعید نے اپنے مشہور تصنیف Orientalism میں بتایا کہ سامراج نہ صرف زمین پر قبضہ کرتا ہے، بلکہ ذہنوں پر بھی قابض ہو جاتا ہے، اور اپنی لغت سے محکوم اقوام کی شناخت اور جدوجہد کو غیر قانونی و غیر اخلاقی ظاہر کرتا ہے۔وہ لکھتاہے جب استعمار انسان کی زمین، ثقافت، اور جسم پر قبضہ کر لیتا ہے تو انسان کی واپسی صرف مزاحمت سے ممکن ہے۔”
1971 میں پاکستانی فوج کے جنرلز بھی یہی کہتے تھے: "مٹھی بھر بنگالی کیا پاکستان توڑیں گے؟” لیکن تاریخ نے ثابت کیا کہ نظریاتی وابستگی، اجتماعی شعور، اور ثقافتی مزاحمت کسی بھی عسکری قوت سے بڑی ہوتی ہے۔آج بلوچ تحریکِ آزادی کے ساتھ بھی یہی رویہ ہے، مگر بنگال کے بعد اب دنیا اس حقیقت سے واقف ہے کہ ریاستی تشدد اور حق تلفی زیادہ دیر تک قائم نہیں رہ سکتے۔
ہومی بھابھا کے مطابق، نوآبادیاتی طاقت کی زبان ہمیشہ دوہری ہوتی ہے: ایک طرف یہ محکوم کو تہذیب کا طلبگار بناتی ہے، اور دوسری طرف اُسے ہمیشہ ناقص، کمتر اور خطرناک ثابت کرتی ہے۔ یہی تضاد آج بلوچ قوم کی مزاحمت کے گرد گھومتی عسکری لغت میں صاف دکھائی دیتا ہے
کالونئیل لغت میں "دہشت گردی” وہ لفظ ہے جو استعمار اپنے خلاف کھڑے ہونے والی ہر آزادی کی تحریک کے لیے استعمال کرتا ہے۔ آج یہ لفظ بلوچ نوجوانوں کے لیے استعمال ہو رہا ہے، کل یہ نیلسن منڈیلا، سوکارنو، اور ہو چی من کے لیے استعمال ہوتا تھا۔
ارنسٹ گیلنر (Ernest Gellner) کے مطابق قوم صرف ایک ثقافتی اکائی نہیں بلکہ ایک سیاسی مطالبہ بھی ہے جو خودمختار ریاست کے قیام کی خواہش سے جُڑا ہوتا ہے۔ بینڈکٹ اینڈرسن (Benedict Anderson) نے قوم کو "تصوراتی جماعت” (Imagined Community) قرار دیا، جو ایک مخصوص تاریخی، ثقافتی اور سیاسی شعور کے ساتھ جڑی ہوتی ہے۔ بلوچ قوم ایک واضح لسانی، ثقافتی، جغرافیائی اور تاریخی وجود رکھتی ہے، جس نے ہمیشہ اپنی قومی آزادی اور خودمختاری کے لیے جدوجہد کی ہے۔ "۔
ایڈورڈ سعید اپنی شہرہئ آفاق تصنیف Orientalism میں وضاحت کرتے ہیں کہ استعماری طاقتیں نہ صرف زمین پر قبضہ کرتی ہیں بلکہ زبان، لغت اور بیانیے پر بھی۔ وہ محکوم اقوام کو غیر مہذب، غیر عقلی اور غیر ترقی یافتہ ثابت کرکے ان پر حکمرانی کو ایک "اخلاقی فریضہ” بنا کر پیش کرتی ہیں۔ پاکستانی عسکری بیانیہ اسی نوآبادیاتی لغت کا بوسیدہ تسلسل ہے، جو بلوچ عوام کو "چند شرپسند”، "دہشتگرد” اور "پندرہ سو علیحدگی پسند” قرار دے کر ان کی قومی آزادی کی جدوجہد کو غیر قانونی اور غیر اخلاقی بنا دیتا ہے۔
یہ لغت صرف الفاظ کا مجموعہ نہیں بلکہ ایک سیاسی اسلحہ ہے، جو شعور کی نوآبادیاتی تشکیل کرتا ہے۔ نوآبادیاتی لغت کا انہدام ضروری ہے کیونکہ جب تک بلوچ قومی تحریک کو انہی استعماری اصطلاحات میں بیان کیا جاتا رہے گا، اس کی معنویت اور اخلاقی حیثیت مسخ ہوتی رہے گی۔ لہٰذا، آزادی کی جدوجہد کا ایک بنیادی قدم نوآبادیاتی لغت کو مسترد کرنا اور اپنی لغت و مفاہیم کی بازیافت ہے — وہ لغت جو مزاحمت، خود ارادیت، شہادت، قربانی، غیرت، اور قومی شعور سے عبارت ہو۔
جیسا کہ نگوجی واتیونگو (لکھتے ہیں:
"زبان صرف اظہار کا ذریعہ نہیں بلکہ شعور کی تشکیل کا بنیادی وسیلہ ہے۔ جب آپ کی زبان چھین لی جاتی ہے تو آپ کی دنیا، آپ کا تصورِ ذات اور آپ کی مزاحمت کی صلاحیت بھی سلب ہو جاتی ہے۔”
نوآبادیاتی لغت کا انہدام صرف استعمار کے بیان کو رد کرنا نہیں، بلکہ اپنی آزادی کو معنوی سطح پر تسلیم کرنا ہے۔
فینن کے مطابق آزادی کا پہلا قدم استعماری لغت کو مسترد کرنا ہے، کیونکہ جب محکوم اپنی خودی کو پہچان لیتا ہے، تب استعمار کی بندوق بھی بے اثر ہو جاتی ہے۔ بلوچ قوم آج اسی شعور کی دہلیز پر کھڑی ہے۔ وہ جان چکی ہے کہ ان پر مسلط ریاستی طاقت کا ہر دعویٰ صرف جبر ہے، جسے اخلاق، منطق یا انصاف کی کوئی پشت پناہی حاصل نہیں۔
جب جنرل طاقت کے زعم میں بلوچ عوام کو ہدف بناتا ہے، تو وہ خود کو تاریخ سے بے خبر ثابت کرتا ہے۔ بلوچ قوم کے چند لوگ اس کے نوآبادیاتی غرور کو شکست دینے کے لیے کافی ہیں، کیونکہ وہ صرف افراد نہیں، ایک اجتماعی شعور اور تاریخ کی گونج ہیں۔
اور تاریخ نے ہمیشہ بتایا ہے کہ:> ایمپائرز خواب دیکھتے ہیں، لیکن قومیں جاگ کر ان خوابوں کو توڑ دیتی ہیں۔”بلوچ قوم کا جاگنا نوآبادیاتی پاکستان کے خواب کا اختتام ہے۔
پاکستانی عسکری قیادت کا بیانیہ اسی ذہنی قبضے کا تسلسل ہے جو بلوچ عوام کو قائل کرنا چاہتا ہے کہ وہ آزاد ہونے کے اہل نہیں۔ لیکن فینن بتاتے ہیں کہ جب مظلوم اپنی قدر پہچان لیتے ہیں، تو سب سے پہلے وہ استعمار کے لغت کو مسترد کرتے ہیں — اور یہی لغت آج بلوچ نوجوان رد کر چکا ہے۔
جان اسٹورٹ مل لکھتے ہیں:
"کسی قوم کو اس کی مرضی کے خلاف کسی دوسری قوم کے زیرِ تسلط رکھنا بدترین جبر ہے۔”
پاکستانی فوجی ذہنیت درحقیقت اس فسطائیت کی نمائندہ ہے جو غیر فطری ریاست کو "مقدس وحدت” اور بلوچ جہد کو "غداری” سمجھتی ہے۔
جب کوئی ریاست اپنی بندوقوں سے قومی مطالبات کا جواب دیتی ہے، جب وہ سیاسی جنز کو غداری اور قومی شناخت کو بغاوت قرار دیتی ہے، تو وہ درحقیقت اپنے خاتمے کی طرف ایک قدم بڑھا رہی ہوتی ہے۔
اس لیے جب کوئی جنرل اپنی وردی کے غرور میں بلوچ قوم کو "پندرہ سو افراد” کہتا ہے، تو وہ نہ صرف فکری دیوالیہ پن کا اظہار کرتا ہے، بلکہ تاریخ کے ہر اُس لمحے کو جھٹلاتا ہے جہاں چند ہزار لوگوں نے ایمپائرز کو جھکا دیا۔

مدیر

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Next Post

بولان اور کیچ میں پولیس تھانے اور فورسز کی چوکی پر حملے

اتوار اپریل 27 , 2025
بلوچستان کے ضلع بولان کے علاقے ڈھاڈر اور کیچ کے علاقے زمران میں پولیس اور پاکستانی فورسز کو حملوں میں نشانہ بنایا ہے۔ پولیس کے مطابق اتوار اور پیر کی درمیانی شب نامعلوم افراد نے پولیس تھانے پر ہینڈ گرنیڈ پھینکا اور موقع سے فرار ہو گئے۔ پولیس حکام کا […]

توجہ فرمائیں

زرمبش اردو

زرمبش آزادی کا راستہ

زرمبش اردو ، زرمبش براڈ کاسٹنگ کی طرف سے اردو زبان میں رپورٹس اور خبری شائع کرتا ہے۔ یہ خبریں تحریر، آڈیوز اور ویڈیوز کی شکل میں شائع کی جاتی ہیں۔

آسان مشاہدہ